شاہ جہاں: مغلوں کا ایک عظیم شہنشاہ اور معمار جو قید میں مرا


1999ء میں دہلی کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

اکبر بادشاہ کی زندگی ہی میں 1592ء جہانگیر کے ہاں  تیسرے بیٹے کی ولادت ہوئی۔ اکبر نے اپنے اس پوتے کا نام شہاب الدین محمد خرم تجویز کیا۔ یاد رہے کہ شہاب الدین محمد خرم نے اپنے لیے شاہ جہاں جس کا مطلب ہے زمانوں کا بادشاہ کا لقب پسند کیا تھا اور اب وہ اسی نام سے جانا جاتا ہے۔

مغل بادشاہوں پر ابراہم ارلی نے ایک بہت ہی مفید اور معلومات سے بھر پور کتاب
Emperors of the Peacock Throne: The Saga of the Great Mughals

کے نام سے لکھی ہے۔ اس کے مطابق شاہ جہاں کی والدہ کا تعلق ایک ہندو راجپوت گھرانے سے تھا جس کا آبائی وطن مارواڑ تھا۔ اکبر کی وفات کے بعد جہانگیر اپنے بھائیوں سے کئی لڑائیاں لڑنے کے بعد 1605ء میں مغلیہ سلطنت کا سربراہ بنا۔ وہ 22 سال تک ہندوستان کا بادشاہ رہا اور 1627ء میں اس کی وفات ہوئی۔ اس کے بیٹوں کے درمیان میں بھی کئی جنگیں ہوئیں جس میں شاہ جہاں کامیاب ہوا اور 35 سال کی عمر میں وہ ہندوستان کے تخت کا وارث بن گیا۔ ہر مغل بادشاہ کی وفات پر جانشین کا فیصلہ میدان جنگ میں ہی ہوتا تھا۔ اس سے لگتا ہے کہ وہ جانشین چننے کا کوئی نظام وضع نہ کر سکے۔ ایسی جنگوں نے مغلیہ سلطنت کو کمزور کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا۔

عام طور پر مغل بادشاہ آخری دم تک حکمرانی کرتے اور ان کے مرنے کے بعد ہی ان کے وارث تخت پر بیٹھتے لیکن شاہ جہاں کا معاملہ بالکل مختلف تھا۔ تقریباً بتیس سال تک وہ بلا شرکت غیرے حکومت کرتا رہا۔ 1657ء میں جب اس کی عمر پینسٹھ سال ہوئی تو وہ شدید بیمار ہو گیا۔ اس کی بیماری کو بہانہ بنا کر اورنگ زیب نے اپنے بھائیوں سے لڑائیاں لڑیں اور ان کو شکست دے کر اپنے والد کی زندگی میں ہی ہندوستان کا بادشاہ بن گیا۔

ابراہم مزید لکھتے ہیں کہ شاہ جہاں نے آگرہ قلعے میں اپنی زندگی کے آخری نو سال بیماری سے لڑتے ہوئے اور تنہائی میں گزارے۔ مجھے وہ کمرہ دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے جہاں شاہ جہاں نے اپنی زندگی کے آخری سال گزارے اور وہ کمرے کی کھڑکی سے تاج محل کو دیکھ کر اپنا دل بہلاتا تھا۔ اس دوران صرف اس کی بیٹی ہی اس کی خدمت کرتی تھی کیونکہ اس کے علاوہ کسی کو شاہ جہاں کے پاس آنے کی اجازت نہ تھی۔

یہ جاننے کے لیے کہ شاہ جہاں کو اس جگہ سے تاج محل کیسا نظر آتا تھا، میں نے اس کمرے کی کھڑکی میں کھڑے ہو کر تاج محل کا نظارہ کیا۔ اس کے لیے مجھے سیکورٹی والوں سے خصوصی طور پر اجازت لینا پڑی۔ یہ ایک ناقابل بیان اور ناقابل فراموش منظر تھا جو مدتوں سے مجھے یاد ہے اور میں اب بھی تصور میں یہ منظر دیکھ لیتا ہوں جو مجھے آس اور پاس کے درمیان فرق واضح کر دیتا ہے۔ یوں کہا جا سکتا ہے کہ بادشاہ اپنے ہی بنائے ہوئے محل کو دیکھتے دیکھتے اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔

بیٹی کی خواہش کے باوجود عالمگیر نے صرف چند ملازمین کو جن کی تعداد پندرہ سے زائد نہیں تھی شاہ جہاں کا جنازہ پڑھنے کے اجازت دی تھی۔ شاہ جہاں نے اپنی تدفین کی جگہ پہلے سے طے کر رکھی تھی جو ممتاز محل کے پہلو میں تھی۔

بادشاہ کی خواہش کا احترام کیا گیا اور انھیں اپنی بیوی کے پہلو میں دفن کر دیا گیا۔ اب یہ دونوں قبریں ساتھ ساتھ ہیں، ایک اس کی جس کی یاد میں تاج محل بنایا گیا اور دوسری اس کی جس نے اس کا خواب دیکھا اور اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ عالمگیر کا اپنے والد سے یہ سلوک کسی کو بھی پسند نہیں آیا، نا ہی کسی دوست کو اور نا ہی کسی دشمن کو۔

شاہ جہاں کا دور نسبتاً امن کا دور گنا جاتا ہے، گو کہ اس کے دور میں صفوی خاندان اور پرتگیزیوں کے ساتھ مختصر جنگیں ہوئیں۔ شاہ جہاں کے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے جو اس کی خارجہ پالیسی کا ایک مظہر تھا۔ شاہ جہاں کو مغلوں کا معمار بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے دور سے پہلے مغل طرز تعمیر میں سرخ پتھر استعمال ہوتا تھا، وہ پہلا شخص تھا جس نے سفید پتھر کا استعمال بھی کیا۔ اس کے بعد بھی جو عمارتیں بنائی گئیں ان میں زیادہ تر سرخ پتھر ہی کا استعمال ہوا ہے جیسا کہ بادشاہی مسجد لاہور جو کہ عالمگیر نے بنائی تھی۔ شاہ جہاں نے جو مساجد اور قلعہ جات بنائے ان کی ایک طویل فہرست موجود ہے جن میں تاج محل، آگرہ کے قلعے میں توسیع، لال قلعہ دہلی، جامع مسجد دہلی قابل ذکر ہیں۔

شاہ جہاں وہ شخص ہے جو بیس سال کا ہوا تو اسے ایک صوبے کی ذمہ داری دے دی گئی، 35 سال کا ہوا تو اسے ایک بہت بڑی سلطنت کا وارث بنا دیا گیا، لیکن اس کا انجام یہ ہوا کہ عام لوگوں کو اس کا جنازہ پڑھنے کی بھی اجازت نہ ملی۔ اس نے اپنی زندگی کے آخری نو سال قید تنہائی میں گزارے۔

کہا جاتا ہے کہ آخری دنوں میں اس نے اپنے فرزند ارجمند عالمگیر سے کہا کہ مجھے چند بچے دے دیے جائیں تاکہ ان کو پڑھا کر اپنا وقت گزار لوں۔ عالمگیر نے جواب دیا ابھی بھی آپ کے دماغ سے بادشاہت کی بو نہیں گئی، آپ اب بھی چاہتے ہیں کوئی تو ہو جس پر آپ اپنا حکم چلا سکیں۔ شاہ جہاں نے بھی اپنے بھائیوں کو قتل کر کے بادشاہت سنبھالی اور اس کے بیٹے نے بھی بادشاہ بننے کے لیے اپنے بھائیوں کا قتل کیا۔

سدا ایسا ہی ہوتا آیا ہے، کل بھی، آج بھی اور شاید آنے والے کل بھی۔ اللہ کرے کہ آئندہ ایسا نہ ہو۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments