شادی اور ذمہ داری کا کھیل


میرے لئے اس خبر میں حیران کن بات بس یہی تھی کہ ایک معاشی طور پر خود مختار خاتون نے زندگی کے راستوں کو چھوڑ کر موت کی راہ اپنا لی باقی مرنے سے پہلے تحریر چھوڑ دینا سب اب ایک روٹین کا قصہ لگتا ہے۔ مجھے یاد ہے زمانہ طالب علمی میں پہلی بار میں نے ایک ٹی وی ڈرامے میں ایک خاتون کو خود کشی کرتے دیکھا تھا۔ اس ڈرامے کا وہ منظر کتنی ہی دیر میری سماعتوں میں گونجتا رہا۔ اس روز پہلی بار مجھے لگا اپنے ہاتھوں سے موت کو گلے لگانے والے لوگ بہت بہادر ہوتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ سوچ کا زاویہ بدل گیا اور اب مجھے لگتا ہے کہ مرنا بہادری نہیں بلکہ بزدلی کی نشانی ہے۔

اس دور میں جینا ہی سب سے بڑی بہادری ہے۔ میری روز کا تعلق ایک ایسے شعبے سے تھا جہاں آئے روز وہ عورتوں کی خودکشیوں کے قصے سنتی رہتی تھی۔ معاشی تنگی کے باعث عورت اپنے تینوں بچوں کو لے کر نہر میں کود گئی جیسی خبریں میری روز کے لئے نئی نہیں تھیں۔ زندگی کے نئے سفر کا آغاز اس نے اپنے ہی شعبے کے شخص کا انتخاب کر کے کیا۔ دلاور کا تعلق بھی پولیس کے شعبے سے تھا اور میری روز کو لگتا تھا کہ ایک ہی شعبے میں ہونے کے باعث وہ دونوں ایک دوسرے کے مسائل کو بہت اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں لیکن یہاں میری روز سے بھول ہو گئی اور ایک غلط انتخاب کی سزا اسے شادی کے کچھ عرصے بعد ہی ملنے لگی۔

میری روز کی شادی ہوئی اور اللہ نے اسے دو پیاری سی بیٹیوں سے بھی نوازا لیکن زندگی کی تلخیاں اب بڑھنے لگی تھیں۔ شاہراہ زیست پر جب تلخیوں کی مقدار بڑھنے لگی تو میری روز کی زندگی کی کہانی کا بھی دردناک انجام سامنے آ گیا اور اس کی آخری تحریر اور اس میں موجود جملہ اب نہ جانے کتنے دنوں تک سوشل میڈیا کی زینت بنا رہے گا۔ شادی اور ذمہ داری کے اس کھیل میں میری روز زندگی ہار گئی۔ ہمارے معاشرے میں شادی کے نام سے نجانے کیوں اب بہت تلخ زندگی کا تصور جڑ گیا ہے۔

ہماری ماؤں کے زمانے اور تھے جب ایک ہی شخص کے ساتھ زندگی گزارنے کا معاہدہ عمر بھر کا معاہدہ سمجھا جاتا تھا۔ دونوں فریقین سمجھوتے کی ٹرین پر بیٹھ کر اپنے اپنے حصے کی نشست سنبھال لیتے تھے۔ نشست سنبھالنے سے پہلے دونوں کو صبر کے چند گھونٹ پلا دیے جاتے تھے جسے اپنے حلق سے نیچے اتار کر دونوں زندگی کی گاڑی کو آخری اسٹیشن تک لے جاتے تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ اس زمانے میں شادیاں ناکام نہیں ہوتی تھیں لیکن شرح خاصی کم تھی۔

اب حالات مختلف ہیں اب لڑکیاں اس نشست کی تمام تر تلخیوں کو زیادہ دیر تک اپنے حلق سے نیچے نہیں اتار سکتیں۔ طلاق ایک حرام فعل نہیں ہے لیکن معاشرہ کبھی بھی ایک طلاق یافتہ کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتا۔ میری روز اگر دلاور سے طلاق لے لیتی تو شاید کہانی مختلف ہوتی لیکن کہانی کو مختلف ہی تو نہیں ہونا تھا۔ یہ ہمارے روشن خیال معاشرے کی کہانی ہے جہاں عورت خود مختار ہونے کے باوجود قید ہے۔ قصور معاشرے کا ہو حالات کا یا پھر مرد کا اس خودکشی نے بہت کچھ عیاں کر دیا ہے۔ شادی اور ذمہ داری کا کھیل تو ختم ہوا لیکن میری روز کی تحریر کے اس جملے کی تکلیف کم نہیں ہو رہی۔

” ماں میری بیٹیوں کی شادی کسی انسان سے کرنا جو ذمہ داری اٹھا سکے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments