دوسرا خط: ان کے نام: جن سے ہاتھ باندھ کے معافی مانگنے کو دل چاہتا ہے


میرے مظلومو!

پتا نہیں اس وقت، جب میں یہ سطریں لکھ رہی ہوں، تم سب کہاں ہو؟ دنیا کا کون سا گوشہ تمہارا ٹھکانہ ہے؟ تم سب کیسے لوگوں کی رفاقت میں ہو؟ آسمان کے کس ستارے میں تمہاری چمک مخفی ہے؟ نہیں معلوم کہ تمہارے شب و روز کی داستان میں خوشیوں کے مثبت سندیسے آنا شروع ہوئے ہیں کہ نہیں؟ لیکن میں بہار میں جب بھی سنبل کے درخت دیکھتی ہوں تو مجھے تم سب کی یاد آتی ہے اور ان زخموں کو ہرا کرتی ہے جو عمر کے مختلف حصوں میں دوسروں کے تم سب سے ناروا سلوک نے میرے دل پر لگائے ہیں۔ تب میں کمزور تھی۔ ناسمجھ اور لا پرواہ تھی۔ لیکن میرا یقین کرو کہ میں نے تم سب کے درد کو تب بھی محسوس کیا تھا۔ بے بسی کا ادراک تب بھی تھا لیکن مسیحائی کا ہنر نہیں آتا تھا۔ جس پر مجھے آج بھی ندامت ہے۔

اس طالب علم کا درد جو مروجہ اصولوں کے تحت، بمطابق استاد نالائقوں کے زمرے میں آتی تھی۔ اور جماعت میں روز سزا کی مستحق ہوتی تھی۔ اس دن بھی تذلیل اور ڈر کی وجہ سے وہ استاد کو بتا نہیں سکی کہ واش روم جانے کی حاجت ہے اور کپڑے خراب ہو گئے۔ اور اس کے بعد جو تماشا ٹیچر نے لگایا، وہ پورے سکول نے دیکھا۔ جس طرح اچھوتوں کی طرح اسے سکول کے بڑے سے میدان میں کھڑا کیا۔ ذلت، تحقیر، عزت نفس کا مجروح ہونا، سب لمحہ لمحہ میرے اندر اس دن اترا تھا جب میں سائنس سیکشن سے کلاس پڑھ کر اپنے بستے سے مزید کچھ نکالنے آئی تھی۔

میرے علم میں نہیں کہ تم نے گھر بتایا ہو گا کہ نہیں لیکن وہ گھڑیاں میرے ذہن میں نقش ہو گئی ہیں۔ میں تمہارے پاس آنا چاہتی تھی۔ تمہیں حوصلہ دینا چاہتی تھی اور یہ بتانا چاہتی تھی کہ ہم انسان ہیں : جیتے جاگتے، چلتے پھرتے۔ جن کے ساتھ کچھ بھی ان چاہا، انہونا ہو سکتا ہے۔ بس ہمیں رہنمائی اور انسانیت کے گر آنا چاہئیں۔ لیکن مجھے اس طرح کے اندیشوں نے جکڑ لیا کہ اگر تمہارے پاس گئی تو کلاس کی بہترین طالب علم کا امیج خراب ہو جائے گا۔

استاد ناراض ہو جائے گا۔ میرے دوست مذاق اڑائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔ اب اکثر سوچتی ہوں کہ یہ ایدھی، مدر ٹریسا جیسے لوگوں کی روحیں کسی انوکھی مٹی سے ہی گندھی ہوتی ہیں جو کوڑھیوں کو بھی شفا دیتی ہیں اور کوڑے کے ڈھیر سے بھی نومولودوں کو اٹھا کر گلے سے لگاتی ہیں۔ بہرحال زندگی کے اتنے سال گزارنے کے بعد اس بات کا ادراک ہو گیا ہے کہ جب کوئی کربلا برپا ہو تو حق و باطل میں سے کسی ایک کی حمایت کرنا لازم ہے ورنہ کوفیوں کی طرح خاموش رہنے والے منافق کہلاتے ہیں۔

یہ خط لکھنا مجھ پر واجب تھا لیکن اس کا لکھنا دل پر بہت بھاری ہے۔ کچھ لفظ لکھتی ہوں اور پھر چھوڑ دیتی ہوں۔ کئی قسطوں میں اس کو پورا کر پاؤں گی۔ اب قلم اٹھایا ہے تو وہ ہم جماعت چپکے سے آنکھوں کے سامنے آ کھڑا ہوا ہے جو کئی خوبیوں کا مالک تھا مثلاً خوبصورت اردو اور انگریزی لکھائی، یوں جیسے موتی پروئے ہوں۔ اس زمانے میں کمپیوٹر کی مہارت، ڈرائنگ اور گرافکس پر گرفت۔ بس وہ شرمیلا تھا۔ انٹرو ورٹ اور کم گو تھا۔

چالاکیوں سے ناآشنا تھا۔ بہت سی وجوہات کی وجہ سے عدم اعتماد کا شکار تھا۔ اور اس کی ان کمیوں اور سادگی کا استعمال سب نے جب جب، جیسے جیسے موقع ملا، کیا۔ جس میں اساتذہ بھی شامل تھے اور ہم جماعت بھی۔ باتوں باتوں میں مذاق اڑانا، اسے خوش گپیوں کا موضوع بنانا۔ وہ ہجوم میں تنہا ہو گیا۔ وہ قابل ہو کر بھی بیک بینچر رہا۔ ان دیکھی جذباتی بلنگ کا شکار ہو گیا۔ جب بھی اس کا خیال آتا ہے، ساتھ ساتھ یہ تکلیف دہ احساس بھی مجھے جکڑتا ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام اور اس میں موجود اساتذہ اور طلبا کے مہرے عموماً ہمدردی اور محبت کے جذبوں سے عاری ہیں۔

ہمیں کسی کا ہمدم، ہم قدم بننے کا گر کوئی نہیں سکھاتا۔ ہم عمومی دوڑ کے گھوڑے ہیں جو ریس کے اصل گھوڑوں کو اپنی کم اہلی کی وجہ سے گنواتے ہیں۔ ہم ہیروں کو اپنی نادانی سے پتھر بناتے ہیں۔ کاش تم کبھی میرے سامنے آؤ تو میں تمہیں بتاؤں کہ تم تو اپنے آپ میں کمال کی ایک دنیا ہو، جسے خود شناسائی کا ہنر سکھانے کی ضرورت تھی۔

میرا دل چاہتا ہے کہ یہ خط تم سب پڑھو اور اگر شاید کبھی تم سب تک یہ پہنچے اور تم لوگ اس کو پڑھو تو کہو کہ لو جی! اب سمبل کے درخت کا ادھر کیا ذکر؟ تو آؤ میں تمہیں بتاؤں کہ سنبل کی کیا شان ہے؟ اور تمہاری یاد اس سے کیسے جڑی ہے؟ قد ایسا اونچا کہ ارد گرد موجود سبھی پودوں، درختوں میں نمایاں۔ بہار کے آنے پر مختصر عرصے کے لئے سرخ اور نارنجی رنگ کے پانچ پتی والے پھول دیتا ہے۔ جو سارے منظر کو اپنی خوبصورتی سے پس منظر میں لے جاتا ہے۔

اور اس کی سب سے خاص بات، جب اس پر پھول کھلتے ہیں اس پر پتے نہیں ہوتے۔ دوسروں کی طرح یہ اپنی خوبصورتی دکھانے کے لئے سبزے کا محتاج نہیں۔ ننگ دھڑنگ، پھولوں سے لدا، دور سے پورے منظر پر حاوی، خشک، بنجر موسموں کا ساتھی۔ اسی لئے مجھے تم سب بھی سنبل ہی لگتے ہے۔ جو جس بھی سر زمین پر ہوں گے، میرا یقین ہے کہ انشاءاللہ تم لوگوں کی اچھائی اور مہربانی کے پھول ویران دلوں اور بے آباد جگہوں پر کھلتے ہوں گے۔ نامہربان رویوں کے تلخ لمحوں نے تمہیں محبت کے بیج، سخت زمینوں اور موسموں میں اگانا سکھا دیے ہوں گے۔ اور نرمی نے تم کو ایک قد آور شخصیت بنایا ہو گا جو بہت سوں میں اپنی اچھائیوں کی وجہ سے پہچانے جاتے ہوں گے۔

میری دعائیں تم لوگوں کے ساتھ ہیں۔ میں مشکور ہوں کہ تم لوگوں کے ہونے نے مجھے غلط باتوں اور منفی رویوں سے متعارف کروایا ہے اور میں چاہتی ہوں کہ جب بھی بہار آئے، میرے دل کے یہ زخم ہر دفعہ ادھڑیں۔ ہر بار ان سے خون رسے اور مجھے یاد رہے کہ ہر ایمان کا پہلا درس انسانیت اور ہر نیکی کی پہلی اینٹ خیال اور محبت سے جڑی ہے۔

فقط
تم سب سے شرمندہ، تم سب کے لئے دعا گو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments