صحافی کہاں جائیں؟


انور عباس انور بزرگ صحافی اور کالم نویس ہیں عرصہ دو سال سے وہ بیماری کے باعث قلم سے اپنا رشتہ استوار رکھنے سے قاصر ہیں مختلف قومی اخبارات میں بطور کالم نویس فرائض انجام دینے والے انور عباس انور کو پھیپھڑوں کا مرض لاحق ہے۔ انور عباس انور دو کتابوں کے مصنف اور ان کی زندگی کا ایک طویل حصہ صحافتی خدمات کی انجام دہی میں گزرا اسی کی دہائی میں صحافت کا آغاز کرنے والے 65 سالہ انور عباس انور آج کرایہ کے مکان میں بیماری کی حالت میں کسمپرسی کی سی زندگی گزار رہے ہیں۔

پریس کلب لاہور کے تاحیات ممبر کو صحافتی کالونی میں اسے چھت بھی میسر نہ آئی کیونکہ مفلسی کا یہ عالم ہے کہ ہاؤسنگ سوسائٹی میں مکان کے حصول کے لئے اقساط تک کا بندوبست نہیں ہے۔ ملک میں ایک انور عباس انور ہی نہیں کئی ایسے کردار ہیں جو مصائب و آلام کا شکار معاشی ناہمواریوں کے بھنور میں گھرے ہوئے ہیں بیشتر صحافیوں کے معاشی حالات اس قدر ابتر ہیں کہ ان کے گھروں میں نوبت فاقوں تک آ گئی ہے۔ صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے حکومتی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں لیکن ان حالات میں صحافتی اور کالم نویسوں کی تنظیموں کا کردار بھی فکر مند اشارہ ہے ملک میں صحافیوں اور کالم نویسوں کی فلاح و بہبود کے لئے قائم ہونے والی قد آور تنظیموں کی کارکردگی صرف کھانوں ’فوٹو سیشن اور ایوارڈ وصول کرنے تک محدود ہے۔

ملک میں صحافتی اداروں نے سینکڑوں کارکن صحافیوں کو اداروں سے فارغ کر کے ان کی معاشی نس بند کرتے ہوئے انہیں بے روزگار کر دیا حکومت کی جانب سے کوئی ایسا لائحہ عمل سامنے نہیں آیا جس سے ان کو معاشی تحفظ مل سکے اور نہ ہی صحافتی تنظیموں کی جانب سے کوئی فعال عملی کردار دیکھنے میں آیا۔ اس وقت دنیا میں صحافیوں کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کے لئے جو چند ادارے مستعدی کے ساتھ کام کر رہے ہیں ان میں‘ کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس (نیو یارک) ’رپورٹر ود آؤٹ بارڈر (فرانس)‘ فری پریس ان لمیٹڈ (ایمسٹرڈیم) ’انٹرنیشنل وومن میڈیا فاؤنڈیشن‘ کیلیٹی فاؤنڈیشن (سویڈن) ’لائف لائن فنڈ ”میڈیا ڈیفنس لیگل پروگرام‘ روری پیک ٹرسٹ (لندن) ’ریسٹ اینڈ رفیوج فیلو شپ (برلن)‘ دوحہ سنٹر فار میڈیا فریڈم کے نام سے موجود ہیں۔

یہ ادارے صحافیوں کو قانونی و طبی امداد ’خطرات میں گھرے صحافیوں کی بیرون ملک منتقلی‘ قتل ہونے والے اور جیلوں میں قید صحافیوں کے اہل خانہ کے لئے مالی امداد ’صحافتی اداروں کی مالی امداد‘ مختصر المدتی ایمرجنسی گرانٹس فراہم کرتے ہیں۔ یہ ادارے اس وقت دنیا میں آزاد میڈیا کو عملی طور پر آکسیجن فراہم کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ ویسے تو شعبہ صحافت سے منسلک افراد کو پوری دنیا میں خطرات کا سامنا رہتا ہے کہیں صحافیوں پر حملے کیے جاتے ہیں ’کہیں دھمکایا جاتا ہے اور کہیں انہیں قتل کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا 1992ء سے لے کر اب تک پوری دنیا میں ایک ہزار سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

المیہ ہے کہ صحافیوں کو ہنگامی امداد فراہم کرنے کے لئے دنیا میں آٹے میں نمک کے برابر کچھ ادارے ضرور موجود ہیں جو صحافیوں کو قانونی و طبی امداد فراہم کرتے ہیں لیکن حکومتوں کی جانب سے صحافیوں کے جان و مال کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لئے اٹھائے گئے اقدامات ناکافی ہیں۔ اگر پاکستان سمیت پورے ایشیا میں صحافیوں کے حالات دیکھے جائیں تو اس وقت صحافی مشکلات سے دوچار ہیں پاکستان میں سو سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے لیکن صرف اب تک تین مقدمات کا فیصلہ سنایا گیا ہے دیگر قتل ہونے والے صحافیوں کے اہل خانہ انصاف کے لئے دربدر ہیں انہیں ابھی تک انصاف فراہم نہیں کیا گیا۔

پاکستان میں صحافیوں کا معاشی قتل کیا گیا ان کے گھروں کے چولہے تک ٹھنڈے پڑ چکے ہیں پاکستان غالباً دنیا کا واحد ملک ہے جہاں لائف جیکٹ کے بغیر کوریج کرنے والے صحافی کے ہاتھ میں پکڑے دو لاکھ کے کیمرے کی انشورنس تو ہوتی ہے لیکن اس کیمرے کے ذریعے ریکارڈنگ کرنے والے انسان کی انشورنس نہیں ہوتی ستم ظریفی یہ ہے کہ جانی تحفظ تو کیا دینا یہاں صحافیوں کے معاشی مفادات کو بھی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ پاکستان میں میڈیا ہاؤسز کی ہر چیز کی انشورنس ہوتی ہے لیکن میڈیا ورکرز کی نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چیزوں کی قیمت اور انسان کی قدر ہوتی ہے لیکن جو بے قدری اب کی بار صحافیوں کی ہو رہی ہے شاید پہلے کبھی ایسا سوچا بھی نہ گیا ہو۔

حالات اتنے ابتر ہو چکے ہیں میڈیا ورکرز کو بروقت تنخواہیں تک نہیں دی جاتیں۔ نوبت فاقوں پر آ گئی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ملک میں صحافتی تنظیموں کی بہتات ہے جو خود کو صحافیوں کے حقوق کی ترجمان بھی سمجھتی ہیں لیکن کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ صحافیوں کی کیا پریشانی ہے اس سے نہ تو حکومت کو کوئی غرض ہے اور نہ ہی میڈیا مالکان اور صحافتی تنظیموں کو۔ سب اپنا اپنا الو سیدھا کر رہے ہیں۔ پاکستان میں اس وقت درجنوں نیوز چینل کام کر رہے ہیں اور ادارہ شماریات کی ایک رپورٹ کے مطابق 707 اخبارات بھی شائع ہوتے ہیں۔ ان چینلوں اور اخبارات میں ہزاروں کی تعداد میں صحافی کام کرتے ہیں فریڈم نیٹ ورک کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو ان ہزاروں صحافیوں کے لئے خطرناک ملک قرار دیا گیا ہے۔

ایسے میں سوال اٹھتا ہے کہ آنے والے دنوں میں صحافیوں کے معاشی حالات بہتر ہو سکیں گے۔ حالات کا جبر دیکھ کر تو اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ صحافیوں کے معاشی حالات درست دھارے میں آ سکیں۔ صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے حکومت کے پاس کوئی پیکج نہیں ہے اور نہ ہی صحافتی تنظیموں کے پاس کوئی مربوط لائحہ عمل ہے جس سے اخذ کیا جا سکے کہ حکومتی یا صحافتی تنظیموں کی سطح پر صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لئے اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

بہت سے صحافی معاشی ناہمواریوں کی چکی میں اس حد تک پس چکے ہیں کہ نوبت فاقوں تک آ چکی ہے اور کچھ نے تو اپنی جان جان آفرین کے سپرد کر دی۔ حکومتوں کی جانب سے متعدد وعدے‘ اعلانات سامنے آئے لیکن صحافیوں کے معاشی حالات درست دھارے میں لانے کے لئے حکمران ناکام رہے۔ صحافیوں کی معاشی نس بندی تو کر دی گئی ہے لیکن انہیں طبی و قانونی امداد سے بھی محروم رکھا جا رہا ہے۔ حالات کے جبر نے انور عباس انور ایسے بہت سے کرداروں کو جنم دے دیا ہے حکومت اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے عملی طور پر اگر صحافیوں کے لئے ترجیہی بنیادوں پر اقدامات نہ اٹھائے گئے تو ایسے میں صحافی کہاں جائیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments