بھلا سانول دھامی کو اس سے کیا فرق پڑے گا؟


سانول دھامی آیا، چلا گیا اور میں چار سو کلومیٹر دور بیٹھا یہی سوچتا رہا کہ اس سے نہ ملنے جانے کا دفاع کیسے کروں گا۔ کیا یہ دلیل کافی ہو گی کہ میں پچھلے چند سالوں سے کسی تقریب میں نہیں جاتا، مجمع سے مجھے گھبراہٹ ہوتی ہے، اور کہیں سفر کے لیے جانے کا وقت جیسے جیسے قریب آتا ہے میرے دل کو بے چینی محسوس ہونے لگتی ہے۔

ظاہر ہے سانول نہیں مانے گا، اس کے سامنے 1947 کے ڈسے ہوئے بزرگوں کی وہ کہانیاں ہیں جو اس نے گاؤں گاؤں پھر کر اکٹھی کی ہیں، اس و نجارا بیدی کی طرح کہ جس نے گاؤں گاؤں پھر کر پنجاب کے لوک گیت جمع کیے تھے اور جس کی وجہ سے مشرقی پنجاب میں اسے ”گیتوں کا بنجارا“ کہا جاتا ہے۔ مغربی پنجاب کے لوگوں کو تو اس بنجارے کا نام تک معلوم نہیں۔ ہو گا بھی کیسے، انہوں نے تو اپنے گیت اور ناچ، بھنگڑے اور سمی، ہیر اور رانجھے، وارث اور بلھے اپنے ہی دیس میں بے چہرہ کر کے مار دیے ہیں۔

اب کون ہے جو کروڑ لال عیسن جائے اور اشو لال سے پوچھے کہ جب باہر گیت اور ناچ مرتا ہے تو آپ کے اندر کیا کچھ مر جاتا ہے۔ جب حاکم جیتے جی لوگوں کی خوشیوں کو مارنے کا جتن کرتے ہیں تو وہ موت کے بارے عجیب بے حسی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ پھر چاہے ٹی وی پر کتنے ہی اشفاق احمد اور طارق جمیل بٹھا لیں۔ باہر سڑک پر جاتی ایمبولینس کو راستہ نہیں ملتا۔

سانول دھامی نے گیت اکٹھے نہیں کیے۔ 1947 کے مرثیے اکٹھے کیے ہیں۔ پتہ نہیں 1947 کے پنجاب کو کربلا کہنا انصاف بھی ہے کہ نہیں۔ کہ کربلا میں تو ظالم اور مظلوم دونوں کا علم تھا۔ سنتالیس کے پنجاب میں تو یہ پہچان بھی ممکن نہ تھی۔ لگتا ہے 1947 انسانی نفسیات کا کربلا تھا کہ جس کے پیچھے صرف ایک کوفہ نہیں تھا۔ شہر شہر، گاؤں گاؤں اور گھر گھر میں کوفے بکھرے پڑے تھے۔ سگمنڈ فرائیڈ کی مانیں تو ہر شخص اپنا کوفہ ساتھ لیے پھرتا تھا۔

سکھ مذہب میں ہولو کاسٹ کے لیے ”گھلو گھارے“ کی اصطلاح استعمال ہوئی ہے

مغلوں نے پنجابی سکھوں کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے 1746 اور 1762 میں ان کا بڑے پیمانے پر قتل عام کیا تھا۔ میں 1947 کے واقعات کو ”پنجابیوں کا سانجھا گھلو گھارا“ کا نام دیتا ہوں۔

ڈاکٹر اسلم رانا نے کہا تھا
”اسیں اپنے آپ نوں ماریا
تے ڈھکے آپ مکان ”
(ہم نے اپنے آپ کو خود ہی قتل کیا اور پھر خود ہی تعزیت کے لیے پہنچ گئے )

اپنے ساتھ اپنا کوفہ اٹھائے پھرنے کی اس سے بہتر تعبیر شاید ممکن نہیں۔
سانول دھامی نے اسی ”نفسیاتی کربلا“ کی کہانی بیان کرنے کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا ہے

بظاہر وہ پاکستان میں ہونے والی کسی پنجابی کانفرنس میں شرکت کے لیے آیا ہے۔ اس طرح کی کانفرنسیں ہوتی رہتی ہیں مگر سانول دھامی سیمیناروں، کانفرنسوں اور سرکاری اعزازات سے بڑا آدمی ہے۔ پاکستان میں اس کے ہزاروں چاہنے والے ہیں۔ اس کے یو ٹیوب چینل ”سنتالی نامہ“ نے پاکستانی پنجاب کی تیسری نسل کے ان نوجوانوں کو بہت متاثر کیا ہے کہ جو 1947 کی کہانی کو مطالعہ پاکستان اور مطالعہ ہندوستان کی بجائے اپنے دادا اور دادی کی زبانی سنتے آئے ہیں۔ پنجاب کے ”سانجھے گھلوگھارے“ کی یہ چشم دید نسل اب معدوم ہوا چاہتی ہے۔

وہ باہمت پنجابی جو اس کہانی کو دونوں سرکاروں کے نصاب میں بنو امیہ اور بنو عباس کے حاشیہ برداروں کے قلم سے سنتے سنتے اوب چکے ہیں اب اپنے بچے کھچے بزرگوں کی زبانی سننا چاہتے ہیں

مجھے اپنا تو پتا نہیں مگر مجھے یقین ہے کہ سانول دھامی یہ کہانی سناتا رہے گا۔ کوئی اسے بلائے نہ بلائے، ملنے جائے یا نہ جائے بھلا اسے اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔

طارق گجر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

طارق گجر

طارق گجر بنیادی طور پر پنجابی شاعر اور افسانہ نگار ہیں، تقسیم پنجاب ان کی تخلیقی شخصیت کا ہمیشہ سے محرک رہا ہے۔ وہ ان پنجابی لکھاریوں میں شمار ہوتے ہیں جنہوں نے 1947 کے بعد پنجابیوں کو درپیش شناختی بحران کے حوالے سے قابل قدر تخلیقی کام کیا ہے۔ اس حوالے سے ان کی شاعری کی کتاب ”رت رلے پانی“ قابل ذکر ہے۔ پچھلے چند سالوں سے انہوں نے پنجاب کی تقسیم کے عینی شاہدین کے انٹرویوز کے ذریعے تقسیم پنجاب کے سلیبسی نقطہ نظر کے متوازی پنجاب کے عوام کا نقطہ نطر سامنے لانے کے سلسلے میں بھی کام کیا ہے۔ طارق گجر جمہوریت، مکالمے، صنفی برابری اور آزادیٔ رائے پر کامل یقین رکھتے ہیں اور پاکستانی میں بسنے والی اقوام کے درمیان مکالمے کے لیے کوشاں رہتے ہیں

tariq-mahmood-gujjar has 10 posts and counting.See all posts by tariq-mahmood-gujjar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments