ایک ممنوعہ موضوع سیکس پر بات


ہمیں اس حقیقت کا اعتراف کر لینا چاہیے کہ ہم زندگی کی حقیقتوں کا سامنا کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ مذہبی رہنماؤں نے اپنے عقیدے اور تصورات کچھ اس طریقے سے ہم پر مسلط کیے ہیں کہ ہم اب تک ان سے آزاد نہیں ہوئے۔

ہمارے معاشرے میں سیکس سے متعلق گفتگو کرنا ایک ممنوعہ چیز ہے، ایک ٹیبو ہے۔ ہم نے کبھی سوچا کہ زندگی جس فعل سے وجود میں آتی ہو، وہ ناپاک کیسے ہو سکتا ہے۔ جو معاشرہ جتنا اس موضوع پر بات کرنے سے گھبرانے گا، اتنا ہی اس معاشرے کے لوگ ہسٹیریا اور جارحانہ سرگرمیوں میں مبتلا ہوتے ہیں جس کا ثبوت ہمیں اپنے معاشرے میں جا بجا دکھائی دیتا ہے۔

اوشو لکھتا ہے کہ جب بھی میں طوائفوں سے ملا ہوں، انہوں نے ہمیشہ خدا اور روح کے متعلق سوالات پوچھے۔ اس کے برعکس میں جب بھی زاہدوں اور مذہبی رہنماؤں سے ملا، انہوں نے اکیلے میں مجھ سے میرے آشرم میں آنے والی عورتیں کے متعلق باتیں پوچھیں۔

اوشو کے مطابق یہ ایک فطری عمل تھا۔ مذہبی رہنما جو سیکس کے خلاف ترغیب دیتے ہیں وہ مکمل طور پر سیکس کے قبضے میں دکھائی دیے۔ وہ جو اس کے خلاف تبلیغ کرتے ہیں، اس کے ہی اسیر نکلے۔ انسان کو زندہ رہنے اور پھلنے پھولنے کے لئے کھانا، پینا، سونا اور دوبارہ پیدا کرنا ہو گا لہذا سیکس کا انسان کی بقا اور زندگی بھر کی کامیابی سے گہرا تعلق ہے۔

مشہور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ نے بھی کئی لوگوں کی باتیں اپنے سیشن میں روبرو سنی۔ اس نے دیکھا کہ جو لوگ اپنے حالات سے ناخوش ہیں، وہ انتہائی شہوانی ہیں اور شہوت انگیز سرگرمیوں کے خواب دیکھتے ہیں اور اپنے آپ کو مجرم تصور کرنے لگتے ہیں۔ لہذا اس نے بھی یہ نتیجہ اخذ کیا کہ انسانی تہذیب کی بنیاد خود پر جبر ہے۔ وہ سمجھتا تھا کہ ایک اچھی جنسی کارکردگی یا جنسی اختلاط بہت سی انسانی مشکلات کو حل کر دیتا ہے۔

مغربی معاشرے سے نکل کر اگر ہم اپنی طرف آئیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ والدین اپنے بچوں سے اس موضوع پر بات نہیں کرتے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے معاشرے میں اگر کسی لڑکی یا لڑکے کے ساتھ جبری زیادتی بھی ہو جائے تو اس کو بدنامی کے ڈر سے چھپایا جاتا ہے۔ جس سے مجرموں کو اور ترغیب ملتی ہے اور ان کے شکار کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔

بچے اپنے جنسی مسائل والدین کو نہیں بتاتے کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کو غلط سمجھا جائے گا اور ان کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جائے گا۔ اس سے ایک فاصلے نے جنم لیا۔ ہمیں اپنے بچوں کو زندگی کی اس اہم ضرورت کے متعلق ایمانداری سے بتانا چاہیے۔ سیکس ہیلتھ کا شعور دینا چاہیے تاکہ وہ مختلف امراض سے بھی بچ سکیں۔

والدین کو اپنے بچوں کو ایمانداری کے ساتھ اپنے تجربات کا بھی بتانا چاہیے۔ اس سے ان کے دلوں میں آپ کے لیے ایک احترام پیدا ہو گا۔ وہ آپ پر زیادہ اعتبار کرنے لگیں گے اور ان کے لئے یہ موضوع ممنوعہ نہیں ہو گا۔

برٹرینڈ رسل لکھتا ہے جب ہم وکٹورین دور میں تھے تو خواتین لمبا لباس پہنتی تھی جو اتنا نیچا ہوتا تھا کہ پیروں کی انگلیاں بھی نظر نہیں آتی تھی اور زمین پر وہ لباس رگڑتا رہتا تھا۔ لوگ تجسس اور اشتیاق میں رہتے تھے کہ شاید کوئی پیر کی چھلک نظر آ جائے۔ پھر ایک وقت آیا کہ لباس نیم عریاں ہو گئے لیکن وہ ترغیب نہیں دے پاتی۔ وہ لکھتا ہے کہ جتنا ہم کسی چیز کو پوشیدہ رکھے گے، اتنا ہی تجسس پیدا ہو گا۔

ہمیں اپنے معاشرے سے گھٹن دور کرنے پڑے گی ورنہ اس جبر کا نتیجہ وہی نکلے گا جو ایک راست باز شخص کے قصے میں دکھائی دیتا ہے جو گناہ آلود سوچ سے بچنا چاہتا تھا۔

ایک مرتبہ ایک راست باز شخص نے اپنے آپ سے وعدہ کیا کہ وہ بھوکا رہے گا کیونکہ جب پیٹ بھرا ہو تو وہ گناہ کا سوچتا ہے۔

اس نے روزے رکھنے شروع کیے لیکن جب شام کو جب کھانا اس کے سامنے آتا تو وہ بھوکوں کی طرح اس پر ٹوٹ پڑتا۔ روزہ کھولنے کے بعد اس کو بہت افسوس ہوتا کہ وہ اپنے وعدے پر قائم نہیں رہ سکا۔

اس نے دنیا کو ترک کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنی بیوی کو بتایا کہ وہ اب فلاں فلاں پہاڑ پر جا رہا ہے اور اب وہی عبادت کرے گا۔

وہ نیک آدمی اس پہاڑی پر عبادت کرتا اور روزے رکھتا اور ثواب کماتا۔ ادھر اس کے گھر والے اس کے لئے اداس اور پریشان رہتے۔ اس کی بیوی سوچتی تھی کہ وہ اس تیاگ میں اپنی کھانے کی بیماری پر ضرور حاوی ہو جائے گا۔ بیوی نے خاوند کی جلد صحت یابی اور گھر واپسی کے لئے دعاؤں کے ساتھ اسے ایک آدمی کے ہاتھ گلدستہ بھجوایا۔

وہ آدمی شکریہ کے ان الفاظ کے ساتھ واپس آیا ”پھولوں کا شکریہ، وہ بہت لذیذ تھے“ ۔

پس تحریر: یہ بلاگ اوشو کی کتاب
From Sex to Super Consciousness
سے متاثر ہو کر لکھی گیا ہے جس کا اردو ترجمہ محمد احسن بٹ نے کیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments