معاشرتی رواداری کے فروغ میں ادب کا کردار


صفحہ قرطاس پر جب انسانیت کا ظہور ہوا تب انسان گفتگو کے ان رموز سے نا آشنا تھا جو موجودہ دور ترقی میں گفتگو کی معراج تصور کیے جاتے ہیں۔ وقت کی رفتار کے ساتھ آدمیت نے ہلکی ہلکی ہوں ہاں کرنا سیکھی اور پہلی بات، جو شاید انسانی تاریخ کی پہلی بات تھی، شاعری کے رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ دنیا کے ہر ایک لسانی ادب کا آغاز ہمیشہ شاعری سے ہوتا آیا ہے۔ لہذا دنیا کے اولین لسانی ادب کا آغاز وہ پہلی ہوں ہاں تھی جو شاعری کے رنگ میں کی گئی تھی۔

جوں جوں زبان کو فروغ حاصل ہوتا گیا، ادب ترقی کی منازل طے کرتا گیا اور ایک وقت ایسا آیا جب تمام معاشرتی قدروں کا پاسبان ادب ٹھہرا۔ ادب نے انسانی زندگی میں انقلاب برپا کرتے ہوئے انسانیت کو معراج کی معراج کا راستہ دکھانے کی کوشش جاری رکھی۔ زندگی کا ہر پہلو ادب سے توانائی حاصل کرتا ہوا نمو پاتا رہا۔ مگر معاشرتی رواداری کے تناظر میں ادب نے وہ کارنامے سر انجام دینے کی بھرپور کوشش کی جو آدمی کو انسان کا روپ عطا کرتے ہوئے انسانیت کے پھول کے اندر پنہاں خوشبو تک رسائی کا ذریعہ ثابت ہو سکیں۔ پختہ اور اٹل عقائد کے مالک ہوتے ہوئے دوسرے لوگوں کے مخالف نظریات کو تحمل سے سننا اور برداشت کرنے کی کوشش کرنا رواداری کہلاتا ہے۔ اس چند حرفی مضمون میں ادب کی معاشرتی رواداری کے فروغ کی جہت پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔

اگر بات کی جائے اس ادب کی جو خدائے برحق کی طرف سے پیامبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہاتھوں خاکی پتلوں کی ہدایت کے لئے فانی دنیا میں بھیجا گیا تو اس میں خدائے لم یزل رواداری کے موضوع پر ارشاد فرماتے ہیں :

”اے لوگو! حقیقت یہ ہے کہ ہم نے تمہیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قوموں اور خاندانوں میں اس لیے تقسیم کیا تاکہ تم ایک دوسرے کی پہچان کر سکو۔“

(سورت الحجرات)

نبی اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وجہ تخلیق ادب، معاشرتی رواداری پر لب کو یوں جنبش سے آراستہ کرتے ہیں :

”تم لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو۔“

اگر بات کی جائے اس ادب کی جو خیموں میں پیدا ہوا، لشکر میں پلا بڑھا اور سپاہ کے موجب تاریک دنیا میں شمع کی مانند روشن ہوا تو وہ بھی معاشرتی رواداری کو ایک اہم موضوع قرار دیتا ہے۔ اس ادب میں شاعری اور شاعری میں غزل کو روز اول سے ہی اہم مقام حاصل ہے۔ ہندوستانی شعراء کرام غزل کے چراغ کی لو میں رواداری کے عنصر کو خوبصورتی سے روشن کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسا کہ:

جس گوشہ دنیا میں پرستش ہو وفا کی
کعبہ ہے وہی اور وہی بت خانہ ہے میرا
(چکبست)

ادب کے ساتھ ساتھ ادبی مشاعروں کا بھی معاشرتی رواداری کے فروغ میں اہم کردار رہا ہے۔ ہندوستانی تاریخ گواہ ہے کہ جہاں بھی ادبی مشاعرہ منعقد ہوتا اونچے طبقہ سے لے کر نچلے طبقہ تک کے شعرا ایک دوسرے کے پہلو بہ پہلو بیٹھتے اور رواداری کے تنوع رنگوں کے پھول کی آبیاری کرتے۔ ان مشاعروں کی ایک مثال مشاعرہ ”آئینہ ہندوستان“ تھا جو ہری سرن داس کے دولت خانہ پر منعقد ہوا کرتا تھا۔

اردو ادب کی تاریخ میں کئی ادبی تحریکیں اٹھیں، ان تحریکوں میں تحریک علی گڑھ سرفہرست ہے۔ اس تحریک کے سرخیل سرسید احمد خان نے جس نقطہ پر اس تحریک کی بنیاد رکھی وہ رواداری تھا۔ ان کا مقصد تھا کہ ادب کو ایسے ڈھالا جائے کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کا باعث بنتا ہوا دونوں کی انگریزوں کے ساتھ دوستی کی وجہ بھی ثابت ہو۔ اس لئے 1857 ء کے بعد تخلیق ہونے والے ادب میں معاشرتی رواداری کا عنصر نمایاں ہے۔

نثری ادب میں افسانہ کو اہم مقام حاصل ہے۔ افسانہ نگاروں نے ادب کو معاشرتی رواداری کا ذریعہ بناتے ہوئے مزدور سے لے کر سیٹھ، مسلم سے لے کر ہندو، یہودی، سکھ، عیسائی بلکہ ہر طبقہ اور مذہب کے لوگوں کو اپنی کہانیوں کا موضوع بنایا۔ سعادت حسن منٹو نے معاشرتی رواداری کے تناظر میں جنسیت پر قلم اٹھایا تو راجندر سنگھ بیدی نے معاشرتی رشتوں کے اتار چڑھاؤ کے بے کراں سمندر میں غوطہ زنی کی۔ ہر ادیب نے اپنے قلم کو الگ انداز پرواز سے روشناس کرواتے ہوئے رواداری کی مختلف جہات کو اجاگر کیا اور لوگوں کو رواداری اختیار کرنے پر ابھارا۔

نہ صرف ادب بلکہ ادبی تعلیم بھی معاشرتی رواداری کے فروغ میں اپنا منفرد کردار ادا کرتی رہی، اور کر رہی ہے۔ ہندو اساتذہ کے ہاں مسلم شاگرد اور مسلم اساتذہ کے ہاں ہندو شاگرد ادبی تعلیم کے ساتھ ساتھ معاشرتی رواداری کی شمع کو روشن رکھنے کا باعث بنتے رہے۔ مثلاً میر کے شاگرد منور لال صفا اور غالب کے شاگرد بال مکند بے صبر وغیرہ۔

حرف اختتام:

ادب معاشرتی رواداری کے فروغ میں ہمیشہ صف اول میں کھڑا رہا چاہے وہ شاعری ہو یا نثر۔ ادب نے معاشرے کو رواداری کی انواع سے متعارف کروانے اور اس سے اصل روح سے آہنگ پیدا کرنے کے لیے کئی رنگ بدلے مگر اپنا فرض بخوبی نبھاتا رہا۔ سادہ الفاظ میں معاشرے میں رواداری کے پرندے کو محو پرواز کرنے کا سہرا ادب کے سر ہے۔

حواشی:
1) قرآن مجید، سورۃ الحجرات۔
2) ذکی الدین عبد العظیم بن عبدالقوی، ”ترغیب و ترہیب“ جلد 4
3) گوپی چند نارنگ، مضمون: ”اردو ادب میں اتحاد پسندی کے رجحانات“ ۔
4) انور سدید، ڈاکٹر، ”اردو ادب کی تحریکیں“ انجمن ترقی اردو پاکستان، کراچی، 2021ء۔

علی حسن اویس

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی حسن اویس

علی حسن اُویس جی سی یونی ورسٹی، لاہور میں اُردو ادب کے طالب علم ہیں۔ ان کا تعلق پنجاب کے ضلع حافظ آباد سے ہے۔ مزاح نگاری، مضمون نویسی اور افسانہ نگاری کے ساتھ ساتھ تحقیقی آرٹیکل بھی لکھتے ہیں۔

ali-hassan-awais has 66 posts and counting.See all posts by ali-hassan-awais

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments