نواز شریف اور عمران خان میں چند بنیادی فرق


بہت پرانی بات نہیں ہے ابھی چند برس پہلے کا قصہ ہے کہ جو صورت حال آج عمران خان کو درپیش ہے اسی طرح کی صورت حال کا نواز شریف کو سامنا تھا۔ ان کا اقتدار بھی خطرے میں تھا اور عمران خان کی کشتی بھی ہچکولے کھا رہی ہے۔ مشکل صورت حال میں ان دو وزراء اعظموں کے رد عمل پر بات کرنا مقصود ہے۔

نواز شریف کو جب ایک بے بنیاد مقدمے کا سہارا لے کر ، انصاف کا قتل کر کے نکالا گیا اس وقت معیشت ترقی کر رہی تھی، ترقیاتی پراجیکٹ لگ رہے تھے۔ بے روزگاری میں کمی ہو رہی تھی۔ عوام کی بڑی تعداد نواز شریف کے ساتھ تھی۔ عمران خان کی رخصت کے دنوں میں یہ صورت حال بالکل مختلف ہے۔ افراط زر آسمان کو چھو رہا ہے۔ مہنگائی نے لوگوں کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ہم آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنس چکے ہیں اور ترقی کے اشاریے ترقی معکوس دکھا رہے ہیں اور لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس حکومت سے نجات کی خواہاں ہے۔

نواز شریف کو نکالنے کے لئے عدلیہ کا قبیح کردار سامنے آیا۔ ثاقب نثار اور کھوسہ جیسے لوگوں نے نواز شریف کو نکالنے کے فیصلوں پر مہر تصدیق ثبت کی۔ وہ فیصلے دیے گئے جن کا انصاف اور قانون سے دور دور کا واسطہ نہیں تھا۔ دوسری جانب عمران خان کے خلاف ابھی تک عدلیہ کی جانب سے کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ فارن فنڈنگ کا کیس التوا کا شکار ہے۔ قاضی شہر نے عمران خان کے خلاف کوئی کھلم کھلا کمپین ابھی تک شروع نہیں کی۔ ایک جانب نواز شریف نے عدالتوں اور نیب میں سینکڑوں پیشیاں بھگتیں۔ ان کی توہین کی گئی، تصاویر لیک کی گئیں اور عمران خان کو ابھی تک کسی کیس میں نہ طلب کیا گیا ہے نہ ان کی سرعام توہین کی گئی۔

نواز شریف کو نکالنے میں فوج کا کردار بہت واضح تھا۔ کبھی معیشت کی بری کارکردگی پر پریس کانفرنس، کبھی ووٹ کی طاقت سے دشمنوں کو شکست دینے کا بیان، کبھی تبدیلی کے سال کی نوید سنائی گئی۔ عمران خان کو نکالنے میں فوج کا کوئی کردار سامنے نہیں آیا ماسوائے اس کے کہ انہوں نے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔

نواز شریف نے نکالے جانے کے بعد جی ٹی روڈ کا سفر اختیار کیا۔ عوام کو اعتماد میں لیا۔ اور مجھے کیوں نکالا کی کمپین شروع کی۔ اس دوران ہر مقام پر انہوں نے آئین کی بالا دستی کی بات کی، ووٹ کی عزت کا درس دیا اور پارلیمان کی بالا دستی کا مطالبہ کیا۔ عمران خان پر وہی دن آئے ہیں تو کسی نے ان کے منہ سے ایک لفظ بھی آئین کی حرمت اور ووٹ کی عظمت کے بارے میں نہیں سنا۔ ان کے زیادہ تر اقدامات سپیکر سے غیر قانونی احکامات منوانے، لوگوں کو دھمکانے اور اسٹیبلشمنٹ کو منانے سے متعلق ہیں۔

نواز شریف نے اپنی برطرفی کے بعد ایک دفعہ بھی لوگوں کو تشدد پر نہیں اکسایا۔ جی ٹی روڈ کا سفر کر کے جب وہ لاہور پہنچے تو لوگوں کے جم غفیر میں آگ لگا سکتے تھے مگر اس طرح کی سیاست سے اجتناب کیا۔ جب کہ آج کل خان صاحب ہر لمحہ لوگوں کو تشدد پر آمادہ کر رہے ہیں کبھی سندھ ہاؤس پر حملہ، کبھی ڈی چوک کو منحرفین کے لئے مقتل بنانے کا اعلان اور کبھی دھرنوں اور پہیہ جام کی دھمکیاں۔

نواز شریف کی یقیناً آرمی چیف سے بارہا فون پر اہم موضوعات پر بات ہوئی ہو گی مگر اس گفتگو کا طعنہ یا ریفرنس کبھی کسی جلسے میں نہیں دیا۔ عمران خان کو جنرل باجوہ نے کال کی کہ مولانا کے لئے توہین آمیز الفاظ استعمال نہ کریں تو عمران خان نے فوری طور اس بات کو سیاسی مقاصد کے لئے جلسے میں اعلان کے طور استعمال کیا۔

نواز شریف کے اقتدار سے جانے سے پہلے اور جعلی مقدمات میں قید بھگتنے سے لے کر آج تک نواز شریف کے کسی ایک ساتھی نے نواز شریف سے بے وفائی نہیں کی۔ دوسری جانب عمران خان کی پارٹی کے لوگ خزاں رسیدہ پتوں کی طرح گر ہے ہیں۔ اگر لوگوں کو آزادی سے اپنی رائے کے اظہار کا موقع ملے تو ایک کثیر تعداد عمران خان کو چھوڑنے پر آمادہ نظر آئے گی۔

نواز شریف کو نکالنے سے پہلے میڈیا کی بساط ایسے بچھائی گئی کہ ایک باقاعدہ سازش اور ایجنڈے کے تحت بے ضمیر اینکر اور زر خرید تجزیہ کار ہر پروگرام میں نادیدہ کرپشن کے ثبوت پیش کرتے رہے۔ نواز شریف کو برسوں تک مجرم ثابت کیا گیا۔ عمران کو یہ سہولت میسر ہے کہ یہ وہی میڈیا ہے جو ان کی توصیف پر برسوں سے مامور تھا۔ بہت سے ہم خیال اور ہم درد اپنی جگہ بنا چکے ہیں۔ یہ میڈیا عمران خان کی حکومت کو لانے کی لئے سجایا گیا تھا۔ اب بھی یہ کڑے دل سے عمران کی نا اہلی تو بتاتے ہیں مگر ان کے لئے پھر بھی ایک نرم گوشہ رکھتے ہیں۔

نواز شریف کو جب نکالا گیا تو اس وقت سے لے کر آج تک نواز شریف پر کرپشن کی ایک پائی بھی ثابت نہیں ہو سکی۔ جس کی وجہ سے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے الزام پر انہیں نکالا گیا۔ دوسری جانب عمران خان کا بال بال کرپشن میں دھنسا ہوا ہے۔ فارن فنڈنگ، فیکٹ فوکس کی رپورٹ، شوکت خانم کے اکاؤنٹس میں گھپلا اور وزراء کی کرپشن میں حصے کا اب سب کو علم ہو گیا۔

نواز شریف کو نکالنے کے بعد نواز شریف کا ساتھ زیادہ تر ان لوگوں نے دیا جو جمہوریت پسند تھے جو آئین کی بالا دستی پر یقین رکھتے تھے اور ووٹ کی عزت چاہتے تھے۔ عمران خان کے ساتھ وہی لوگ بچے ہیں جن کا سیاسی مستقبل عمران خان کے سوا نہیں ہے اور ان کی واحد کوالیفکیشن گالم گلوچ ہے۔

نواز شریف نے ”مجھے کیوں نکالا“ کی مہم سے لے کر آج تک کسی سے بدزبانی نہیں کی، کسی کو گالی نہیں دی جبکہ عمران خان کی سیاست گالی سے شروع ہوتی اور الزام پر ختم ہوتی ہے۔

نواز شریف کو جب نکالا گیا تو انہوں نے اس کا الزام کسی دوسرے ملک کو نہیں دیا، خود اپنی جنگ لڑی جبکہ عمران خان نے امریکہ سے لے کو یورپی یونین تک کو الزامات دیے اور خارجہ کی سطح پر پاکستان کے مقدمے کو مزید خراب کیا۔

نواز شریف نے لوگوں کو مذہبی بنیادوں پر کبھی بلیک میل نہیں کیا جبکہ عمران خان نے ذاتی مفاد کے لئے ہر موقعے پر مذہب کی فروخت کا کام جاری رکھا۔ لوگوں کو اپنے اقتدار کے لئے مذہب کے نام پر نہ صرف جذباتی کیا بلکہ انہیں اشتعال پر بھی آمادہ کیا۔

نواز شریف کو جب نکالا گیا تو مریم نواز کی قیادت میں ایک چھوٹا سا میڈیا سیل اس غیر آئینی قدم کے خلاف احتجاج کرتا رہا جبکہ عمران خان نے سوشل میڈیا کی ایک بڑی جمعیت تیار کر لی ہے، سرکاری خزانے پر پلنے والے یوٹیوبرز سے لے کر ہزاروں سوشل میڈیا ٹرول تک ایک نادیدہ حکم کے تحت غلاظت بکھیرنا شروع کرتے ہیں اور ایسے میں بہت سے اوور سیز پاکستانی ان کی مدد کو پہنچ جاتے ہیں جنہیں پاکستان کی صورت حال کا ادراک ہی نہیں۔

نواز شریف نے کبھی فوج کے ادارے کے خلاف بات نہیں کی ہمیشہ چند کرداروں کے نام لئے جبکہ عمران خان نے نیوٹرل ہونے پر پوری فوج کو ہی جانور کہہ دیا۔

تضادات تو بہت ہیں مگر اس آخری بات پر بات ختم کرتے ہیں کہ نواز شریف کو جب نکالا گیا تو وہ سیاست سے نکل نہیں سکا۔ ہر ٹاک شو میں اسی نام کے حوالے سے ریٹنگ لی گئی۔ نواز شریف آج بھی سیاست کا محور ہے جبکہ عمران خان کی سیاست اس کے بعد ختم ہوتی نظر آ رہی ہے۔ اس لئے کہ یہ مصنوعی پودا بغیر بیساکھیوں کے زندہ نہیں رہ سکتا۔ تحریک انصاف کی مصنوعی سیاست نیوٹرل ایمپائر کے ساتھ ہی ختم ہو جائے گی۔

عمار مسعود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عمار مسعود

عمار مسعود ۔ میڈیا کنسلٹنٹ ۔الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا کے ہر شعبے سےتعلق ۔ پہلے افسانہ لکھا اور پھر کالم کی طرف ا گئے۔ مزاح ایسا سرشت میں ہے کہ اپنی تحریر کو خود ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر میزبانی بھی کر چکے ہیں۔ کبھی کبھار ملنے پر دلچسپ آدمی ہیں۔

ammar has 265 posts and counting.See all posts by ammar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments