کاروبار کے لئے بنک قرضہ اور میں


انیس سو ستاون سے جب ہم نے پہلی بار بنک اکاؤنٹ کھولا تھا اعصاب پر سوار یہ فقرہ ”بنک قرضہ کاروبار کے لئے صرف ان ہی کے لئے ہوتا ہے جو ممکنہ طور پر اس کے بغیر گزارا کر سکتے ہیں۔“ پاکستانی حکومت کی چھوٹے کاروبار کے لئے ضرورت مندوں کو قرضہ دیے جانے کے حالیہ اعلانات کے بعد پھر سے آنکھوں کے سامنے گھومنا شروع ہے۔

جون انیس سو چوہتر کا پہلا ہفتہ تھا۔ ریل بازار پولیس چوکی فیصل آباد کے سامنے میری آٹو پارٹس کی دکان دس گھنٹہ کی آگ کے بعد دھواں دیتا ملبہ بن چکی تھی۔ آزمائش شروع تھی اور ہر لحظہ بدلتی آنکھوں اور پھرتے چہروں کے تماشے نظر سے گزر رہے تھے۔ مسلم کمرشل بنک گیا تو مینیجر علیم صاحب نے دفتر بلا افسوس کرتے بتایا کہ انہوں نے بغیر میری درخواست کے میری اوور ڈرافٹ ( بنک قرضہ جو حسب ضرورت لیا اور واپس کیا جاتا ہے ) کی حد کو بیس ہزار سے چالیس ہزار کرنے کی منظوری لینے کے لئے سمری زونل آفس بھجوا دی ہے کہ بنک عملہ اسی طرح کچھ حوصلہ افزائی کر سکتا ہے۔

اور آج تیسرے روز دوبارہ بنک میں داخل ہوتے ہی جونیئر افسر انتہائی مغموم چہرہ لئے رازداری سے بتا رہا تھا کہ زونل مینیجر حاجی یونس شاد صاحب کی ہنگامی ہدایت آئی ہے کہ پارٹی غیر محفوظ ہو چکی لہذا قرضہ کا اجازت نامہ بکلؔی منسوخ۔ اکثر عملہ ہمدردی کی نگاہ سے دیکھ رہا تھا مگر چند چمکتی نگاہوں میں طنز بھی تھا۔

چند گھنٹے بعد الائیڈ بنک گول کریانہ بازار جا بیلنس پوچھ رہا تھا کہ مینیجر انعام الہی (جو چند ماہ قبل ہی کچھ دوستوں کی سفارش لا اپنی برانچ میں میرا اکاؤنٹ دکان پہ آ، کھول، خود ہی تیس ہزار روپے تک کا اوور ڈرافٹ منظور کروا چکے تھے اور اکثر گپ شپ کے لئے دکان پہ آتے اور مجھے اپنے دفتر میں چائے پلائے بغیر برانچ سے آنے نہ دیتے تھے۔ ) دفتر سے نکل میرے پاس آ روکھے لہجے میں کہہ رہے تھے کہ بنک عملہ آپ کو برداشت نہیں کرے گا۔ آپ کی اوورڈرافٹ قرضہ کی اجازت منسوخ اور از رہ کرم اپنا اکاؤنٹ فوراً بند کر دیں۔

پچھلے ایک ہفتہ میں بائیکاٹ اور پکٹنگ اور پانی تک بند ہونے کے بعد یہ خبریں کوئی اچنبھا نہ تھیں اور ”حیلے سب جاتے رہے، اک حضرت توؔاب ہے“ کہ ورد کے ساتھ قادر مطلق کی مدد مانگتے اور رہنمائی چاہتے اور رستے کھولنے کی دعائیں کرتے ایک عزم نو کی بنیاد دل میں پڑ مقابلہ اور پہلے سے آگے نکل دکھانے کے خواب کو سچا دکھانے پہ تل چکے لئیق احمد کی آنکھوں میں وہ منظر گھوم گیا جب انیس سو ستاون میں پہلی مرتبہ اسی مسلم کمرشل بنک کی پرانی بلڈنگ میں اکاؤنٹ کھلوا رہا تھا کہ افسر کے میز کے سامنے میرے ساتھ کرسیوں پر بیٹھے دو افراد میں سے ایک دوسرے کو کہہ رہا تھا ”میں تمہیں پہلے ہی بتا رہا تھا کہ یہ بنک قرضے کہنے کو تو کمزور کھاتہ دار کے لئے بھی ہوتے ہیں مگر عملاً صرف انہی کو ملتے ہیں جن کا گزارا اس کے بغیر بھی چل جاتا ہے۔

جب تم محنت کر کامیاب ہو جاؤ گے تو یہی بنک خود تمہیں گھر آ قرضہ لینے کو کہیں گے“ ذہن کے پردے پہ چلی سترہ سال پرانی فلم اور آج کے واقعات۔ پرانا سیکھا سبق دوہرایا جا چکا تھا۔ دنیا سے سبق سیکھ صرف اسی ذات جاودانی کی مدد پہ بھروسا کا عہد کرتے میں جلی دکان کے سامنے پھیلا ملبہ سمیٹنے میں مصروف ہو چکا تھا۔

اور شاید میری آہیں ٹھکانے پہنچ چکی تھیں۔

اب یہ انیس سو ستاسی کا وہی جون کا مہینہ تھا۔ اور میں سرکلر روڈ کی کرایہ کی دو سو مربہ فٹ کی دکان کی بجائے اپنی مملوکہ دس مرلہ پہ بنی دکان رفیق اینڈ برادرز ( بالمقابل جنرل بس سٹینڈ ) پہ بیٹھا تھا اور اسی مسلم کمرشل بنک کی سرگودھا روڈ برانچ کے مینیجر اپنے ساتھیوں میں سے ایک کا تعارف بنک کے زونل مینیجر کی حیثیت سے کرا رہے تھے۔ اور تھوڑی دیر بعد چائے پیتے گپ مارتے دکان میں چاروں طرف نگاہیں پھراتے زونل مینیجر مجھے پوچھ رہے تھے کہ آپ کاروبار مزید بڑھانے کے لئے اس اپنے بنک سے قرضہ کیوں نہیں لے لیتے۔

میں یک دم انیس سو ستاون اور انیس سو چوہتر کے اسی بنک میں پہنچ چکا تھا۔ تحمل سے پوچھا جی کتنا قرضہ مجھے مل سکتا ہے۔ ”جی دکان آپ کی مملوکہ ہے تو پانچ لاکھ کا قرضہ تو میں یہاں ابھی بیٹھے منظور کر دیتا ہوں، زیادہ بھی اوپر منظوری سے ہو سکتا ہے“ اتنے میں فون کی گھنٹی بجی۔ کراچی سے چاچا خورشید کا فون تھا اور وہ اپنی امپورٹ کردہ تازہ ریڈی ایٹر کی کنسائنمنٹ کی تفصیل بتا رہے تھے۔ اور چند منٹ کی سودا بازی کے بعد پوری کنسائنمنٹ کا سودا ہو چکا تھا۔ مہمانوں سے معذرت چاہتے کچھ مزید گپ کے بعد دوبارہ اجازت چاہتے ایک دو فون لاہور اور کراچی گھمائے۔

اب میں بنک ٹیم کو انیس سو ستاون میں مسلم کمرشل میں سنی گفتگو دہرا اور انیس سو چوہتر کی پیاری ہستی علیم صاحب کی شفقت اور حاجی یونس شاد کے سلوک اور رویہ اور اس وقت کی آپ بیتی سنا چکنے کے بعد عرض کر رہا تھا۔ ”محترمین۔ اس دن کے بعد میں نے بنک قرضہ کا سوچا ہی نہیں ہاں محنت وعدہ کی پابندی اور صاف ستھری کاروباری ساکھ الحمدللٰہ مجھے بغیر سود بغیر ضمانت بغیر تحریری معاہدہ اور خدا تعالی کا فضل میرے کاروبار کے مطابق لا محدود قرضہ منظور کرا چکا ہے۔

اور ابھی آپ حضرات کے تشریف رکھتے شاید خدائی تقدیر بطور ثبوت اس رقم سے کہیں زیادہ کا مال مجھے دلوا چکی۔ جتنی آپ نے بنک سود بلڈنگ یا سٹاک کی ضمانت اور تحریری معاہدہ کی شرائط پر دستخط کراتے منظور کر نا یا کرانا تھا۔ اب میری زبان اور میری کاروباری ساکھ میرا قرضہ اور ضمانت ہیں۔ آپ کا احسان اور شکریہ کہ اب بنک مجھے اس قابل سمجھنے لگا کہ جسے قرض دینا محفوظ ہے۔ تاہم درخواست یہ ہے کہ جن کو واقعی اس قرض کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے ان کے لئے کچھ راہ نکالیں کہ ان کو قرض مل سکے اور روزی کا انتظام ہو۔ ویسے مجھے یقین ہی نہیں علم بھی ہے کہ بڑے سیاسی اور کاروباری با اثر مگر مچھ مل ملا یا اثر و رسوخ سے اربوں کروڑوں بنک قرض لے ڈکار مار چکے ہیں انشاءاللہ غریب مقروض کا قرض واپس نہ کرنے کی شرح اس سے دو فیصد بھی نہ ہوگی“

پینتیس سال مزید گزر چکے اور حال ہی میں حکومت پاکستان نے بے کار نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کرتے اپنے پاؤں پہ کھڑا کرنے میں مدد کرنے کے لئے بنک قرضوں کے سکیموں کا اعلان کیا ہے۔ مگر کیا اب واقعی بلا کسی ضمانت کی طاقت والے واقعی ضرورت مند کی حاجت پوری ہو رہی ہے یا اب بھی وہی فائدہ اٹھا رہا ہے جس کی روزی اس کے بغیر بھی کچھ نہ کچھ چل رہی ہے یا جو پیلی ٹیکسی، ٹرک بس سکیم کے قرضوں کی طرح خاصی تعداد بنک عملہ کی ملی بھگت اور مل ملا واپس نہ کرنے کے لئے ہی قرض لے لے گا۔ خدا کرے کہ کوئی یہ کہتا سنائی نہ دے کہ قرضہ اس کے لئے ہے جو اس کے بغیر بھی روٹی کمانے کی سکت رکھتا ہے۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments