سیاست میں بدزبانی نہیں شائستگی درکار ہے


جارج اورویل انگریزی زبان کا مایہ ناز ناول نگار تھا اس کے نام جہاں انگریزی کے اعلی ناول اینیمل فارم اور 1984 ہیں جن کا مقام صرف انگریزی ادب میں ہی نہیں بلکہ عالمی ادب میں بھی امتیازی طور پر موجود ہیں وہی پر وہ حالات حاضرہ پر بھی اپنی تحریروں سے اپنے خیالات کا اظہار کرتا رہتا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے اختتام کے بعد ایک سیاسی انارکی کی کیفیت تھی۔ سیاسی اختلافات کے سبب سے زبان کا ایسا استعمال ہو رہا تھا کہ جس میں ذومعنی بہت کچھ کہا جا رہا تھا اسی کیفیت کو بھانپتے ہوئے اس کے بد اثرات کو محسوس کرتے ہوئے اس نے انیس سو چھیالیس میں اپنے شہرہ آفاق مضمون

Politics and the English language

تحریر کیا اور اس مضمون میں اس نے سیاست میں ذو معنی اور مختلف المعنی الفاظ کے استعمال پر بحث کی۔ اس کے منفی اثرات کو عوام کے سامنے لایا اور اس کے اس مضمون کے بعد انگریزی زبان کے استعمال بلکہ سیاسی استعمال کے حوالے سے ایک پورا مکتب فکر اس کے نام سے وجود پا گیا۔ جب شہباز گل نے رمیش کمار کو ٹیلی ویژن پر گالی دی اس کے بعد اس گالی کو ”جائز“ ثابت کرنے کی غرض سے یہ نرالی منطق سامنے لے کر آئے تھے اگر یہ ہی الفاظ انگریزی زبان میں ادا کرتا تو اس پر کسی کو اعتراض نہ ہوتا تو اس وقت مجھے جارج آرویل کی شدت سے یاد آئی کہ وہاں پر سیاسی زبان کی نوعیت کیا ہونی چاہیے پر انیس سو چھیالیس میں اس پائے کی گفتگو ہو رہی تھی مکتب فکر وجود میں آ رہے تھے اور ہمارے ہاں یہ صورتحال قائم ہے کہ 2022 میں بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر گالی انگریزی زبان میں ادا کی جائے تو قابل قبول ہوتی ہے۔

یعنی صرف دیسی انداز سے اختلاف کیا جا سکتا ہے ورنہ کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔ رمیش کمار کے ساتھ اس نوعیت کے الفاظ کے استعمال سے ایک دوسرا تاثر بھی نہایت مضبوط طور پر قائم ہوا ہے کہ ان سے اس نوعیت کا رویہ اس لیے اختیار کیا گیا کیونکہ وہ وطن عزیز میں بسنے والے اکثریتی مذہب کے پیروکار نہیں ہے ان کے ساتھ کسی بھی انداز میں معاملہ کیا جا سکتا ہے ورنہ اگر شہباز گل اپنے ہی شہر کے کسی دوسرے رکن اسمبلی سے اس نوعیت کی گفتگو کرتے تو ان کو اس کے نتائج بھی بھگتنا پڑتے اور اسی سبب سے ان میں اتنی جان موجود نہیں ہے کہ وہ کسی سے منہ در منہ ہوتے ہوئے اس قسم کے الفاظ کا استعمال کرتے مگر وہ رمیش کمار سے یہ سب کر گئے ایسا ہو جانے سے پاکستان میں بسنے والے لاکھوں غیر مسلم پاکستانیوں کے دل دکھے ہوں گے کیونکہ ان میں ایک خاص احساس کو ایسے واقعات تقویت پہنچانے کا باعث بنتے ہیں جن سے بہر صورت اجتناب برتنا چاہیے۔

یہ پنجاب ہاؤس اسلام آباد کا قصہ ہے۔ رمیش کمار کے پی ٹی آئی میں جانے سے چند دن قبل راقم الحروف، بھائی کھیل داس کوہستانی اور دیگر افراد کی موجودگی میں رمیش کمار نواز شریف سے بضد ہو رہے تھے کہ وہ دورہ کراچی میں ان کے گھر قیام کریں نواز شریف نے کہا کہ میں تو وہاں پر گورنر ہاؤس میں بھی قیام نہیں کرتا ہوں تو وہ بولے کہ میرا گھر سکیورٹی کے حوالے سے گورنر ہاؤس سے بھی زیادہ محفوظ ہے کیونکہ وہ سعودی عرب کے قونصل خانے کے ساتھ ہے نواز شریف نے گورنر ہاؤس کے ذکر پر ایک دو شگفتہ جملے زبیر عمر سے کہیں اور بات ہلکے پھلکے انداز میں ختم ہو گئی۔

حالاں کہ اس وقت نواز شریف اور وہاں موجود دیگر افراد اچھی طرح سے جانتے تھے کہ رمیش کمار چند دنوں میں مسلم لیگ نون کو خیر باد کہنے والے ہیں مگر نواز شریف نے اپنے رویے سے، اپنی گفتگو سے اس بات کو ذرا سا بھی نہیں محسوس نہیں ہونے دیا کہ جس سے رمیش کمار کے احترام میں کوئی فرق محسوس ہوتا حالاں کہ اس وقت کے حالات شدید اعصابی دباؤ کا شکار کرنے کے لئے کافی تھے مگر مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کیا گیا۔ مگر موجودہ حکمران کا یہ رویہ ہے کہ وہ منہ پر ہاتھ پھیر کر کہتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ یہ کروں گا اور میں تمہارے ساتھ وہ کر دوں گا۔

ان کے سمیت ان کی نچلی قیادت گالم گلوچ تک سے باز نہیں آتی ہے۔ معاملہ صرف یہ نہیں ہے کہ موجودہ حکمران مزید کتنے عرصے تک تخت نشین رہیں گے اصل مسئلہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاستدانوں نے طویل تکلیفوں کے بعد یہ سیکھا تھا کہ الفاظ کے غلط چناؤ سے معاملات سنگین ہو جاتے ہیں مگر اب معاملہ اس سے بھی آگے بڑھ گیا ہے کہ صرف الفاظ کا غلط چناؤ ہی نہیں گالم گلوچ کا رویہ اختیار کیا جا رہا ہے اور یہ صرف سوشل میڈیا پر نہیں بلکہ ٹیلی ویژن پر ہو رہا ہے۔ حکومتوں نے تو جلد یا بدیر رخصت ہونا ہی ہوتا ہے مگر ان کے اثرات نسلوں تک اثر انداز ہوتے ہیں سیاست میں شائستگی کب واپس آئے گی گالم گلوچ سے کب جان چھوٹے گی اگلا چیلنج یہ درپیش ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments