قرارداد پاکستان: 23 نہیں 24 مارچ


پاکستان کو معرض وجود میں آئے تقریباً 75 سال ہونے کو ہیں۔ مگر آج بھی ہماری سیاسی تاریخ میں حقائق کم اور مغالطہ آرائی زیادہ پائی جاتی ہے۔ چونکہ ہم اپنی تاریخ کی کتاب کے کئی اوراق سے ناواقف ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کو تو وطن ء عزیز کی اصل تاریخ آزادی ہی معلوم نہیں تو پھر یوم ء قرارداد پاکستان کا علم کیونکر ممکن ہے؟

البتہ، اسلامی جمہوریہ پاکستان وہ واحد ریاست نہیں جس کا تاریخ نامہ تناظر کا شکار ہو۔ مزید برآں! فلپائن اور انڈیا جیسے دیگر ممالک نے بھی یکساں مقاصد کے لیے ایسا کیا ہے۔

آج میری یہ تحریر تاریخ کی حقیقت پر سے ان مغالطوں اور مبالغوں کی گرد ہٹائے گی۔

تئیس مارچ جو ”قرارداد پاکستان“ کی تحریک حریت سے منسوب ہے ایک تاریخی مغالطے پر مبنی ہے۔ متعدد تاریخی حوالہ جات اس بات کی طرف اشارے کرتے ہیں کہ یہ قرارداد 24 مارچ 1940 ء کو منظور کی گئی تھی۔ اس قرارداد کے بارے میں عام تاثر یہ بھی ہے کہ برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں نے لاہور میں ”اقبال پارک“ موجودہ ”مینار پاکستان لاہور“ کے مقام پر 1940 میں پیش کی تھی۔ اور انڈین مسلم لیگ کے ستائیس ویں سالانہ اجلاس میں ایک علیحدہ خطے کے مطالبے کی قرارداد منظور کی گئی تھی۔

ایک عام پاکستانی کے لیے تاریخی حقائق سے آشنائی کا معتبر اور مستند ذریعہ قومی تدریسی کتب ہوتی ہیں۔ مگر ہمارے ہاں ان معلوماتی کتب میں بھی مبہم تاریخ درج کر کے مصنفین نے ازحد خوبصورتی سے تاریخی حقائق کو مسخ کر کے رکھ دیا ہے۔

تاہم، اگر برصغیر کی تاریخ کے اس اہم تاریخی واقعے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ کیا جائے تو یہ حقیقت ظاہر ہوتی ہے کہ آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس کی کارروائی 22 مارچ 1940 ء کو شروع ہوئی۔ نواب ممدوٹ نے استقبالیہ کمیٹی کے سربراہ کے طور پر افتتاحی خطاب کیا۔ اس کے بعد قائداعظم صاحب نے طویل تقریر کی اور اس کے ساتھ ہی اس دن کی کارروائی اختتام کو پہنچی۔ 23 مارچ 1940 ء کو اجلاس کی کارروائی سہ پہر 3 بجے شروع ہوئی۔ بنگال کے وزیر اعظم اے۔ کے فضل حق نے قرارداد لاہور پیش کی اور اس کی حمایت میں تقریر کی۔ چوہدری خلیق الزمان نے اس قرارداد کی تائید کی اور مختصر سا خطاب کیا۔

بعد ازاں ظفر علی خان، سردار اورنگزیب خان اور عبداللہ ہارون نے قرارداد کی تائید میں مختصر تقاریر کیں، اور اجلاس کی کارروائی کو اگلے دن کے لیے ملتوی کر دیا گیا۔ 24 مارچ کو اجلاس کی کارروائی دن کے سوا 11 بجے شروع ہوئی۔ متحدہ صوبہ جات کے نواب محمد اسماعیل خان، بلوچستان کے قاضی محمد عیسیٰ (موجودہ چیف جسٹس آف پاکستان، جسٹس قاضی فائز عیسی کے والد) اور عبدالحمید خان آف مدراس نے قرارداد لاہور کے حق میں تقاریر کیں۔ بعد ازاں دو اور قراردادیں پیش کی گئیں (ایک فلسطین پر اور دوسری خاکسار واقعہ پر) جس کے بعد قرارداد پاکستان متفقہ طور پر منظور کر لی گئی۔

اس تاریخی موڑ کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ 1940 سے 1947 تک قائداعظم نے یوم پاکستان کے حوالے سے عوامی ریلیاں 24 مارچ کو نہیں بلکہ 23 ​​مارچ کو منعقد کیں۔ غالباً اسی وجہ سے 1956 کے آئین کا نفاذ، اگرچہ مارچ کے اول میں کیا گیا تھا مگر منظور 23 مارچ کو کیا گیا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر وہ کیا وجہ تھی جس کے سبب 24 مارچ 23 مارچ ہو گیا۔ اس کے لیے ایک وسیع مطالعے اور تحقیق کی ضرورت ہے، قرارداد لاہور کے مندرجات میرا موضوع بحث نہیں بلکہ میرا سوال تو تاریخ رقم کرنے والے اکابرین سے ہے کہ ”قرارداد پاکستان“ کس تاریخ کو منظور ہوئی تھی؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments