مرگی یا دماغ کا شارٹ سرکٹ


آج میں جیم سے نکلا تو اگلے چوک پر ایک ہجوم سڑک کے بیچ رستہ بند کیے ہوئے تھا۔ گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ ایک دس بارہ سالہ لڑکا زمین پر پڑا جھٹکے کھا رہا ہے۔ اس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی۔ آس پاس امرسوں کی ٹوکری الٹی پڑی تھی۔ لوگوں نے اس کے پاؤں اٹھائے تھے۔ جبکہ ایک شخص بچے کو جوتا سونگھا نے کی کوشش کر رہا تھا۔ یہ ہر لحاظ سے مرگی کا ایک دورہ تھا اور اس میں سانس لینے کے لئے مریض کے منہ اور گردن کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ جبکہ بعض اوقات مریض کی زبان دانتوں کے درمیان آجاتی ہے۔ اور کٹ بھی سکتی ہے۔

میں نے فوراً باہر جمپ لگائی اور اس کے منہ سے جوتا پرے پھینکا، اس کا جسم ایک کروٹ پر ڈالا اور نچلا جبڑا کھول کر آگے کی طرف کھسکا یا تاکہ اس کی سانس درست ہو سکے۔ اس کے منہ سے جھاگ صاف کی چند لمحوں میں اسے ہوش آ گیا۔ لوگوں نے ہمدردی کے مارے اس کی ٹوکری ٹوٹے پھوٹے امرسوں سے بھر دی۔ جبکہ میں نے اسے ہاتھ میں اپنے ہسپتال کا کارڈ پکڑا دیا کہ کل ضرور ہسپتال آ جائے۔ خدا کرے میرے مشورے پر عمل کر لے کہ مرگی قابل علاج مرض ہے۔

اس سے قبل میں دماغ کے حیرت انگیز کمالات پر لکھ چکا ہوں۔ ہمارے تمام احساسات، سوچیں اور اعمال کا انجن صرف اور صرف دماغ ہے۔ ہر احساس اور ہر عمل کے لئے مختلف خلیے ہیں۔ جیسے گھر میں آپ ایک بٹن آن کرتے ہیں اور وہاں روشنی ہوجاتی ہے، یا پنکھا گھومنے لگتا ہے۔ اسی طرح ہمارا ہر احساس دماغ کی بھول بھلیوں سے گزر کر ایک مجسم صورت کی شکل میں پیش ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر آنکھ کے پیچھے کا پردہ ریٹینا پر ایک جگہ ہے جہاں نظر کے اعصاب داخل ہوتے ہیں۔

یعنی آپ کسی طرف سے بھی دیکھیں، آنکھ کے پردے پر وہ بلائنڈ سپاٹ موجود رہے گا۔ لیکن دماغ ہمارے ساتھ ہاتھ کر جاتا ہے۔ وہ اپنے سامنے نظر آنے والی تصویر میں بلائنڈ سپاٹ کو اپنے تجربے سے بھر دیتا ہے اور ہمیں یقین دلاتا ہے کہ یہ تصویر مکمل ہے۔ یوں ہی بعض اعمال روٹین کا حصہ بن جاتے ہیں اور ہم لاشعوری طور پر کرتے ہیں اگرچہ سگنل اسی دماغ سے نکلتا ہے۔

جب بجلی کے کسی سرکٹ میں شارٹ سرکٹنگ ہوتی ہے تو سپارک اٹھتے ہیں۔ بالکل اسی طرح اگر دماغ کا وہ حصہ جو ہوش میں رہتا ہے اور جسم کے عضلات کو متحرک کرتا ہے، اگر شارٹ سرکٹ ہو جائے تو انسان پر بے ہوشی طاری ہوجاتی ہے اور اس کے عضلات بے مقصد تشنج میں چلے جاتے ہیں۔ اگر جبڑے متحرک ہوتے ہیں تو ان میں زبان آ کر کٹ سکتی ہے۔ وہی لعاب اگر نارمل طریقے سے نگلی نہ جائے تو جھاگ بنا کر سانس بند کر سکتی ہے۔ بعض لوگوں کو عضلات کے تشنج کی بجائے عجیب عجیب احساسات آنا شروع کر دیتے ہیں۔ کوئی خاص قسم کی بو محسوس کرتے ہیں، آنکھوں کے سامنے پھلجھڑیاں پھوٹنے لگتی ہیں۔ غرض دماغ کا جو بھی حصہ سپارک کرنے لگتا ہے تو اس جگہ سے جڑے وہ سارے احساسات اور اعمال مریض کی مرضی کے بغیر شروع ہو جاتے ہیں۔

کئی مرگی کے مریضوں کو دورہ پڑنے سے پہلے کچھ نہ کچھ آگاہی ضرور ہوجاتی ہے۔ تھیٹر کی جلتی بجھتی بتیاں دماغ کے اس حصے کو سپارک کروا سکتی ہیں۔ اور ہوشیار مریض فوراً آگاہی سمجھ کر محفوظ جگہ بیٹھ جاتے ہیں۔ اسی لئے کئی سینماؤں اور ویڈیو گیمز مقامات پر یہ وارننگ لکھی ہوتی ہے۔ ٹیوب لائٹ کی فریکوئنسی بھی بعض لوگوں میں دورہ شروع کروا سکتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ مرگی ایک طبی اور دماغ سے تعلق رکھنے والی بیماری ہے۔ نہ کسی جن کی نوکری لگی ہوتی ہے اور نہ ہی جوتا سونگھ کر وہ بھاگتا ہے۔ اس کا باقاعدہ علاج ہے۔ اس مرض کے ماہر کو نیورولوجسٹ کہتے ہیں۔ اگرچہ مرگی کی وجہ سے نفسیاتی مسائل بھی پیدا ہو سکتے ہیں جن کے لئے سائیکاٹرسٹ سے مشورہ لیا جاسکتا ہے لیکن بنیادی طور پر مرگی کا علاج نیورولوجسٹ کے احاطے میں آتا ہے۔ سب سے پہلے تو ای ای جی سے اس کی تشخیص مکمل کرتے ہیں۔ سی ٹی سکین یا ایم آر آئی سے یہ بھی دیکھنا پڑتا ہے کہ سپارک کرنے والے خلیے کہیں کینسر کی گلٹی کی وجہ سے تو نہیں۔

دماغ میں اس شارٹ سرکٹ کو قابو کرنے والی ادویات باقاعدگی سے کھانے سے دوروں میں خاصی کمی آجاتی ہے۔ اگر دورے بالکل نہیں رکتے تو خون میں دوا کی مقدار ناپی جا سکتی ہے اور ڈوز کم و بیش کر کے ڈاکٹر مریض کی مدد کر سکتا ہے۔ زیادہ تر مریض قصداً دوا چھوڑ کر مرگی کا شکار ہوتے ہیں یا اس کے خوراک اپنی مرضی سے تبدیلی کرتے ہیں۔

مرگی کا دورہ چونکہ کہیں بھی پڑ سکتا ہے اس لئے ان مریضوں کو چند اضافی احتیاطی تدابیر اٹھانی پڑتی ہیں۔ جیسے ان کو کبھی بھی گاڑی ڈرائیو کرنے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بھاری یا پیچیدہ مشینیں چلانا ان مریضوں کے لئے ممنوع ہے۔ اکیلے کچن میں رہنا بھی انکے لئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارے پاس بے شمار بچیاں جلنے کی وجہ سے آتی ہیں۔ کچن میں کھانا پکانے کے دوران ان پر مرگی کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ کئی ایک تو توے پر چہرہ رکھ کر نصف چہرہ جلا بیٹھتی ہیں۔

ان کو باتھ روم میں بھی کبھی اندر سے کنڈی نہ لگانے کی ہدایت ہے تاکہ دورہ پڑنے کی صورت میں کوئی مدد کرسکے۔ کامیاب علاج فی الحال دوا معمول کے مطابق اور مکمل ڈوز میں جاری رکھنے سے ہی ممکن ہے۔ دماغی رسولی اگر ہو تو اس کا آپریشن لازم ہوجاتا ہے۔ نوجوان شادی شدہ خواتین کو حمل سے پہلے ڈاکٹر سے مشورہ لینا ضروری ہے کہ مرگی کی بعض دوائیں لینے کی صورت میں حمل کے پہلے چند ماہ میں ہونے والے بچے میں پیدائشی نقائص ہونے کا خطرہ ہوتا ہے جیسے چھدے ہونٹ یا تالو کے نقائص۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments