وعدوں سے دھمکیوں تک


بہت ہی مربوط طریقے اور ذہانت سے اس قوم کی نفسیات کو سامنے رکھتے ہوئے عمران خان کی مارکیٹنگ کی گئی تھی کہ وہ بہت ایماندار ہے۔ کبھی موریوں والی قمیص دکھائی گئی، کبھی پسینے میں تر بتر، کبھی ٹوٹی جوتی، کبھی چائے کے ساتھ سوکھی روٹی کھاتے ہوئے اور کبھی ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر عمران خان کو استراحت فرماتے دکھایا گیا۔

اتنی شاندار مارکیٹنگ تھی کہ عام لوگ تو کجا، بڑے بڑے دانشور اور اس ملک کی انٹیلیجنشیا بھی اس مارکیٹنگ سے متاثر ہو گئیں اور ان کو عمران خان کے روپ میں ایک مسیحا نظر آنے لگا کہ جو آئے گا اور پاکستان کی تقدیر کو بدل دے گا۔ پاکستان میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی۔ قانون کی بالا دستی ہوگی۔ شیر اور بکری ایک گھاٹ سے پانی پئیں گے۔ میرٹ کا دور دورہ ہو گا۔ اربوں روپے کی کرپشن جو روزانہ ہوتی ہے عمران خان اس کو روک دے گا۔ پاکستان اتنا امیر ہو جائے گا کہ یورپ کے ممالک کو پیچھے چھوڑ دے گا۔ لوگ وہاں سے یہاں نوکریاں ڈھونڈنے آئیں گے۔ پاکستان کی دنیا میں عزت ہوگی۔ ہرے پاسپورٹ کو حاصل کرنے کے لئے لوگ وہ پاپڑ بیلیں گے جو آج کل پاکستانی یورپ اور امریکہ کا پاسپورٹ حاصل کرنے کے لئے بیلتے ہیں۔

پھر اسٹیبلشمنٹ کو رحم آیا اور خان صاحب کو اقتدار مل گیا۔ لوگوں کا مورال بلند تھا۔ لوگوں نے خوشیاں منائیں کہ اب پاکستان کے دلدر ہو جائیں گے۔ پاکستان ترقی کی شاہراہ پر بگٹٹ بھاگے گا۔ کپتان نے کہا ”بس آپ نے گھبرانا نہیں ہے“ ۔

چینی اسکینڈل آیا، خان نے کہا گھبرانا نہیں۔ دوائیوں میں خان کے ایک وزیر نے اربوں کی کرپشن کی خان نے کہا گھبرانا نہیں۔ مالم جبہ اسکینڈل چلا، خان نے کہا گھبرانا نہیں۔ پشاور میٹرو بس میں اربوں کی کرپشن کا انکشاف ہوا۔ خان نے کہا گھبرانا نہیں۔

آٹا اسکینڈل آیا خان نے کہا گھبرانا نہیں۔ کھاد ملنا بند ہوئی خان نے کہا گھبرانا نہیں۔ پٹرول کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچیں خان نے کہا گھبرانا نہیں۔ بجلی کے بل عام آدمی کی استطاعت سے باہر ہوئے خان نے کہا گھبرانا نہیں۔ گیس ملنا بند ہو گئی خان نے کہا گھبرانا نہیں۔

پھر نوبت یہ آئی کہ لوگوں کے چولہے ٹھنڈے ہو گئے۔ لوگ بھوک سے بلبلا نے لگے۔ کسی نے سچ کہا پیٹ میں روٹی نہ ہو تو چاند پر شاعری نہیں سوجھتی بلکہ وہ بھی روٹی ہی نظر آتا ہے۔

مہنگائی کا آسیب لوگوں کو کھانے لگا۔ افراط زر بارہ فیصد سے بھی تجاوز کر گیا۔ آٹا، چینی، دوائیں، بجلی، گیس کے بل لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوئے تو لوگوں نے گھبرانا شروع کیا۔ خان کو پتہ چلا کہ اب لوگ گھبرا رہے ہیں تو اس نے تاریخی جملہ کہا کہ ”میرے پاس کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ سب کچھ ٹھیک کردوں“ ۔ ریاست مدینہ میں بھی شروع شروع میں بہت مشکلات آئیں تھیں۔ لوگوں نے پیٹ پر پتھر باندھے۔ شعب ابی طالب میں لوگ تین سال تک بھوکے پیاسے رہے تھے۔ کچھ حاصل کرنے کے لئے قربانی دینا پڑتی ہے۔ لوگ چپ اور ویران اور اداس آنکھوں سے خان کو دیکھتے رہے۔

پھر یوں ہوا کہ خان کی ایمانداری کا طلسم جو کہ محب وطن اداروں نے بڑی محنت سے بنایا تھا ٹوٹنے لگا۔ لوگوں نے دیکھا جن کو یہ کرپٹ کہتا تھا وہ سب اس کے ساتھ ہیں۔ کرپشن بھی ویسے ہی ہو رہی ہے۔ رشوت بھی اسی طرح چل رہی ہے۔ بلکہ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کہتی ہے کہ کرپشن بڑھ گئی ہے۔ پندرہ وزراء رکھنے کا وعدہ کرنے والے کی کابینہ میں اسی کے قریب وزیر اور مشیر ہیں۔ اور ان میں سے بہت سے وہ ہیں جن پر کرپشن کے الزامات ہیں۔

ماضی میں بات بات پر ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کی رپورٹس کا حوالہ دینے والے نے اس بار اس کی رپورٹ کو ماننے سے ہی انکار کر دیا۔

جب دیکھا کہ چور اور کرپشن کا نعرہ تو اب اتنا موثر نہیں رہا تو پھر اس نے آزمودہ اور تیر بہدف نسخے مذہب کا استعمال شروع کیا۔ مذہب کے ذریعے لوگوں کا جذباتی استحصال کرنے لگا۔ کبھی نماز پڑھتے تصاویر جاری کیں۔ کبھی رو کر دعا مانگتے ہوئے، کبھی تسبیح ہاتھ میں رکھ کر ایاک نعبد و ایاک نستعین کا ورد شروع کیا۔ لوگوں کو یہ باور کروایا کہ میں تو انتہائی نیک آدمی ہوں اور عاشق رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہوں۔

پھر دیکھا کہ اب اس ناٹک کا رنگ بھی پھیکا پڑتا جا رہا ہے تو پھر امریکہ یورپ کی مخالفت کا نعرہ لگایا جو کہ ہمارے ہاں خوب بکتا ہے۔ بتایا کہ میں چونکہ بہت پکا مسلمان ہوں۔ امت مسلمہ کو اکٹھا کرنا چاہتا ہوں۔ اس لیے میرے خلاف عالمی استعمار سازشیں کر رہا ہے۔ مجھے ہٹانا چاہتا ہے۔ دیکھ لو بھٹو نے امت مسلمہ کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی تو اس کے ساتھ کیا ہوا۔ اسے عالمی استعمار نے نشان عبرت بنا دیا۔ چونکہ میں بھی یہ ہی کر رہا ہوں اس لیے سب میرے خلاف سازشیں کر کے مجھے ہٹانا چاہتے ہیں اور تحریک عدم اعتماد اس کی ایک کڑی ہے۔

اب اس نے مذہب کے نام پر لوگوں کو ستائیس مارچ کو اکٹھا کرنے کا پروگرام بنایا ہے۔ کہ یہ حق و باطل کی جنگ ہے۔ اور صرف میں حق ہوں جب کہ باقی سب باطل ہیں۔ قرآن کی آیت ”امر با المعروف“ پر جلسے کا نام رکھا گیا ہے۔

اس طرح کا مداری پن اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے ضیاء نے شروع کیا تھا کہ تم اسلام چاہتے ہو یا نہیں؟ اگر ہاں تو میں تمہارا صدر اور اگر نہیں تو میں گھر چلا جاؤں گا۔ مذہب کے اس استعمال کے قیمت پھر پاکستان نے عشروں چکائی اور آج تک چکا رہا ہے۔ ہزاروں قیمتی جانیں اس استعمال کی وجہ سے ضائع ہو گئیں۔ خان صاحب اس آگ سے کھیلنا ٹھیک نہیں۔ خدارا! اپنے اقتدار کے لئے اس ملک کے مستقبل سے مت کھیلیں۔ پہلے ہی مذہب کے اس استعمال کی وجہ سے ہزاروں ماؤں نے اپنے لخت جگر کھوئے ہیں۔ اس قوم پر رحم کریں۔

پارلیمنٹ کی جنگ ہے اس کو پارلیمنٹ میں لڑیں۔ اس کو سڑکوں پر مت لے کر آئیں۔ پچھلے سال آپ ہی نے تو جب اعتماد کا ووٹ لیا تھا تو اپنی پارٹی کے ایم این ایز سے کہا تھا کہ آزادانہ ووٹ دینا آپ کا بنیادی حق ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میں درست ہوں تو مجھے ووٹ دیں۔ نہیں سمجھتے تو میرے خلاف ووٹ دیں۔ میں گھر چلا جاؤں گا۔ اپوزیشن میں بیٹھ جاؤں گا۔ تو محترم وزیراعظم اب کیا ہوا ہے؟ اب ان کو کیوں آزادانہ ووٹ نہیں دینے دے رہے؟ اب کیوں ان کو دھمکا رہے ہیں۔ کبھی لوگوں کے سمندر کی دھمکیاں دیتے ہیں اور کبھی نا اہل کروا دوں گا کا ڈراوا دیتے ہیں۔

پاکستان کی قسمت میں پتہ نہیں اور کتنی اداس راتیں لکھی ہیں۔ کتنی اداس نسلیں نسیم سحر کی آرزو میں منوں مٹی تلے جا سوئیں۔ پتہ نہیں اس شب کی صبح اور کتنی دور ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک مداری اس ملک کے نصیب میں لکھا ہے۔

منیر نیازی یاد آتے ہیں۔
اک اور دریا کا سامنا تھا منیرؔ مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments