عمران خان کا سرپرائز


ملک میں اس وقت سیاسی پارہ آسمان کو چھو رہا ہے۔ حکومت کامیابی سے اپنی نا اہلی، بے روزگاری اور مہنگائی کے طوفان کو عوام کی نظروں سے اوجھل کر چکی ہے جس کا کریڈٹ بہرحال اپوزیشن کو جاتا ہے جو کبھی قومی سلامتی کے معاملات یا عوام کے حقیقی مسائل کے لئے یکجا نہیں ہوئی مگر بقول عمران خان اس وقت عالمی اسٹیبلشمنٹ کی ایماء پر ، مقدمات سے بچنے اور اپنی دولت بچانے کے لئے اکٹھی ہو چکی ہے۔ جلد بازی میں پیش کی جانے والی تحریک عدم اعتماد اور پے درپے کی جانے والی فاش غلطیوں نے عمران خان کی گرتی ہوئی مقبولیت کو نہ صرف سہارا دیا بلکہ دوبارہ سے انھیں عوام میں مقبول بنا دیا ہے جس کا ثبوت ان کے حالیہ کامیاب ترین جلسے اور سوشل میڈیا پر عوامی حمایت میں بے پناہ اضافہ ہے۔

اگرچہ اس بار اپوزیشن مضبوط اور متحد نظر آنے کی کوشش کر رہی ہے مگر یکے بعد دیگرے کی جانے والی غلطیوں نے اپوزیشن کی کشتی میں کئی سوراخ کر دیے ہیں۔ اپوزیشن کی سب سے بڑی غلطی یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسپیکر کے اختیارات لامحدود حد تک زیادہ ہوتے ہیں اور اس کی رولنگ کو کہیں چیلنج کرنا ممکن نہیں اس کے باوجود تحریک عدم اعتماد اسپیکر کے بجائے پہلے وزیر اعظم کے خلاف پیش کرنا اپوزیشن کو بہت مہنگا پڑ رہا ہے اور اسپیکر کے مہیا کردہ وقت کو عمران خان استعمال کرتے ہوئے نہ صرف عوامی رائے عامہ ہموار کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں بلکہ ایک کے بعد ایک کامیاب جلسوں نے عمران خان کی سیاسی اور عوامی مقبولیت کو آسمان پر پہنچا دیا ہے۔

اپوزیشن کی ایک اور بڑی غلطی یہ رہی کہ ہمیشہ امریکہ مخالف بیانیے پر سیاست کی بنیادیں رکھنے والی مذہبی اور دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں وزیر اعظم کو امریکہ اور یورپی یونین کے خلاف بیانات دینے پر بار بار مطعون کر کے اپنے تابوت میں آخری کیلیں ٹھوک چکی ہیں۔ خان صاحب عام پاکستانی جذباتی عوام کو من پسند امریکی اور مغربی ممالک کی غلامی سے آزاد ہونے کا نعرہ دے کر اور آزاد خارجہ پالیسی کا سنہرا خواب دکھا کر اپوزیشن کے خلاف متحرک کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں جس کا ثبوت حالیہ جلسوں میں عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر اور سوشل میڈیا پر انصافیوں اور ناراض کارکنان کا متحد ہو جانا ہے۔

اپوزیشن بوکھلاہٹ میں اس بات کا بھی اظہار کر چکی ہے کہ طاقت حاصل کرنے کے بعد وہ اداروں کو ”ٹھیک“ کریں گے نیز نیب کے خاتمے، ای وی ایم اور اور سیز ووٹوں کے حوالے سے بیانات جیسی غلطیوں کو خان صاحب نے کامیابی سے کیش کرتے ہوئے حالیہ تقریر میں جتا کر اور ساتھ ہی ملکی آمدنی بڑھنے کے بعد بجٹ کو دفاع پر خرچ کرنے کا عندیہ دے کر ماسٹر اسٹروک کھیلا ہے۔ ماضی میں ”اینٹ سے اینٹ بجانے“ اور تین بار خارجہ پالیسی اور طاقتور حلقوں کا کنٹرول حاصل کر کے انھیں دبانے کی پالیسی اور اقتدار سے باہر ہونے کے بعد ان پر الزامات کی تاریخ کے پیش نظر اپوزیشن کا یہ بیانیہ ان کے گلے کی ہڈی بنتا نظر آ رہا تھا کہ رہی سہی کسر سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے حامیوں کی ”ادارے“ پر تنقید کی آڑ میں مخصوص میڈیا سیل نے گالم گلوچ کا راستہ اپنا کر پوری کر دی جو ماضی میں بھی فوج مخالف بیانئے کو پرموٹ کرتا رہا ہے۔ یہ سازش بھی مگر ناکام ہوئی اور وزیر اعظم اور مقتدر حلقوں تک اس کے ثبوت پہنچ گئے جسے نیوٹرل کرنے کے لئے اپوزیشن لیڈر اور ان کے حواری فوج کے حق میں بیانات دینے پر مجبور ہوئے اگرچہ اس کا ایک مقصد فوج کو پارٹی بنا کر سیاست میں گھسیٹنا بھی تھا۔

منحرف اراکین کو وقت سے پہلے میڈیا کے سامنے لانا بھی اس وقت اپوزیشن کے لئے مصیبت بن چکا ہے جس کے جواب میں خان صاحب کو معاملہ سپریم کورٹ میں لے جانے کا موقع مل گیا۔ اگر سپریم کورٹ ہارس ٹریڈنگ کو کوئی قانونی جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتی ہے جو بظاہر ممکن نظر نہیں آ رہا تو بھی عمران خان اسے کیش کرنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ اگر فیصلہ حکومت کے حق میں آیا تو پانچوں انگلیاں گھی میں جب کہ تیسری اور آخری صورت فیصلہ پارلیمنٹ اور اسپیکر پر چھوڑنے کی صورت میں بھی کامیابی حکومت کے حصے میں آئے گی۔ اپوزیشن اپنے تمام کارڈز شو کرنے کے بعد صرف انتظار کر سکتی ہے اور ہر گزرنے والے دن کھیل اپوزیشن کے ہاتھ سے گیلی ریت کی طرح پھسلتا جا رہا ہے۔

کچھ حلقے یہ دعوی بھی کر رہے ہیں کہ اپوزیشن یہ نہیں چاہتی کہ اگلے آرمی چیف کی تعیناتی میں عمران خان کا کوئی کردار ہو نیز آرمی چیف ایکسٹینشن کے خواہاں ہیں اور ڈر ہے کہ عمران خان تقرری کا اعلان نہ کر دیں اس لئے بجٹ پیش کرنے کا انتظار کرنے کے بجائے یہ تحریک عدم اعتماد قبل از وقت پیش کی گئی۔ یہ مفروضہ اس لئے بظاہر درست نظر نہیں آ رہا کہ نومبر کے پہلے ہفتے میں اگلی تقرری کے لئے نام وزیراعظم کو بھجوائے جاتے ہیں۔

اس سے قبل عمران خان کی طرف سے کیے گئے کسی بھی اعلان یا تقرری کا نتیجہ کسی صورت عمران خان کے حق میں نہیں نکلے گا حتی کہ خان صاحب فوج کے ساتھ ساتھ عوامی حمایت بھی کھو دیں گے نیز خان صاحب اس بات کا برملا کئی بار اظہار کر چکے ہیں کہ یہ معاملات بہت قبل از وقت ہیں اور وہ فوج کے خلاف نہیں جائیں گے۔ ایسی صورت میں بظاہر اپوزیشن کی اس جلد بازی کے پس پشت وہی عالمی قوتوں کے نمائندے نظر آ رہے ہیں جنھوں نے کچھ عرصہ قبل اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔

اس وقت ملکی سیاست کا ملین ڈالر سوال خان صاحب کا ترپ کا پتہ یا سرپرائز ہے جو وہ ستائیس مارچ کے جلسے میں دینے کا بارہا اعلان کر چکے ہیں مگر نہ تو عمران خان عالمی دباؤ کے ثبوت پیش کر سکتے ہیں نہ ہی قبل از وقت تقرری یا اعلان ہاں مگر خان صاحب کے ہر دوسرے دن کیے جانے والے جلسوں اور مزاج کو مد نظر رکھتے ہوئے قوی امکان ہے کہ اپوزیشن کو چیلنج دیتے ہوئے اسی سال الیکشن کا اعلان ہی خان صاحب کا سرپرائز ہو کیونکہ اگر ستائیس مارچ کے جلسے میں مطلوبہ تعداد اکٹھی ہو جاتی ہے تو یہ پتھر پر لکیر ہے کہ نہ تو اتحادی ساتھ چھوڑیں گے اور نہ ہی مقتدر حلقے نیوٹرل رہیں گے اور آخرکار انھیں اپنا وزن عمران خان کے پلڑے میں ڈالنا پڑے گا جس سے حقیقت میں اپوزیشن کی سیاست زمین میں دفن ہو جائے گی کہ جلسوں کی سیاست کا ملک میں عمران خان سے بڑا کوئی کھلاڑی نہیں اور طاقتور حلقوں کا عوامی رائے عامہ کے خلاف جانے کی غلطی کرنا بہت مشکل ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments