جبری تبدیلی مذہب: جرم کا مذہب کی خدمت سے کوئی تعلق نہیں


”پوجا کماری میری چچا زاد بہن تھی، اور اس کی عمر پندرہ سے سولہ برس کے درمیان تھی۔ وہ چھ بہنوں میں سب سے بڑی تھی اور ہم سب کی چہیتی تھی۔ اب وہ اس دنیا میں نہیں ہے اسے قتل کیا گیا ہے اور پولیس کہتی ہے کہ شاید اس کا کریکٹر صحیح نہیں تھا اور قاتل کے ساتھ اس کے تعلقات تھے اور پوجا اتفاقیہ چلائی گئی گولی کی وجہ سے مری ہے اس میں جبری تبدیلی مذہب کے اغوا یا باقاعدہ منصوبہ بندی سے قتل کیے جانے کے شواہد نہیں ہیں۔ سائیں ہم پولیس اور عدالت سے انصاف کی توقع تو رکھتے ہیں مگر ہم کیا کریں۔ سندھ میں نچلی ذات کے ہندوؤں کے ساتھ ایسا ہی ہوتا ہے۔“ موبائل فون پر گفتگو کرتے ہوئے، مقتولہ پوجا کماری کے چچا زاد بھائی سکندر اوڈ کا لہجہ جذبات سے خالی تھا اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ سوالات پوچھنے والوں کو جواب دے دے کر تھک گیا ہے۔

”جناب یہ ایک سیدھا سا کیس ہے جس میں قتل کی ایف آئی آر درج ہے، آلہ قتل برآمد ہے اور تینوں ملزمان گرفتار ہی‍ں۔ اتفاقیہ گولی چلنے سے لڑکی کی موت واقع ہوئی ہے۔ پولیس تفتیش کر رہی ہے کہ مقتولہ کے ملزمان کے ساتھ تعلقات کی کیا نوعیت تھی۔ اس کیس میں جبری تبدیلی مذہب کے حوالے سے کوئی شواہد نہیں ملے ہیں۔ اور“ ان کی برادری کے مکھی (برادری کا بڑا / سردار) ”سے بھی ہم نے رابطہ کر کے بیان لیا کہ یہ ایک عام قتل کا کیس ہے“ موبائل فون پر گفتگو کرتے ہوئے، روہڑی سرکل کے ڈی ایس پی حق نواز سولنگی صاحب کے لئے پوجا کماری قتل کیس ایک عام نوعیت کا قتل کیس ہی تھا۔ اور میڈیا پر اس کی غلط کوریج سے وہ تھوڑے نالاں بھی محسوس ہو رہے تھے۔

”پولیس تو ہمیشہ صحیح کہہ رہی ہوتی ہے۔ ان کے کے لئے تو ہر کیس ہی آسان ہوتا ہے، فوراً تحقیق مکمل ہو جاتی ہے اور کیس کا چالان عدالت میں پیش کر کے پولیس اپنے کام سے بری الذمہ ہو جاتی ہے۔ پوجا کماری کے قتل کے بعد پولیس نے اس وقت تک ایف آئی آر درج نہیں کی کہ جب تک مقتولہ کے ورثاء نے نیشنل ہائی وے پر لاش رکھ کر احتجاج نہیں کیا۔ اور ایف آئی آر کے بعد پولیس کا وہی روایتی بیان کہ پوجا کماری تو“ اتفاقیہ ”گولی چلنے کی وجہ سے جاں بحق ہوئی ہے اور اس کے تعلقات تھے وغیرہ وغیرہ۔

سائیں میں آپ کو بتاتا ہوں اگر پوجا کماری جان سے نہ جاتی تو اس کے ساتھ کیا ہوتا؟ بالکل وہی ہوتا جو ہر کیس میں ہوتا ہے کہ پہلے کچھ دن وہ لاپتہ رہتی اور پھر اطلاع ملتی کہ پوجا کماری نے بھرچونڈی شریف کی درگاہ پر اسلام قبول کر لیا ہے اور اس کا اسلامی نام مریم رکھا گیا ہے اور وہ واحد بخش لاشاری نام کے“ اچھے اور پکے ”مسلمان کی بیوی ہے اور اب وہ اپنے والدین کے لئے بھی“ نامحرم ”ہے۔ سائیں ہم نے درجنوں ایسے کیس رپورٹ کیے ہیں۔

اپر سندھ کے ہر نوجوان لڑکے اور مرد کو یہ معلوم ہے کہ اگر کسی ہندو لڑکی سے چکر چلانا ہے تو فکر کی کوئی بات نہیں، ڈہرکی میں میاں مٹھو ہمارا ہیڈ بیٹھا ہے وہ سب سنبھال لے گا۔ سائیں میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ میاں مٹھو کو اس طرح کی پاور آخر کن قوتوں نے دی ہے کہ وہ لوگوں کے بچوں کے مذہب کا فیصلہ کرتا پھرے۔“ سکھر کے معروف صحافی اور انسانی حقوق کے کارکن تاج رند کی موبائل فون پر بات کرتے ہوئے آواز بلند تھی اور اس میں شدید غصے کا عنصر شامل تھا۔

پوجا کماری کے قتل کے واقعہ نے جبری تبدیلی مذہب کی سنگین صورتحال کو مزید واضح کیا ہے۔ اقلیتی نابالغ لڑکیوں کی جبری تبدیلی مذہب اور صنفی بنیاد پر تشدد پاکستان میں ایک دیرینہ اور مستقل مسئلہ ہے۔ ایک طرف تو ان واقعات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے جبکہ دوسری طرف حکومت اس مسئلہ کو سمجھنے کے لئے تیار ہی نہیں ہے۔

پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب کے قابل تصدیق اعداد و شمار جمع کرنے والی معروف سماجی تنظیم، ادارہ برائے سماجی انصاف (CSJ) کے جمع کردہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سال 2021 کے دوران جبری طور پر تبدیلی مذہب کے کم از کم 78 واقعات رپورٹ ہوئے جن میں 39 ہندو، 38 مسیحی، اور ایک سکھ لڑکیاں /خواتین شامل ہیں۔

سندھ میں 40، پنجاب میں 36 اور خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ایک ایک کیس سامنے آیا ہے۔ ان واقعات میں 2020 ء کے مقابلے میں 80 فیصد اور 2019 ء کے مقابلے میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان متاثرین میں سے 76 فیصد لڑکیاں نابالغ تھیں ( 18 سال سے کم) ، جبکہ 33 فیصد کی عمر 14 سال یا اس سے بھی کم تھی۔ مزید برآں، 18 فیصد کی عمر کا ذکر نہیں کیا گیا، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جبری تبدیلی مذہب کا شکار ہونے والی 94 فیصد بچیاں نابالغ تھیں۔

مندرجہ بالا اعداد و شمار اس سرکاری بیانیے کو بھی چیلنج کرتے ہیں کہ جس میں یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ بنیادی طور پر تبدیلی مذہب رضاکارانہ طور پر کی جانے والی پسند کی شادیاں ہیں، جب کہ زیادہ تر لڑکیاں کم عمر ہوتی ہیں۔ یقیناً ایسے سرکاری بیانیے سے مجرموں کی حوصلہ افزائی ہی ہوتی ہے۔ حالانکہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20 کے تحت تمام شہریوں کی مذہبی آزادی کو تحفظ حاصل ہے، اور اقلیتوں کو زبردستی اپنا مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرنا غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ اقلیتی لڑکیوں اور خواتین کو ان کے کمزور سماجی حالات کی وجہ سے نشانہ بنایا جاتا ہے، اس لیے وہ انصاف تک رسائی حاصل نہیں کر پاتی ہیں۔ اور اسی وجہ سے مجرمان قانون کی گرفت سے بچ جاتے ہیں۔

صورتحال کی سنگینی اور اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ پر بات کرتے ہوئے، پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی اور پاکستان ہندو کونسل کے چیئرمین ڈاکٹر رامش کمار وانکوانی نے کہا ”جیسے پاکستان بننے سے پہلے مسلمانوں کے مطالبے پر 1937 ء کا مسلم پرسنل لاء آیا تھا، اسی طرح یہ بھی اقلیتوں کا پرسنل لاء ہے جس پر وزارت مذہبی امور یا اسلامی نظریاتی کونسل کا اعتراض غیر آئینی اور اقلیتوں کو آئین میں دی گئی آزادیوں سے متصادم ہے۔ اگر 18 سال کی عمر سے پہلے شناختی کارڈ نہیں بن سکتا، بینک اکاؤنٹ نہیں کھل سکتا اور ووٹ نہیں ڈالا جا سکتا تو تبدیلی مذہب جیسا بڑا فیصلہ کیسے ہو سکتا ہے؟“

اگر حکومت سنجیدہ ہو تو درج ذیل موجود قوانین کے ذریعے جبری تبدیلی مذہب کے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے :

۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے جس میں 18 سال سے کم عمر کی شادیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا، چاہے ان میں ان کی اپنی مرضی شامل ہو۔

۔ وفاقی شرعی عدالت کا یہ حکم کہ حکومت کی جانب سے قانونی طور پر کم از کم شادی کی عمر مقرر کرنا غیر اسلامی فعل نہیں ہو گا۔ لہذا، قانون سازوں کو شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے کم عمری میں شادیوں کو روکنے کے لیے موجودہ قوانین میں ترمیم لانے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرنی چاہیے۔

۔ تعزیرات پاکستان کی دفعات 375، 376، 493۔ A، 498۔ B، اور 466

مگر ان قوانین پر صحیح معنوں میں عمل درآمد نہ ہونا جبری تبدیلی مذہب کو روکنے میں ایک اہم رکاوٹ ہے۔ لہٰذا حکومت کو پاکستان میں جبری تبدیلی مذہب، کم عمر/ جبری شادیوں اور جنسی تشدد سے متعلق جرائم کے خلاف اقلیتوں کے تحفظ کے لیے موثر قانونی اور انتظامی تحفظات متعارف کروانا اور ان پر عمل درآمد کرنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments