عالمی سازش اور ہمارے سادہ لوح عوام


زرتاج گل وزیر بی بی کہتی ہیں کہ ’ہم سب لوگ بہت زیادہ خوش نصیب ہیں کہ ہم عمران خان کے دور میں پیدا ہوئے۔ اور خاکسار یہ کہتا ہے کہ ہم تمام پاکستانی بہت زیادہ خوش نصیب ہیں کہ ہم زرتاج گل وزیر بی بی کے دور میں پیدا ہوئے اور ان کے فرمودات سے زمان و مکان کی قید کے بغیر فیضیاب ہو رہے ہیں۔ ورنہ مستقبل میں اس میں سے پتہ نہیں کتنے گوہر نایاب مورخ کی خیانتوں کی نظر ہو جائیں گے اور آنے والی نسلیں ان سے محروم رہ جائیں گی۔

موجودہ وزیراعظم پاکستان اور عالم اسلام کے عظیم رہنما نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے اور ان کی کابینہ کے اراکین بشمول قطب دوراں غزالی زماں المعروف ملتان والی سرکار بھی اب تکرار سے یہی فرما رہے ہیں کہ موجودہ سیاسی گہما گہمی اور تحریک عدم اعتماد کے ہنگام بیرونی دست کرشمہ ساز کارفرما ہے۔ یہاں پر بیرونی ہاتھ سے مراد امریکہ، یورپ انڈیا اور اسرائیل گٹھ جوڑ ہے۔ ان کے مطابق یہ چاروں مل کر اس سازش میں شریک ہیں۔ درویش کی رائے ہے کہ خاکم بدہن اس میں خادم الحرمین الشریفین بھی شریک ہو سکتے ہیں۔

امریکہ یورپ اور سعودی عرب کو تکلیف کیوں نہ ہو اگر مزید کچھ عرصہ ظل الہی کو ریاست پاکستان میں خلافت کرنے کا موقع ملا تو جس قوت اور تواتر کے ساتھ آپ اس عالمی استعمار کے مضبوط قلعوں کے پھاٹک پر دستک دے رہے ہیں یہ تو ان کے بیرونی پھاٹکوں کی چولیں ہلا دیں گے۔ اور پھر جس غیر متزلزل اعتماد سے ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے دست سوال دراز کرتے ہیں وہ بھی صرف کپتان ہی کا خاصہ ہے، یہ تمام ممالک اس کا اظہار کئی مرتبہ کر چکے ہیں کہ حضور والا ایک تو مانگنے کم کم آیا کریں اور دوسرا دستک دینے کا انداز قرض خوروں والا نہ ہو تو کم از کم قرض خواہوں والا تو ہو۔ سامراجی قوتوں کو شاید قوت بازوے مسلم کا اندازہ پہلے تھا ہی نہیں اس لیے سازشوں پر اتر آئے ہیں۔

دیکھیے خدا لگتی کہیں گے، آپ بھی تعصب کے چشموں کو اتار کے معروضات کو دل کے شیشہ میں اتاریے آپ کو یہ معروضات ساون کی پہلی بارش کی بوندوں کی طرح دل میں اترتی محسوس ہوں گی اور ان میں وزن محسوس ہونا شروع ہو جائے گا۔ حاسدین کا سب سے بڑا اعتراض جو خان پہ ہے کہ آمر کے ساتھ ساز باز کر کے اقتدار میں آیا، عوام کے حق حکمرانی پہ ڈاکا ڈالا اور چور دروازے سے اقتدار تک رسائی حاصل کی وغیرہ وغیرہ۔ دیکھیے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس طرح کا اعتراض، کم مطالعہ والے حضرات کی طرف سے ہے ان سے گزارش ہے کہ آپ بین الاقوامی تاریخ کا مطالعہ تو نہیں کر سکیں گے کم از کم اسلامی تاریخ پڑھ کے دیکھ لیں، بنو امیہ، بنو عباس اور اور سلطنت عثمانیہ کیا یہ جمہوری ادوار تھے اگر نہیں تھے تو کیا اس وقت کے علماء اور اہل دانش نے ان کو خلعت جواز عطا نہیں فرمائی تھی۔

جب ان تمام حکمرانوں کو علمائے کرام اور اہل دانش خلعت جواز عطا فرما چکے تو کیا عمران خان کے لیے کوئی گنجائش پیدا نہیں ہو سکتی؟ میں اہل علم و دانش سے دست بستہ عرض کروں گا کہ کوئی گنجائش پیدا کریں؟ اگر زیادہ پیچیدہ مسئلہ معلوم ہو رہا ہے تو جاوید غامدی صاحب کی خدمات لے لیں۔ آپ تمام سابقہ آمریتوں کے لیے بشمول پرویز مشرف کی آمریت، خاصا نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ اور تمام ادوار کو اپنے مخصوص نرم انداز میں خلعت جواز عطا کرچکے ہیں، اس لیے قوی امید ہے کہ موجودہ انتظام کو بارگاہ غامدیت میں شرف قبولیت عطا ہو جائے گا۔ باقی رہی بات خدا کی منشا اور عوام کے حق حکمرانی کی، تو اس کا پہلے کسی نے اہتمام نہیں کیا تو ہم کیوں کریں اور اب کیوں کریں۔ دوسرا یہ سب پڑھے لکھے لوگوں کی بیماریوں کے نام ہیں ان کے بارے میں زیادہ سوچیں تو صحت خراب ہوتی ہے لہذا دوری بنائے رکھیں ’

مدت کے بعد آج فقیروں کے جام میں
اتری ہے کہکشاں تیری آنکھوں کی خیر ہو

دوسرا بے بنیاد اعتراض یہ ہے کہ پونے چار سال میں گورننس صفر ہے، کرپشن میں بے حد اضافہ ہوا ہے، معیشت کا بیڑہ غرق ہے، 25 ہزار ارب کا قرضہ لیا، کہاں گیا کچھ پتا نہیں، پچاس لاکھ گھر ندارد، ایک کروڑ نوکریاں ندارد، آٹا چینی گھی بجلی گیس پیٹرول کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ اور غریبوں کی خودکشیاں وغیرہ۔ دیکھئے ان تمام اعتراضات کا جواب جناب وزیراعظم خود دے چکے ہیں کہ ریاست مدینہ میں بھی شروع شروع میں بہت زیادہ تکلیفیں اٹھانی پڑی تھی پھر جا کر خوشحالی آئی تھی اور ان کے پاس کوئی جادو کا چراغ نہیں ہے تو اس لیے وقت لگے گا۔

اور پھر سب سے اہم بات کہ وزیراعظم صاحب چیزوں کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے نہیں آ ہے۔ تو اس لیے یہ کوئی بڑا کام نہیں ہے، لیکن ان تمام مسائل کا حل خاکسار نے تجویز کیا ہے۔ سب سے پہلے تو 92 کے ورلڈ کپ کے میچز کی جھلکیاں دیکھنے کا معمول بنا لیں صبح شام، کافی افاقہ محسوس ہو گا اور ہاں ٹشو پیپرز کا مناسب انتظام رکھیے گا، کہ فرط جذبات سے آنسو قابو کرنا مشکل ہو جاتا ہے ذاتی تجربات کی روشنی میں عرض کر رہا ہوں۔ دوسرا جب مسائل بہت زیادہ پریشان کریں تو چشم تصور میں خان اور اس کی قا تل مسکراہٹ کو لے آئیں، سا رے غم کافور ہو جائیں گے، یہ مجرب عمل بھی زرتاج بی بی کے فرمودات سے ماخوذ ہے۔

سنبھلنے دے مجھے اے نا امیدی کیا قیامت ہے
کہ دامان خیال یار چھوٹا جائے ہے مجھ سے

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments