بھٹو کا تخت الٹنے والے مرشد اور مرید جرنیل


کتاب ”کیا کیا نہ دیکھا“ مشہور پولیس افسر حاجی حبیب الرحمٰن کے ایک طویل انٹرویو پر مبنی ہے جو ان کے تمام کیریئر کا احاطہ کرتا ہے۔ اس میں درج واقعات جرائم کی دنیا سے لے کر اقلیم سیاست تک بہت سے موضوعات اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ انہی میں سے ایک واقعہ کچھ یوں ہے کہ جب 1977 میں وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی تحریک کا آغاز ہوا تو حاجی صاحب اس وقت آئی جی سندھ تھے۔ تحریک بڑی تیزی سے زور پکڑنے لگی اور دو ماہ کے اندر اس نہج پہ پہنچ گئی کہ بھٹو صاحب کو اپوزیشن سے مذاکرات پر آمادہ ہونا پڑا۔ دوسری طرف اپوزیشن مذاکرات کی میز پر آنے کے لیے بالکل تیار نہ تھی۔ اس پس منظر میں انہوں نے ایک ایسا واقعہ بیان کیا ہے جس کا ذکر اور کہیں نہیں ملتا۔

جب حالات کافی بگڑ گئے تو بھٹو صاحب نے ایک اعلٰی سطحی اجلاس بلایا۔ اجلاس کی تاریخ شاید سترہ مئی تھی۔ اس میں سندھ اور پنجاب کے وزرائے اعلٰی، چیف سیکرٹری اور آئی جی شریک ہوئے اور دوسری طرف تینوں سروسز چیف اور کچھ دوسرے اعلٰی فوجی افسران نے شرکت کی۔ یہ بات پہلے سے طے تھی کہ اس اجلاس میں غور و خوض کے بعد یہ فیصلہ ہو گا کہ تینوں سروسز چیف پی این اے کی قیادت کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کر کے انہیں اس بات کا قائل کریں کہ ان کی تحریک کے نتیجہ میں ملک میں روزمرہ کی زندگی بری طرح متاثر ہو چکی ہے لہٰذا وہ وسیع تر قومی مفاد میں یہ تحریک ختم کر دیں اور مذاکرات ہی کو مسائل کے حل کا ذریعہ بنائیں۔

یہ میٹنگ شام چھ بجے طے تھی۔ بھٹو صاحب بہت حد تک وقت کے پابند تھے لیکن آج وہ وقت پر نہ آئے۔ سب حیران تھے کہ دیر ہونے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے کیونکہ اس سے اہم معاملہ کوئی اور تو ہو نہیں سکتا تھا۔ پھر اچانک دروازہ کھلا اور بھٹو صاحب داخل ہوئے۔ انہوں نے کچھ فائلیں اٹھائی ہوئی تھیں۔ وہ میز پر پھینکیں اور کھڑے کھڑے ہی بولے، حضرات میں نے مستعفی ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ لہٰذا میرے بھائی ضیاءالحق آپ اقتدار سنبھال لیں۔ ظالم لوگ میری بات سننے کو تیار نہیں، اب اس کا یہی حل ہے۔

جب انہوں نے یہ کہا تو ہر کوئی حیرت سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ میرا تو رنگ ہی فق ہو گیا۔ اس موقع پر ضیا الحق اٹھے، انہوں نے دونوں ہاتھ ناف پہ باندھے اور تھوڑا جھک کے بولے۔ سر آپ نے کیا عجیب بات کر دی ہے۔ سر آپ پرائم منسٹر ہیں، آپ قوم کے لیڈر ہیں، آپ فخر ایشیا ہیں، آپ اسلامک کانفرنس کے چیئر مین ہیں۔ تمام اسلامی ملکوں کی آنکھیں آپ پہ لگی ہیں۔ سر میں آپ کے ساتھ ہوں، پاکستان کی فوج آپ کے ساتھ ہے۔ آپ نے یہ کیا بات کر دی۔ یہ کہا اور بیٹھ گئے۔

اس کے بعد جنرل چشتی اٹھے۔ وہ کور کمانڈر پنڈی تھے اور ضیاءالحق سے ان کی کافی بے تکلفی تھی۔ ضیاءالحق انہیں مرشد کہہ کر پکارتے تھے۔ پہلے تو انہوں نے اپنی مونچھوں کو تاؤ دیا جو ان کی عادت تھی۔ پھر بولے سر میں آپ کو اپنی وفاداری کی یقین دہانی کراتا ہوں لیکن اپنی کور کی وفاداری کی یقین دہانی نہیں کرا سکتا۔ وہ اس لیے کہ میرے افسروں اور جوانوں کے ذہنوں میں صحیح یا غلط یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ اب مکمل سناٹا تھا۔

بھری بزم میں راز کی بات کہہ دی
بڑا بے ادب ہوں سزا چاہتا ہوں

اس سے پہلے کی کوئی اور بات ہوتی باہر سے بھٹو صاحب کے لیے ایک چٹ آئی انہوں نے اسے پڑھا اور وہ باہر چلے گئے۔

بھٹو صاحب تو اٹھ کر چلے گئے لیکن پیچھے اس قدر سناٹا چھوڑ گئے کہ بیان کرنا مشکل ہے۔ معاملہ ہی ایسا تھا کی آرمی چیف تو وزیر اعظم کو یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ ہم اور ساری فوج آپ کے ساتھ ہے جبکہ کور کمانڈر راولپنڈی نے ایسا سچ اگل دیا کہ کیا آرمی چیف اور کیا باقی لوگ سب ششدر رہ گئے۔ ویسے ایسے فورم پہ ایسا سچ اور ایسے موقع پہ بولنا غضب کے حوصلے کی بات تھی۔

تقریباً پندرہ منٹ بعد بھٹو صاحب آ گئے۔ وہ بہت اچھے موڈ میں تھے۔ آتے ہی خبر سنائی کہ ساتھ کے کمرے میں سعودی سفیر ریاض الخطیب بیٹھے ہیں۔ وہ بعد میں عشائیہ میں بھی ہمارے ساتھ ہوں گے۔ وہ یہ خبر لائے ہیں کہ ان کی کوششوں سے آخرکار پی این اے مذاکرات کے لیے تیار ہو گئی ہے اور اس میں سردار عبدالقیوم نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس طرح اس اجلاس کا اختتام ہو گیا۔

آئی جی صاحب نے آگے چل کے بیان کیا کہ مجھے ایک دفعہ جنرل چشتی نے بتایا کہ جب پانچ جولائی کو بھٹو صاحب کی حکومت کو ختم کرنے کا پلان فائنل ہوا تو چونکہ کور کمانڈر راولپنڈی ہونے کے ناتے بنیادی کام انہوں نے ہی کرنا تھا، ضیاءالحق کافی تذبذب کا شکار تھے۔ مجھے کہا مرشد خیال کرنا ایسا نہ ہو کہ تم بدل جاؤ اور مجھے ہی گرفتار کرا دو۔

یو ٹیوب پے موجود اپنے ایک انٹرویو میں وہ بتاتے ہیں کی جب پانچ جولائی کی رات کو فوج نے کنٹرول سنبھال لیا تو وہ اس وقت ضیاءالحق کے پاس بیٹھے تھے جب انہیں بھٹو صاحب کا فون آیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے کچھ غیرمعمولی نقل و حرکت کی اطلاع ملی ہے۔ ضیاءالحق نے جواب دیا کہ فوج نے ٹیک اوور کر لیا ہے اور آپ اب وزیراعظم نہیں رہے۔ آپ کو ہم گورنمنٹ ہاؤس مری منتقل کر رہے ہیں۔

ع۔ بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments