خفیہ عالمی خط کا راز


یہ فروری کی ایک سرد رات تھی۔ مارگلہ کے پہاڑوں سے آتی برفیلی ہواؤں کی وجہ سے سب لحافوں میں دبکے ہوئے تھے۔ ایسے میں اسلام آباد کے ایک محل میں ایک درویش ہی تھا جو صبح کے چار بجے مصلے پر بیٹھا ذکر خداوندی میں مشغول تھا۔ اچانک اس کے بلیک بیری کی گھنٹی بجی۔ درویش نے حیران ہو کر فون کی طرف دیکھا۔ یہ کال قطعاً غیر متوقع تھی۔ کالر کے نمبر کی جگہ پرائیویٹ لکھا دکھائی دے رہا تھا۔

”ہیلو، کون؟“ اس نے فون اٹھا کر کہا۔
”کیا آپ وزیراعظم پاکستان، جناب عمران خان بات کر رہے ہیں؟“ دوسری طرف سے شستہ اردو میں آواز سنائی دی۔
”جی۔ میں خدائے لاشریک کا عاجز بندہ عمران خان بات کر رہا ہوں۔ آپ کون بات کر رہے ہیں؟“
”میں ولادیمیر پوتن ہوں، صدر جمہوریہ روس“ ۔

”واقعی؟ آپ کی درست شین قاف اور عین غین والی اردو سے تو لگ رہا ہے کہ آپ مولانا فضل الرحمان بات کر رہے ہیں۔ میں کیسے یقین کروں کہ آپ ولادیمیر پوتن ہیں؟“ کپتان نے کہا۔

”کیا آپ کا یہ نمبر مولانا یا کسی دوسرے شخص کے پاس ہے؟“

”نہیں۔ یہ نمبر نہایت خفیہ ہے۔ صرف میرے پاس ہے۔ اسے خفیہ رکھنے کے لیے میں نے اس کی سم بھی اپنے کتے شیرو کے نام پر نکلوائی ہے۔ یہ آج تک میں نے کسی کو نہیں دیا“ ۔ کپتان نے کہا۔

”بس اسی بات سے اندازہ کر لیں کہ یہ نمبر آپ کے سوا صرف میرے پاس ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کہ میں دنیا کی نمبر ون انٹیلی جنس کا ایک اعلٰی افسر بھی رہا ہوں اور میں دنیا کی تین سو پچھتر زبانیں اہل زبان کی طرح بولنے کی صلاحیت رکھتا ہوں“ ۔

”واہ۔ یعنی آپ آئی ایس آئی کے لیے کام کرتے رہیں ہیں؟ مجھے حیرت نہیں ہوئی۔ سب اس کے لیے کام کرتے ہیں۔“ کپتان نے کہا۔

دوسری طرف کچھ دیر خاموشی چھائی رہی۔ پھر ایک سرد آواز سنائی دی ”میرا اشارہ کے جی بی کی طرف تھا، جو سوویت یونین کے زمانے میں دنیا کی نمبر ون سپائی ایجنسی تھی“ ۔

”اوہ ہاں۔ سنا ہے ہماری آئی ایس آئی نے کے جی بی کو تگنی کا ناچ نچا دیا تھا اور پھر سوویت یونین کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔ بہرحال آپ بتائیں کہ کیسے فون کیا؟ میں اس وقت وظیفے پڑھنے میں مصروف ہوں“ کپتان نے کہا۔

”بات یہ ہے کہ اب بھی بالحاظ عہدہ میں جمہوریہ روس کی مسلح افواج اور کے جی بی کی جانشین فیڈرل سیکیورٹی سروس کا سربراہ ہوں۔ ہمیں ایک اہم اطلاع ملی ہے جس سے آپ کا فوراً آگاہ ہونا ضروری ہے۔ یہ نہ صرف آپ کے ملک بلکہ آپ کی ذات کے خلاف بھی بڑی بھیانک سازش ہے۔ ہمارے جاسوسوں نے جان پر کھیل کر یہ خبر حاصل کی ہے“ ۔

”کیا آج صبح مجھے ناشتے میں آملیٹ کی بجائے ٹینڈوں کا پتلا شوربہ ملے گا؟“ کپتان نے ہراساں ہو کر پوچھا۔

”نہیں، ناشتے میں تو آپ کو حسب معمول چھے دیسی انڈے، میٹھی لسی کا جگ، بھنے ہوئے دیسی مرغ کی چار ٹانگیں اور بعد ازاں کھیر کا ڈونگا ہی ملے گا۔ بات اس سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ وہ فون پر نہیں بتائی جا سکتی۔ ان دنوں یوکرین خود پر روس سے حملہ کروانے کی منصوبہ بندی کرنے میں مشغول ہے، اس لیے جنگی حالات کے باعث میرا آنا مشکل ہے۔ ورنہ میں خبر دینے خود آپ کی طرف چکر لگا دیتا۔ آپ پہلی فرصت میں ماسکو پہنچیں۔ آپ کا جہاز اس وقت نور خان بیس پر موجود ہے۔ مکینکوں نے اس کی ٹیوننگ اور تیل بدلی کر دی ہے۔ پٹرول بھی پورا ڈال چکے ہیں۔ اس کا سٹاف پیٹ بھر کر ناشتہ کر چکا ہے اور اس وقت نیند پوری کر رہا ہے۔ آپ کے حکم پر وہ فوراً اڑان بھر لے گا۔ یہ بہت اہم معاملہ ہے، دیر مت کریں۔“ پوتن نے کہا۔

”لیکن یوکرین سے جنگ چھڑنے والی ہے تو کہیں میری آمد سے یہ مطلب نہ لیا جائے کہ میں آپ کی حمایت کر رہا ہوں۔“ کپتان بولا

”دیکھیں ہمارے عوام کے مورال کے لیے یہ اہم ہے کہ جس وقت جنگ چھڑے تو آپ نہ صرف یہاں موجود ہوں بلکہ میرے ساتھ تصویر بھی اتروائیں تاکہ لوگ جان سکیں کہ خدا کے برگزیدہ بندوں کی دعاؤں کے سائے میں ہماری افواج اپنا دفاع کرنے یوکرین میں داخل ہو رہی ہیں۔“ پوتن نے جواب دیا۔

پہلے تو کپتان ہچکچا رہا تھا مگر جب اسے روحانی اشارہ ملا تو وہ سہ پہر کے وقت روس کی طرف عازم سفر ہوا۔ 23 فروری کو وہ رات گئے روس پہنچا۔ پوتن نے اس کا استقبال روایتی طور پر 21 توپوں کی سلامی سے نہیں کیا بلکہ یوکرین کے محاذ پر موجود تمام توپوں کو سلامی دینے کا حکم جاری کیا تاکہ دنیا کو خبر ہو جائے کہ روس کے نزدیک کپتان کی کتنی زیادہ اہمیت ہے۔ اور یہ توپیں 24 فروری کے بعد بھی سلامی دیتی رہیں بلکہ ساتھ ساتھ ٹینک اور میزائل بھی سلامی کی رسم ادا کرنے لگے اور اب تک سلامی دے رہے ہیں۔

کپتان کے ساتھ ولادیمیر پوتن نے کریملن کے ایک تہہ خانے میں تنہائی میں ملاقات کی۔

ابتدائی سلام دعا کے بعد پوتن گویا ہوا: ”میرے کپتان۔ ہماری خوش قسمتی پر اب کسی کو شبہ نہیں کہ آپ کی آمد کے ساتھ ہی یہ جنگ شروع ہوئی ہے جو جارح یوکرین کی جانب سے ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ بہرحال وہ ایک غیر اہم معاملہ ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے واشنگٹن میں موجود جاسوسوں نے اطلاع دی ہے کہ امریکی اور یورپی طاقتوں کو ہندوستان اور اسرائیل کی مدد سے یہ علم ہو گیا ہے کہ آپ کے عہدے کی مدت اگلے برس ختم ہونے والی ہے۔ اور مدت ختم ہونے تک آپ پاکستان کو ایک معاشی اور فوجی سپر پاور بنا چکے ہوں گے۔ وہ اس خیال سے ہی لرزاں و ترساں ہیں کہ پھر ان کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ کیا آپ محض جزیے کی ادائیگی پر مفاہمت کر لیں گے یا جنگ کر کے امریکہ اور یورپ کو پاکستان کا حصہ بنا لیں گے۔ انہوں نے اپنے مطالبات پیش کیے مگر آپ کے ایبسلوٹلی ناٹ کہنے کے بعد انہوں نے شدید گھبراہٹ کی حالت میں یہ فیصلہ کیا ہے کہ کسی بھی قیمت پر آپ کو عہدے سے ہٹا دیا جائے تاکہ ان کی جان بچ سکے اور آزادی بھی قائم رہے۔ ان کی تیاریاں پوری ہیں۔ انہوں نے اپنے جاسوسوں اور ایجنٹوں کو ایک خط لکھ دیا ہے جو دس مارچ کو وہ سپرد ڈاک کریں گے۔ اس خط میں اپنے کارندوں کو انہوں نے حکم دیا ہے کہ نہ صرف آپ کے اتحادیوں کو توڑ دیا جائے بلکہ آپ کی اپنی جماعت کے بھی ٹکڑے ٹکڑے کر کے منحرف غداروں کی مدد سے ویسے ہی آپ کو شکست دی جائے جیسے تین سو سال پہلے انہوں نے اسلام کے بطل حریت ٹیپو سلطان کو دی تھی“ ۔ ٹیپو سلطان کا نام لیتے ہوئے پوتن کی آواز بھرا گئی اور اس کی آنکھوں میں نمی تیرنے لگی۔

پانی کا ایک گلاس پی کر اس کی طبیعت سنبھلی تو وہ بولا ”آپ کی اہمیت تو ٹیپو سلطان سے بھی زیادہ ہے۔ وہ محض جنوبی ہندوستان کو برطانیہ سے بچانا چاہتا تھا۔ آپ کی قسمت میں تو امریکہ اور یورپ فتح کرنے کے بعد عالم اسلام کی قیادت ہے۔ انہوں نے آپ کی آستین میں سانپ پال رکھے ہیں۔ بس اب آپ یہاں کریملن سے سیدھے ائرپورٹ پہنچیں اور جلد از جلد اس سازش کا توڑ کریں۔ یہ اس خط کی فوٹو کاپی ہے جسے ہمارے جاسوسوں نے جان پر کھیل کر اور درجنوں عزتوں کی قربانی دینے کے بعد حاصل کیا ہے۔“

پوتن نے خط کو لفافے میں رکھا، اسے تھوک لگا کر اچھی طرح بند کیا، اس پر ٹاپ سیکرٹ اینڈ موسٹ ارجنٹ لکھا اور کپتان کو تھما دیا۔ کپتان نے اس خط کو اپنے کوٹ کی اندرونی جیب میں رکھا اور تیزی سے واپسی کے لیے مڑا۔

”ٹھہریں میرے کپتان“ ۔ پوتن نے پیچھے سے آواز دی۔
”وقت کم ہے اور خطرہ گمبھیر۔ اب کیا بات ہے؟“ کپتان نے مڑتے ہوئے کہا۔
”آپ نے درویشانہ لباس زیب تن کر رکھا ہے۔ آپ کی قمیض میں تین سوراخ ہیں“ پوتن نے ستائشی انداز میں کہا۔
”تو پھر؟ یہ تو میرا معمول ہے“ کپتان بولا۔

”آپ کے کوٹ کی جیب میں بھی سوراخ ہے جس سے خط نیچے گر گیا تھا۔ یہ لیں۔“ پوتن نے فرش پر پڑا خط اٹھا کر کپتان کو تھمایا۔

کپتان نے اس مرتبہ خط کو اپنی شلوار کی زپ والی جیب میں محفوظ کیا اور تیز قدموں سے باہر بڑھا۔ سالم جہاز کروا کر وہ اسلام آباد اترا اور فوراً اپنی کابینہ کی میٹنگ کال کی۔ پانچ درجن وزیر اور مشیر میٹنگ روم میں جمع ہو گئے تو کپتان بولا ”ہماری حکومت کے خلاف بہت بھیانک عالمی سازش ہو رہی ہے۔ ہمیں ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مجھے یہ بھی اطلاع ملی ہے کہ میرے ارد گرد ایسے لوگ موجود ہیں جیسے ٹیپو سلطان کے ارد گرد تھے“ ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments