معذور افراد کو ہسپتالوں میں درپیش مسائل


جسمانی معذوری کی تین بنیادی اقسام ہیں۔ پہلی پیدائشی ہے جو مریض کو وراثت میں ملتی ہے۔ موروثی بیماریاں خاموش قاتل کی طرح ایک نسل سے دوسری میں منتقل ہوتی رہتی ہیں اور دنیا میں آنے والے مہمانوں کو ہمیشہ کے لئے ان کے ساتھ جینے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ ایک انٹرویو کے دوران خاتون نے ہمیں بتایا کہ ان کے بچے کو مسکولر ڈسٹرافی چوتھی نسل سے منتقل ہوئی ہے۔ جسمانی معذوری کی دوسری اہم وجہ حادثات اور بیماریاں ہیں جو انسان کو زندگی کے کسی بھی حصے میں اپاہج بنا دیتی ہیں۔ تیسری وجہ عمر ہے۔ عمر کے ساتھ ساتھ انسان کے جسمانی اعضاء کمزور ہوتے چلے جاتے ہیں۔ جن کے نتیجے میں انسان معاملات زندگی خود سے سر انجام نہ دے پائے تو ایسی جسمانی حالت بھی معذوری ہی کہلاتی ہے۔

ہمارے پیارے جب بیمار ہو جاتے ہیں۔ انھیں دکھانے کے لئے ہسپتال کا رجوع کیا جاتا ہے تو مریض کو طرح طرح کے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب مریض کو علاج کے لئے گھر سے باہر نکالا جاتا ہے تو سب سے پہلے ناقابل رسائی ٹرانسپورٹ سے واسطہ پڑتا ہے۔ ہمارے ملک میں ایسی سواری کا کانسیپٹ ہی نہیں جس میں مریض باآسانی منتقل ہو سکے اور جس میں اس کی ویل چیئر کو لے جانے کا مناسب انتظام ہو۔

پہلی مشکل کو پار کرنے کے بعد جب مریض ہسپتال پہنچتا ہے تو پتہ چلتا ہے کہ ہسپتال میں ریمپ ہی نہیں ہے۔ پھر تین چار لوگوں سے مدد مانگ کر مریض کو ہسپتال کے اندر لے جایا جاتا ہے۔

جب مریض ڈاکٹر کے دربار میں حاضر ہوتا ہے تو اسے عجیب و غریب مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر حضرات ویل چیئر پر بیٹھے شخص کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں دیکھتے۔ ڈاکٹرز نے اپنے ذہن میں ویل چیئر پر بیٹھے مریضوں کی درجہ بندی کی ہوتی ہے۔ مریض خستہ حال ہو تو ڈاکٹر بات سننے سے پہلے ہی دوائی لکھ کر پرچی تھما دیتا ہے۔ مریض درمیانی درجے کا امیر ہو تو اس کی بات پر تھوڑی توجہ دی جاتی ہے۔ اور اگر مریض امیر ہو تو اسے علاج کے ساتھ جدید تکنیکوں کے بارے میں بھی بتایا جاتا ہے۔

پچھلے سال کندھے کے درد کے لئے راولپنڈی کے اے۔ ایف۔ آئی۔ آر۔ ایم جانے کا اتفاق ہوا۔ گیٹ پر روک لیا کہا گیا کہ ٹیکسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ بڑے انتظار کے بعد کہا گیا کہ پہلی بار آ رہے ہیں اس لیے جانے دے رہے ہیں۔ کرنل صاحبہ آئیں مجھے دیکھتے ہی سمجھ گئیں کہ درمیانی درجے کا ہے۔ دوائیاں لکھیں اور فزیوتھراپی والوں کے پاس بھیج دیا۔ فزیوتھراپی دو ہفتے کرنا تھی۔ باہر نکلتے ہی یاد آیا کہ میں نے تو ٹیکسی پر آنا ہے۔

کرنل صاحبہ کے پاس جانے لگا تو ان کے پی۔ اے نے روک لیا۔ کہنے لگا کہ ایڈمن کے بریگیڈیئر صاحب سے بات کریں۔ پھر بریگیڈیئر صاحب اور کرنل صاحب کے پی۔ اے حضرات نے میرا مذاق اڑانا شروع کر دیا۔ ایک کہنے لگا کہ گاڑی خرید لو، دوسرا کہنے لگا کہ روڈ سے خود ہی آ جایا کرو۔ پھر کہنے لگے کہ صاحب نو بجے فارغ ہوں گے تین گھنٹے انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے فزیوتھراپی کا ارادہ ترک کیا اور گھر آ گیا۔

ڈاکٹر مریض کو کسی بھی قسم کا ٹیسٹ لکھ دے تو مریض کے لئے ایک نئی مصیبت کھڑی ہو جاتی ہے۔ مریض کے ساتھ جوان مرد ہو تب تو وہ کسی نہ کسی طرح ٹیسٹ کروا لے گا اور اگر مریض خاتون کے ساتھ آیا ہے تو یہ ٹیسٹ اس کے لیے عذاب بن جائے گا۔ فرض کریں مریض کو پیشاب کا ٹیسٹ کروانا ہے۔ تو پہلا مسئلہ یہ ہو گا کہ باتھ روم کا دروازہ اتنا بڑا نہیں ہوتا کہ ویل چیئر اندر جا سکے۔ ویل چیئر اندر چلی بھی گئی تو کموڈ قابل رسائی نہیں ملے گا جس کی وجہ سے مریض کو اس پر شفٹ ہونے اور کپڑے اتارنے کے لئے کسی کے ساتھ کی ضرورت ہوگی۔ مریض کوئی خاتون یا جوان لڑکی ہو تو اس کے لیے یہ سارا عمل کتنا دشوار ہو گا۔

فرض کریں کہ مریض نے الٹراساؤنڈ، ای۔ سی۔ جی، ایکو یا کوئی بھی ایسا ٹیسٹ کروانا ہے جس کے لیے اسے بیڈ پر منتقل ہونا ہے تو آپ کو لیبارٹری میں ایسے بیڈ ملیں گے جن پر سیڑھی چڑھ کر بیٹھا جاتا ہے۔ جو شخص خود سے کھڑا نہیں ہو سکتا وہ سیڑھی کیسے چڑھے گا۔ مریض کو بیڈ پر چڑھا بھی دیا گیا تو بیڈ کی چوڑائی اتنی کم ہوگی کہ مریض کے لئے خود سے کروٹ لینا اور اٹھنا ممکن نہ ہو گا۔ کوشش کرنے میں گرنے کا خطرہ رہے گا۔ سارے عمل میں لیبارٹری کا عملہ بالکل مدد نہیں کرے گا۔ ضد کرنے پر مریض کو باہر نکال دیا جاتا ہے۔

ماہا خان کا تعلق مردان سے ہے۔ اٹھارہ سال کی عمر ایک بیماری کے نتیجے میں ٹانگوں نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ اس وقت ماہا کالج کی طالبہ تھیں۔ ویل چیئر پر بیٹھ جانے کے بعد ماہا کے لئے مزید تعلیم کا حصول ممکن نہ تھا۔ چند روز قبل ماہا کے سوشل میڈیا پر ایک سٹیٹس اپ ڈیٹ ہوا جو کچھ اس طرح تھا

”سلام دوستو آپ کو ایک بات بتانا چاہتی ہو۔ چند دنوں سے میرے پاؤں اور مثانے میں شدید درد تھا۔ الٹرا ساؤنڈ کے لئے ڈاکٹر نرگس عظمت کے پاس گئی۔ بیڈ بہت اونچا تھا میرے لیے اس پر شفٹ ہونا نا ممکن تھا۔ امی اور بہن نے کہا ہم اسے اٹھا کر بیڈ پر شفٹ کر دیتے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر نہ مانی اور انھوں نے الٹرا ساؤنڈ کرنے سے انکار کر دیا۔ پھر مجھے ڈاکٹر طارق انور کے پاس لے جایا گیا جہاں میرا الٹراساؤنڈ ہوا۔ مجھے بہت دکھ ہے کہ ہمارے ملک میں ڈاکٹرز بھی ہم معذور افراد کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ آخر کب تک ہم معذور افراد ان رویوں کا سامنا کرنا پڑے گا؟“

ڈاکٹرز کی لاپروائی اور صحت کی نامناسب سہولیات کی وجہ سے زیادہ تر جسمانی معذور افراد چالیس سال تک پہنچنے سے پہلے ہی وفات پا جاتے ہیں۔ حادثات اور بیماریوں کے نتیجے میں معذور ہونے والے افراد کے مسائل ہم سے بھی کہیں زیادہ ہیں کیونکہ ان کے لیے سب کچھ نیا ہوتا ہے۔

ہمارا صحت کا نظام معذور افراد کے مسائل کے حوالے سے مکمل طور پر ناکام ہے اور مسائل ایک دم سے حل ہونے والے بھی نہیں ہیں۔ لکھنے کا مقصد ان مسائل کے حوالے سے آگہی عام کرنا ہے۔ کیونکہ آگہی سے سوالات جنم لیتے ہیں۔ سوالات ہی ہمیں مسائل کے حل کی طرف لے جاتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments