افغانستان : امن کی فضا میں بیان کی آزادی دم توڑ رہی ہے


1994 میں طالبان نمودار ہوئے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ وہ فتوحات حاصل کر رہے تھے۔ ان فتوحات کے خبریں میں اپنے مرحوم والد محترم کے بغل میں بیٹھ کر رات کے آٹھ بجے بی بی سی اردو کے پروگرام سیربین اور بی بی سی پشتو کے رات نو بجے کے پروگرام میں سن لیتا تھا۔

والد محترم کی خوشی اس وقت دیدنی ہوتی تھی جب سینیئر صحافی مرحوم رحیم اللہ یوسفزئی افغانستان میں طالبان کی پیش قدمی کی خبر دیتے۔ والد بھی ان بے شمار لوگوں میں شامل تھے جو افغانستان میں ہونے تبدیلی کو ایک اسلامی انقلاب سے تشبیہ دیتے تھے۔ اس وقت افغانستان کے بارے میں ایک طبقے کی رائے بنانے والا رحیم اللہ یوسفزئی ہی تھا۔ اور رحیم اللہ یوسفزئی ہی تھا جو طالبان کا موقف دنیا کے سامنے لے کر آتا تھا۔

چونکہ خبر کی ذرائع اس وقت افغانستان میں محدود تھے۔ افغانستان میں ریڈیو ہی واحد ذریعہ تھا۔ ریڈیو سے افغانستان کی خبر پشاور سے ہو کر لندن تک پہنچتی اور لندن سے وہ خبر افغانستان میں لوگوں کی سماعتوں تک پہنچتی تھی۔ پانچ سال کے بعد طالبان کی حکومت چلی گئی افغانستان میں میڈیا پھلنے پھولنے لگا۔ سینکڑوں ٹی وی چینلز قائم ہوئے۔ اخبارات کا اجرا ہوا۔ پھر سوشل میڈیا کا دور آیا۔ نوجوانوں نے افغانستان کے حالات پر تبصرے شروع کیے ۔

میڈیا لٹریسی بڑھنے لگی۔ وقت کے ساتھ افغانستان کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی رائے تبدیل ہو گئی۔ وہ بی بی سی کے طالبان کے پہلے دور اور جمہوری دور میں کردار کو مشکوک دیکھنے لگے۔ وہ اپنے بحثوں میں رحیم اللہ یوسفزئی کو طالبان کے پہلے دور کا ترجمان اور بی بی سی کو طالبان کے بارے میں مثبت رائے قائم کرنے کا ذمہ دار قرار دینے لگے۔

لیکن 15 اگست کے اشرف غنی کے حکومت کے سقوط کے بعد طالبان جب اقدار میں آئے تو افغانستان میں جمہوری دور میں پھلنے پھولنے والی میڈیا پر قدغنیں پھر سے لگنی شروع ہو گئیں۔ لیکن اب کے بار ٹی وی سیٹس تو نہیں توڑے گئے، لیکن آوازوں کو دبانے کے لئے صحافیوں کو گرفتار اور انہیں زد و کوب کیے جاننے لگے۔

بیان کی آزادی دم توڑنے لگی۔ بی بی سی، وائس اف امریکا اور دیگر عالمی خبر رساں اداروں نے اپنے صحافیوں کو افغانستان سے نکال دیا۔ اس کے ساتھ افغان میڈیا کے صحافیوں نے بڑی تعداد میں بیان کی آزادی اور زندگی کا تحفظ نہ ہونے کی باعث ملک چھوڑ دیا۔ اس سلسلے میں اب تک آخری صحافی جس نے افغانستان چھوڑا وہ مشہور ٹی وی چینل طلوع کے اینکرپرسن سعید شنواری ہیں۔ جنہوں نے ملک چھوڑنے کے بعد اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر ملک چھوڑنے کے بابت لکھا۔ ”مجھے ٹی وی چینل کے مالک نہ کہا کہ میں آپ کو مرا ہوا نہیں دیکھنا چاہتا، تو لہذا آپ ملک چھوڑ دیں“

بات یہی تک محدود نہیں طالبان کے آنے کے بعد اب تک افغان میڈیا تنظمیوں اے ایف جی سی اور افغانستان کے آزاد صحافیوں کے تنظیم کے رپورٹ کے مطابق 578 صحافتی ادارے بند ہوچکے ہیں۔ جن میں ٹی وی چینلز۔ اخبارات، ایم ریڈیو اور ویب سائٹس شامل ہیں۔ جبکہ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے رپورٹ کے مطابق اب تک 200 کے قریب میڈیا اولیٹس بند ہوچکے ہیں۔ 12 صحافی قتل ہوئے اور 240 پر حملے ہوئے ہیں۔

یاد رہے حال ہی میں طالبان نے کوئی وجہ بتائے بغیر بی بی سی پشتو، دری، اور ازبکی کے نشریات افغان ٹی وی چینلز پر نشر ہونے پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس کے ساتھ جرمنی اور وائس آف امریکا کا بھی افغانستان میں نشریات پر پابندی عائد کردی گئی۔ قندھار میں تین ایف ایم ریڈیوز کو بند کر دیا گیا اور ان میں کام کرنے والے چھ کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

نجیب پاسون افغانستان کے شمال میں بی بی سی پشتو کا نمائندہ تھا۔ وہ بھی ان صحافیوں میں شامل ہے جنہوں نے تحفظ کی ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے ملک چھوڑ دیا۔ انہوں ملک چھوڑنے کی بابت بات کرتے ہوئے کہا ”جب میں نے افغانستان چھوڑا تو میرا سب کچھ وہیں پر رہ گیا۔ جب سے نیا نظام آیا ہے تمام چیزیں ختم ہو گئیں۔“ صحافیوں کے ملک چھوڑنے کی وجہ انہوں نے بتاتے ہوئے کہا کہ سینسرشپ، صحافیوں کے کام میں مداخلت، واقعات کی غیر جانبدار رپورٹنگ پر دھمکیاں دینا، صحافیوں کو اغوا کرنے، ٹارگٹ کلنگ اور جان کا تحفظ کا نہ ہونا ایک اہم دلیل ہے جس کی وجہ سے صحافی ملک چھوڑنے پر اور دیگر ممالک میں کیمپوں میں رہنے پر مجبور ہیں ”۔ نجیب پاسون نے ایف جی سی کے رپورٹ کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ“ 15 اگست سے اب تک صحافیوں پر تشدد میں گزشتہ بیس سالہ جمہوری دور کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے اور ان کی تعداد ہے ”۔

یاد رہے خواتین صحافیوں کے لئے افغانستان کے موجودہ دور میں کام کرنا بے حد مشکل ہے تو اس لیے بڑی تعداد میں وہ بھی افغانستان چھوڑنے پر مجبور ہو گئی ہیں جو کہ افغانستان میں آزاد صحافت کے لئے کسی المیے سے کم نہیں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments