انسانی فزیالوجی، بیماری اور روزہ: طبی رائے مفتی سے لیں یا ڈاکٹر سے؟


رمضان المبارک کی آمد آمد ہے روزوں کے فیوض و برکات اور روحانی ثمرات اپنی جگہ جن سے آگہی کے لئے متعدد ٹی وی چینل پر صبح شام خصوصی نشریات سے استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ ہم یہاں طبی نکتۂ نظر سے جسم انسانی پر روزے کے اثرات کا اجمالی جائزہ پیش کریں گے۔ یہ ضرورت ہمیں اس لئے محسوس ہوئی کیونکہ ان نشریات میں طبی مسائل کے لئے عامل، جیوتشی اور مفتیان کرام کے علاوہ چار سو سال پرانے، متروک شدہ طب یونانی کے ان حکیموں کو زحمت دی جاتی ہے جو انہی پروگراموں میں کھانا پکاتے اور انار دانہ، دار چینی اور چھوٹی الائچی کے گرم یا سرد ہونے پر سیر حاصل گفتگو کرتے زیادہ جچتے ہیں۔ گو مصالحوں اور غذائی اجناس پر بھی ان کی رائے بہت زیادہ سائنسی نہیں ہوتی۔

دوسرے نمبر پر ایک نئی کھیپ ان ایم بی بی ایس پاس افراد کی آ رہی ہے جو عوام میں بڑھائی گئی جہالت اور ضعیف العقیدگی کے باعث ڈیمانڈ کو دیکھتے ہوئے ’روحانی طب‘ کے نام سے ایک نئی پروڈکٹ بازار میں لے آئے ہیں جس کے موجد، محقق اور سیلز پرسن ایک ہی ذات ہمہ صفات میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ اس نئے ’طب‘ کے ’ماہر‘ ٹیلی فون پر مسئلہ سنتے اور فوراً سائل اور والدہ کا نام پوچھتے ہیں پھر اپنی طبیبانہ وضاحت پیش کرنے کے ساتھ ایک وظیفہ تجویز کر کے اسے اکتیس، اکتالیس یا اکاون دن تک پڑھنے کی تلقین کرتے ہیں۔ عطائیت کی اس قسم کی طرف توجہ دینا پی ایم اے جیسی تنظیموں کی ذمہ داری ہے جبکہ اس کی روک تھام کرنا پاکستان میڈیکل کونسل کے دائرۂ اختیار میں آتا ہے۔

پانی کے بغیر زندگی کا وجود ممکن نہیں۔ ایک صحت مند بالغ مرد کے جسم کا کوئی 60 ٪ پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ ہمیں روزانہ ڈھائی سے تین لٹر پانی درکار ہوتا ہے۔ جبکہ جسم سے پیشاب، پسینے، سانس میں اور جلد سے بخارات بن کر اڑتے ہوئے پانی کا اخراج ہوتا رہتا ہے۔ موسم اگر گرم ہو تو پسینے اور جلدی بخارات میں اخراج بڑھ جاتا ہے۔ مرطوب ماحول میں اس پانی کے اخراج میں اور بھی تیزی آجاتی ہے۔ ایک گھنٹے میں کئی کئی لیٹر پانی بھی ضائع ہو سکتا ہے۔

جیسے ہی پانی کی کمی واقع ہوتی ہے ایک خودکار نظام کے سبب ہمیں پیاس لگنے لگتی ہے اگر ہم پانی پینے میں توقف کریں تو گردے جن کا کام بدن میں پیدا ہونے والے زہریلے مادوں کا اخراج ہے خود بہ خود پیشاب کی پیداوار پہلے کم اور پھر بالکل بند بھی کر دیتے ہیں۔ جبھی ہم دیکھتے ہیں کہ کافی دیر پیاسے رہنے سے پیشاب دیر سے آتا ہے اور اس کا رنگ بھی زیادہ پیلا ہوتا ہے۔ جیسے جیسے جسم میں پانی کی کمی ہوتی ہے۔ جسمانی نمکیات بھی اتار چڑھاؤ سے گزرتے ہیں۔

محض 5 فیصد پانی کم ہونے ( ڈی ہائیڈریشن) سے علامات شروع ہوجاتی ہیں اور جوں جوں ڈی ہائیڈریشن بڑھتی جاتی ہے یہ شدید ہوتی جاتی ہیں مثلاً دھڑکنیں تیز ہوجانا، بلڈ پریشر لو ہوجانا، سر چکرانا، ٹھنڈے پسینے آنا، جسم ٹوٹنا، پٹھے اکڑنا، پیٹ میں درد، قے، اسہال، غشی حتیٰ کہ موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔ بچوں کے بدن کا کوئی ستر فیصد جبکہ خواتین اور بزرگ افراد کا 50 سے 55 فیصد پانی پر مشتمل ہوتا ہے۔ پانی کی کمی سے انسان کو موت کے منہ میں جانے میں کتنی دیر لگتی ہے اس کا اندازہ چند سال قبل رمضان ہی کے مہینے میں کراچی میں ہزار سے زائد افراد کی المناک ہلاکتوں سے لگایا جاسکتا ہے جن کی اکثریت جوان اور صحت مند تھی۔ اور جو محض چند گھنٹوں میں راہیٔ ملک عدم ہوئے تھے۔

سحری میں بہت سا پانی اور دیگر مشروبات کے استعمال اور دھوپ اور جسمانی مشقت سے گریز کرنے سے جسمانی پانی کے اخراج سے ہونے والی علامات سے بچا جاسکتا ہے۔ ظاہر ہے مڈل کلاس اور محنت کش طبقات کے خواتین و حضرات اس ہدایت پر عمل نہیں کر سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ مسلم ممالک میں اوقات کار کم کر دئے جاتے ہیں جبکہ اکثر کاروبار زندگی دن کے بجائے رات میں منتقل کر دیا جاتا ہے۔

وہ تمام احباب جو بلڈ پریشر اور ہارٹ اٹیک سے متعلق ادویات لیتے ہیں۔ انہیں سخت گرمی میں طویل روزہ رکھنے کا مشورہ نہیں دیا جاسکتا کیونکہ ان کے جسم کا خودکار نظام اس طرح کام نہیں کرتا جیسے اوپر بیان کیا گیا ہے۔ بالخصوص اگر وہ پیشاب آور دوائیں مثلاً لیسکس یعنی فروسیمائیڈ بھی لیتے ہیں۔ جب گردوں کی کارکردگی نارمل نہ ہو تو پانی کی قلت مکمل ناکامی یعنی رینل فیلیئر بھی کر سکتی ہے جس کے نتیجے میں تا عمر ڈائلیسز یا گردے کی پیوند کاری (کڈنی ٹرانسپلانٹ) کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

شوگر کے تمام مریض خاص طور پر جو انسولین کے انجکشن لگاتے ہیں روزہ ان کے حق میں ہلاکت خیز ثابت ہو سکتا ہے۔ یاد رہے کہ سحر و افطار میں جس طرح کی غذائیں ہمارے کلچر کا حصہ ہیں وہ صحت مند آدمی کے نظام میٹابولزم کو درہم برہم کر دیتے ہیں۔ معمولات زندگی تبدیل ہوتے ہیں، نیند پوری نہیں ہوتی۔ سٹریس سے جسم میں خارج ہونے والا ہارمون کارٹیسول ایک دم شوگر لیول بڑھا بھی دیتا ہے۔ وہ تمام دوست جو جوڑوں کے درد یا دمہ کے لئے سٹیرائیڈز مثلاً پریڈ نیسیلون یا ڈیکسا میتھازون لیتے ہیں ان کے جسم میں پانی اور نمکیات کا توازن بگڑا ہوا ہوتا ہے جو مزید بوجھ نہیں سہ سکتا۔

جس طرح انفیکشن میں شروع کی گئی اینٹی بایوٹکس کو متعین اوقات میں باقاعدگی سے لینا چاہیے اسی طرح وہ تمام افراد جو مرگی کے مرض میں مبتلا ہیں یا نفسیاتی امراض کے لئے زیرعلاج ہیں انہیں ان ادویات کی خوراک اور اوقات میں خود ہرگز ہرگز ترمیم نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اصل مرض شدت سے عود کر سکتا ہے۔ جان کے لالے بھی پڑ سکتے ہیں۔

دمہ کے روگ میں مبتلا جو افراد انہیلر لیتے ہیں ان کو وہ ہر وقت اپنے ساتھ رکھنا چاہیے بوقت ضرورت اس کے استعمال سے گریز ہلاکت خیز ہو سکتی ہے۔ جبکہ معدے کے السر کی ادویات کا تسلسل بھی انتہائی ضروری ہے۔ کیونکہ سحر و افطار کی بد خوراکی اور پھر کئی گھنٹے خالی پیٹ معدے میں سوراخ پر منتج ہو سکتا ہے۔

ڈی ہائیڈریشن سے جن امراض کا شدید دورہ پڑ سکتا ہے ان میں گٹھیا (گاؤٹ) ، سکل سیل انیمیا اور پورفائریا شامل ہیں جبکہ حاملہ عورت کے روزے کا اثر اس کے ساتھ اس کے ہونے والے بچے پر بھی پڑتا ہے اور ناکافی نمو (گروتھ ریٹارڈیشن) ، قبل از وقت یا مردہ بچے کی ولادت خارج از امکان نہیں۔ کم سن اور عمر رسیدہ افراد کا جسمانی نظام بھی روزے کو آسانی سے برداشت نہیں کر سکتا اس لئے انہیں تمام احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

یاد رکھئے کہ آپ کی صحت اور زندگی سب سے زیادہ اہم ہے اور اس سے بہت ساری زندگیاں جڑی ہوئی ہیں۔ اگر آپ کو کوئی طبی مشورہ درکار ہے تو مفتی صاحبان کو تکلیف دینے کے بجائے کسی مستند اور سپیشلسٹ ڈاکٹر سے رجوع کرنا زیادہ عقل مندی ہوگی۔

اسی طرح اگر آپ کو شادی سے پہلے یا بعد کوئی آوازیں سنائی دے رہی ہیں، سائے دکھ رہے ہیں یا خوابوں میں مقدس شخصیات سے ملاقات ہوتی ہے تو ٹی وی پر بیٹھے عامل کو ساری دنیا کے سامنے اپنی کتھا سنانے سے بہتر ہو گا کہ کسی ماہر نفسیات سے دو گھڑی مل لیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments