گیم آف تھرونز کھیلنے والے اور گنگو بائی کاٹھیاواڑی


سعادت حسن منٹو نے اپنے دور کے اور خصوصاً بٹوارے کے وقت جو حالات دیکھے اس پر لکھا تھا ”کبھی کبھی میں سوچتا ہوں اپنی آنکھیں بند کر بھی لوں، مگر اپنے ضمیر کا کیا کروں“ ۔

میں یہ سوچ رہا ہوں کہ منٹو اگر آج اس معاشرے میں رہتا اور موجودہ دور کے تخت کے کھیل کے لئے حکمرانوں اور سیاستدانوں کی دلچسپی، محنت اور لگن دیکھتا تو کیا ہوتا؟ وہ کیا لکھتا؟ اس کے افسانوں کے عنوان کیا ہوتے؟

اس وقت کے سماج نے جو کہ آج کے مقابلے میں پھر بھی بہتر تھا، منٹو پر اتنا اثر ڈالا تھا کہ کچھ سالوں بعد وہ ایک نفسیاتی اسپتال میں زیر علاج تھا۔ اگر منٹو اس وقت موجود ہوتا تو شاید پورا پاگل ہو چکا ہوتا۔

تحریک عدم اعتماد صرف ہاتھیوں کی لڑائی ہے جس میں سب سے زیادہ نقصان گھاس کا ہوتا ہے۔ یہ تخت و تاج کی جنگ ہے، یہ اقتدار کی جنگ ہے۔ جو لوگ سمجھ رہے ہیں کہ کسی کے رک جانے سے یا چلے جانے سے پاکستان کے حالات بدل جائے گیں، وہ ایک خواب دیکھ رہے ہیں۔

سعادت حسن منٹو نے پاکستان بننے کے بعد ہی لکھ دیا تھا کہ ”لمبے لمبے جلوس نکال کر، منوں بھاری ہاروں کے نیچے دب کر، چوراہوں پر طویل طویل تقریروں کے کھوکھلے الفاظ بکھیر کر ہماری قوم کے یہ نام نہاد رہنما صرف اپنے لئے راستہ بناتے ہیں جو عیش و عشرت کی طرف جاتا ہے“ ۔

بنی گالا، رائے ونڈ اور بلاول ہاؤس کے وسیع و عریض گھروں اور عالیشان بنگلوں میں رہنے والوں سے کوئی امید رکھنا کہ وہ ایک عام آدمی کا درد سمجھیں گے، محض اپنے آپ کو دھوکا دینے کے مترادف ہے۔

کارل مارکس نے کہا تھا ”وہ لوگ جنہوں نے سردی صرف کھڑکیوں سے دیکھی ہو اور غربت صرف کتابوں میں پڑھی ہو، وہ عام آدمی کی قیادت نہیں کر سکتے“ ۔

اور اب تک ہم نے یہی دیکھا ہے۔ ہمارے حکمران عوامی نہیں ہے۔ وہ عوام میں نہیں رہتے۔ ایک عام آدمی کی ان تک رسائی نہیں ہے۔ ان کا لائف اسٹائل ان کی غریبوں کے حق میں کی گئی باتوں سے مماثلت نہیں رکھتا۔

جن کا ہم نے سوچا تھا کہ وہ سائیکل پر دفتر جائیں گے انہوں نے ہیلی کاپٹر لے لیا۔

جو پچھلے 13 سال سے سندھ پر حکومت کر رہے ہیں انہوں نے کراچی کے سارے اختیارات میئر سے لے کر وزیر اعلٰی کو دے دیے اور باتیں جمہوریت کی، عوام کی طاقت کی۔ ان کو وفاق سے اختیارات صرف لاڑکانہ تک چاہیے لیکن لاڑکانہ سے کراچی والوں کو مقامی سطح پر منتقل کرنے ہو تو یہ ڈکٹیٹر بن جاتے ہیں۔

اگر یہ حکمراں آپ سے مخلص ہوتے تو سب سے پہلے آپ کے درمیان رہتے۔ برطانیہ کے ایک حکمراں نے ٹریفک پولیس کے چیف سے ایک دن درخواست کی کہ جب وہ ملکہ سے ملنے جاتے ہیں تو ٹریفک کی وجہ سے دیر ہو جاتی ہے۔ کیا آپ میرے لیے کچھ منٹ کے لئے ٹریفک رکوا سکتے ہیں۔ ٹریفک چیف نے جواب دیا سر یہ ممکن نہیں ہے۔ آپ تھوڑی دیر پہلے گھر سے نکل جایا کریں۔

لیکن ہمارے حکمراں یہ نہیں کر سکتے۔ وہ صرف تخت تک پہنچنے کے لئے تقریریں کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ انہیں پتا ہے کہ تقریریں کم عقل لوگوں کو متاثر کرتی ہیں۔

عوام تو جاہل ہے، وہ کب سمجھنے کی کوشش کریں گے کہ ملکی تاریخ کا سب سے زیادہ قرضہ لیا گیا ہے۔ وہ کب اس حقیقت سے آشنا ہوں گے کہ ان کا پیسہ 45 فیصد گراوٹ کا شکار ہے۔ اگر ان کے پاس کل 1 لاکھ تھا تو آج اس کی وقعت 55 ہزار کے برابر ہے۔ وہ کل بھی غریب تھے اور آج اس سے بھی زیادہ۔

میرے نزدیک ان بے حس اور ضمیر فروش سیاستدانوں سے اچھی تو وہ طوائف گنگو بائی کاٹھیاواڑی تھی جس کو کم عمری میں اس کا چاہنے والا ممبئی کے بازار میں بیچ گیا تھا۔

گنگو بائی نے اپنی مشکلات کو بھول کر اپنی ساتھی طوائفوں اور لڑکیوں کے لئے آواز اٹھائی۔ اس نے اس پیشے سے وابستہ عورتوں کے بچوں کو اسکول میں داخلہ کروایا۔ ان کی شادیاں کروائی۔ اس پیشے کو عزت دینے کی ہر ممکن کوشش کی۔

گنگو بائی اتنی مشہور اور با اثر ہو چکی تھی کہ وہ چاہتی تو بازار حسن چھوڑ کر ایک عزت دار علاقے میں عالیشان گھر میں رہ سکتی تھی لیکن اس نے کماتھی پورا کے علاقے کی چار ہزار سے زائد عورتوں کا سوچا اور وہ اس علاقے میں ہی رہتی رہی۔

اس طوائف کے سینے میں ایک دل تھا جو دوسروں کے لئے سوچتا تھا۔ انسانیت اس کا مذہب تھا۔ آج بھی ممبئی کے بازاروں میں گنگو بائی کاٹھیاواڑی کی تصویریں لگی ہوئی ہیں۔

آج کل ہمارے ملک میں جاری تخت کے کھیل کو دیکھ کر میری نظروں میں گنگو بائی کی عزت اور بڑھ گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments