یوکرین تنازعے کا نیا رخ


یوکرائن میں جنگ اب ایک نیا رخ اختیار کرتی نظر آ رہی ہے۔ ایک طرف تو روسی صدر پیوٹن مشرقی یوکرائن کو ایک آزاد ملک بنانے کے درپے نظر آرہے ہیں دوسری طرف اب یہ جنگ میدانی علاقوں سے نکل کر سائبر جنگ میں تبدیل ہو رہی ہے۔ گمنام ہیکرز کا ایک گروہ سامنے آ رہا ہے جو خود کو ”ہیکٹیوسٹ“ کہتا ہے۔ اس گروہ نے روس پر سائبر حملے بھی شروع کر دیے ہیں۔ ان حملوں کا سب سے بڑا نشانہ روسی ٹی وی نیٹ ورک ہیں۔

گزشتہ دنوں ان گمنام حملہ آوروں نے روسی ٹی وی نشریات میں دس بارہ منٹ تک خلل ڈالے رکھا۔ اصل میں ہو یہ رہا ہے کہ روس تو براہ راست جنگ میں شامل ہے لیکن امریکا اور نیٹو کے دیگر ممالک گو کہ کھلم کھلا اس جنگ میں شریک نہیں ہوسکتے اب وہ اپنے تیکنیکی عملے سے سائبر وار میں شریک ہیں۔

ایک طرف روس دعوی کرتا ہے کہ اس نے شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنایا ہے دوسری طرف یوکرائن کا کہنا ہے کہ نہ صرف شہری آبادی بلکہ اسکولوں اور اسپتال تک کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ روسی میڈیا اور ٹی وی چینل شدید سرکاری یا ریاستی پابندیوں کا شکار ہیں۔ اس لیے روسی عوام کو صحیح صورت حال سے آگاہ نہیں کیا جا رہا بلکہ اگر کوئی عوام کو حقیقت بتانے کے لیے کسی ذریعے کو استعمال کرتا ہے تو اسے جھوٹی خبروں کے قانون کے تحت گرفتار کر لیا جاتا ہے۔ دوسری طرف یوکرائن یا نیٹو ممالک کی طرف سے جو خبریں، تصاویر اور ویڈیو فراہم کی جاتی ہیں روس اسے جھوٹا قرار دیتا ہے۔ ایسے میں فیصلہ کرنا خاصا مشکل ہے کہ کون سی خبر یا تصویر جھوٹی ہے۔

اب اگر یوکرائن کے مشرقی علاقوں کی طرف دیکھیں تو یوکرائن نے دعویٰ کیا ہے کہ وہاں سے تقریباً ڈیڑھ لاکھ شہریوں کا انخلاء مکمل کر لیا گیا ہے، جب کہ شہر ماریو پول کئی ہفتوں سے روسی افواج کے محاصرے میں ہے، جس کے نتیجے میں شدید سردی میں لوگ بجلی کے بغیر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں اور وہاں پانی کی بھی شدید قلت پیدا ہو چکی ہے۔ غذائی اجناس تو پہلے ہی تقریباً ناپید ہیں کہ اس جنگ میں صحافی بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ ایک امریکی صحافی برینٹ رینوڈ کو دارالحکومت کیف کے قریب گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ وہ اس لڑائی میں مرنے والے پہلے غیر ملکی صحافی ہیں۔

اس جنگ میں روس کو فوری یا تیز رفتار فتح حاصل نہیں ہوئی اس لیے اب روس دعویٰ کر رہا ہے کہ اس نے اپنے ابتدائی اہداف حاصل کر لیے ہیں۔ یاد رہے کہ ایسے ہی دعوے امریکا نے افغانستان میں کئی بار کیے اور اپنی خفت مٹانے کی کوشش کی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یوکرائن کے ہتھیار ڈالنے سے انکار کے بعد روس صرف مشرقی یوکرائن کے روسی اکثریتی علاقوں پر قبضہ برقرار رکھنے کی کوشش کرے گا۔

گو کہ یوکرائن کی جنگی صلاحیت روس سے بہت کم ہے، مگر افغانستان یا ویت نام کو یاد کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ بڑی سے بڑی طاقت بھی ایک طویل جنگ کی متحمل نہیں ہو سکتی کیوں کہ جن پر حملہ کیا جاتا ہے وہ اپنا سب کچھ لٹانے پر تیار ہوتے ہیں جب کہ جارح افواج متواتر کوشش کے باوجود مفتوح اقوام کا حوصلہ توڑ نہیں پاتیں۔ لگتا ایسا ہے کہ روس کا خیال تھا کہ حملہ شروع ہوتے ہی یوکرائن کی فوج ہتھیار ڈال دیں گی اور دارالحکومت پر قبضہ کرنے کے بعد وہاں ایک نئی وفادار حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہو جائے گا، مگر ایسا نہیں ہوا۔

یاد رہے کہ یوکرائن میں ایک روس کی ایک وفادار حکومت موجود تھی مگر 2014 میں اس حکومت کو اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ غلط تھا لیکن اس کے بعد دو انتخابات ہوئے اور دونوں میں یوکرائن کے عوام نے روس کے وفاداروں کو ووٹ نہیں دیا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے۔ روس نے اپنے اعمال سے یوکرائن کے عوام میں روس کے لیے مزید نفرتیں پروان چڑھائی ہیں۔ روسی حکومت کا ایک اور بیان یہ ہے کہ اس نے یوکرائنی فوج کی کمر توڑ دی ہے۔

اس طرح امریکا نے بھی بار بار دعوی کیا تھا کہ اس نے افغانستان میں دشمنوں کی کمر توڑ دی ہے مگر نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ یوکرائن کے مشرقی علاقوں میں روسی بولنے والوں کی اکثریت ہے اور وہاں کے کچھ لوگ روس سے الحاق چاہتے بھی تھے مگر صرف زبان کی بنیاد پر ملک ٹوٹنے لگیں تو پھر شاید ہی دنیا کا کوئی ملک سلامت بچے گا۔

دنیا کے بہت سے لسانی اور نسلی گروہ ایک سے زیادہ ممالک میں آباد ہیں اور یہ سب یہ خواہش رکھ سکتے ہیں کہ انہیں لسانی بنیادوں پر ملک تقسیم کرنے کی اجازت دی جائے اور اگر ایسا کیا گیا تو پاکستان میں 80 زبانیں بولی جاتی ہیں اور بھارت میں 300 سے زاہد زبانیں تو کیا سب کو الگ ملک دے دیا جائے۔ مثال کے طور پر تو ایسا شاید اچھا ہو مگر حقیقی طور پر ایسا ممکن نہیں ہے۔ ایک اور دعوی جو روس کرتا رہا ہے وہ یہ کہ یوکرائن کی حکومت حاصل نازی جرمنی کے نقش قدم پر چل رہی ہے۔

یوکرین تنازعے کا نیا رخ

یہ دعوی اتنا گمراہ کن ہے کہ روس خود جارحیت کرے اور جس پر حملہ کرے اسے جرمنی نازی سے تشبیہ دے۔ روس یہ بھی کہتا رہا ہے کہ یوکرائن کی حکومت اور فوج نے نازی جرمنی کی طرز پر لاکھوں روسی بولنے والوں کو قتل کیا ہے مگر اس کا کوئی ٹھوس ثبوت دست باب نہیں ہے۔ اب اگر اس جنگ کے بھارت اور پاکستان پر اثرات کا جائزہ لیا جائے تو ہم دیکھتے ہیں کہ امریکا نے جو کواڈ کے نام سے نیا چار ملکی اتحاد قائم کیا ہے۔ اس میں امریکا، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان شامل ہیں۔

آسٹریلیا اور جاپان نے تو کھل کر امریکا کی حمایت کی ہے اور روس کی مذمت کی ہے مگر بھارت ایسا کرنے سے گریزاں ہے کیوں کہ روس اور بھارت دیرینہ دوست رہے ہیں اور سرد جنگ کے دوران بھارت سوویت یونین پر انحصار کرتا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان نے امریکا کا دیرینہ دوست ہونے کے باوجود روس کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔ اس معاملے میں غیر جانبدار رہنا اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ ایک ملک کے ساتھ جنگی کارروائیوں میں شریک نہ ہوا جائے لیکن کسی بھی جارحیت کو چاہے وہ آپ کے دوست کی جانب سے ہی کیوں نہ ہو اس کی کم از کم لفظی مذمت ضرور کی جانی چاہیے کہ ایک فریق کی طرف سے جنگ میں شامل ہونا ایک بات ہے اور لفظی مذمت بالکل دوسری بات ہے۔

امریکا نے کواڈ نامی چار ملکی اتحاد بظاہر تو چین کے خلاف تشکیل دیا ہے مگر اس کو یہ توقع ہے کہ روس کے خلاف بھی اتحادی ممالک کھل کر سامنے آئیں۔ ہر ملک کے اپنے مفادات ہوتے ہیں اور بھارت کواڈ کو چین کے کے خلاف ہی رکھنا چاہتے ہوئے اس جھگڑے میں روس کے مخالف نہیں ہونا چاہتا۔ یہ بالکل ایسی ہی بات ہے کہ پاکستان امریکا کا اتحادی تھا جب 1965 کی جنگ ہوئی مگر امریکا نے یہ کہہ کر معذرت کرلی تھی کہ اتحاد صرف سوویت یونین کے خلاف ہے بھارت کے خلاف جنگ میں امریکا پاکستان کی کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ اب بھارت دو بار سلامتی کونسل اور ایک بار جنرل اسمبلی میں اقوام متحدہ کی ووٹنگ میں بالکل غیر جانبدار رہا اور روس کے خلاف ووٹ نہیں دیا۔ چوں کہ بھارت خود کشمیر میں جارحیت کا مرتکب ہوتا رہا ہے اس لیے اسے روس کی جارحیت پر بھی کوئی تکلیف نہیں ہے۔

گو کہ امریکا نے بھارت کو پیش کش کی ہے کہ وہ روسی ہتھیاروں کی جگہ امریکی ہتھیار لے سکتا ہے مگر بھارت کو تو یہ فکر ہوگی کہ اگر بھارت اور چین کی جنگ ہوتی ہے تو امریکا یوکرائن کی طرح بھارت کو بھی تنہا چھوڑ دے گا۔ اس طرح امریکا خود کوئی قابل اعتبار ساتھی نہیں ہے اور یہ خود پاکستان بھی دیکھ اور بھگت چکا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ ہاں جارحیت کی لفظی مذمت ضرور کرنی چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments