دھیما تعصب: آپ عورت سے کتنی نفرت کرتے ہیں؟


کہتے ہیں کہ بیٹیوں کا ظرف کمال کا ہوتا ہے۔ ان کے سامنے بیٹوں کی دعائیں مانگی جاتی ہیں۔ ان کے سامنے ان کے وجود کی نفی کی جاتی ہے۔ عمر بھر بیٹیوں کو یہی تلخ الفاظ سننے کو ملتے ہیں۔ میں تو یہ کہوں گی کہ بیٹیوں کی قوت برداشت دیکھیں، عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی بیٹیوں کے منہ پر عورتوں کے حقوق کے لئے کام کرنے والی لڑکیوں کو برا بھلا کہا جاتا ہے۔ بیٹیوں کی اعصابی قوت کا اندازہ لگائیں کہ انسان تلفی سہتی ہیں مگر ڈگمگاتی نہیں۔ قائم و دائم رہتی ہیں۔ ان کی جگہ مانگے ہوئے بھائیوں کو پال پوس کر بڑا کر دیتی ہیں۔

میری ایک دوست بتا رہی تھیں کہ گزشتہ روز، ایک حاملہ خاتون سے ان کے یہاں ہونے والی اولاد کا پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ خدا نے چاہا تو ان کے یہاں ضرور بیٹا ہو گا۔ جس کے جواب میں میری سہیلی نے یہ کہا کہ کیا معلوم بیٹی ہو جائے؟ حاملہ خاتون نے فوراً سے ان کو لاجواب کرتے ہوئے یہ کہا کہ ایسے نہ کہو، اللہ سے اچھے کی امید رکھنی چاہیے۔

بہت برسوں قبل جب میں نے اپنے خاندان میں ایک خاتون سے پوچھا کہ میری پیدائش پر گھر والوں نے کون سی مٹھائی بانٹی تھی، جس کا جواب مجھے کچھ یوں ملا کہ بیٹیوں کے پیدا ہونے پر بھلا کون مٹھائی تقسیم کرتا ہے؟

چلئے مان لیا، ہمارے پیدا ہونے پر کسی کو خوشی نہیں ہوتی یا کم از کم ہمارے آنے سے پہلے ہماری جگہ اچھے کی امید رکھی جاتی ہے۔ ہمیں شروع سے بتایا گیا تھا کہ بیٹیاں اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہوں گی کہ اللہ کی رحمت کو کیسے زحمت سمجھا جاتا ہے اور اس رحمت کے ساتھ دنیا میں سلوک کیا ہوتا ہے۔ اس ملک کے ایک نامی گرامی عالم یہ بھی فرماتے نظر آتے ہیں کہ خدا جب خوش ہوتا ہے تو بیٹے دیتا ہے۔

ساتھ میں وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں خدا جب خوش نہیں ہوتا تو بیٹیاں دیتا ہے۔ میں جاننا چاہتی ہوں کہ جب خدا بیٹیاں دیتا ہے تو اس کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ کیونکہ بیٹیوں کے ساتھ خاموش اور برملا تشدد برداشت کو گوارا نہیں رہا۔ ہم نے تو سن رکھا تھا کہ خدا جب خوش ہوتا ہے تو بیٹیاں اور بارش دیتا ہے۔

اپنے ارد گرد خواتین کے حالات پر نظر دوڑائیں تو جو تصویر موجود ہے، اس کا سب کو علم ہے۔ وہ تصویر خاصی بھیانک ہے، جس پر معاشرے کے چلانے والے سربراہوں کو سر شرم کی لحد میں اتار دینا چاہیے۔

یہی عورت کش باتیں اور اس سے منسلک لاکھوں الفاظ اور ہزاروں جملے کسی بھی انسان کی زندگی میں زہر قاتل کی سی حیثیت رکھتے ہیں۔ خواتین ناصرف برملا تشدد اور تعصب کا نشانہ بنتی ہیں بلکہ اس طرح کی باتیں قدم قدم پر ان کے وجود میں شکن ڈالتی ہیں۔ زندگی میں ہم اکثر صرف باتوں کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ پاتی پھر ہمیں کہا جاتا ہے کہ ہم میں اعتماد کی کمی ہے۔ وہاں سے آگے بڑھ جائیں تو تشدد، تعصب، اور نفرت کے رویے سرحدیں کھڑی کیے رکھتے ہیں۔

خواتین کی حوصلہ شکنی کون نہیں کرتا اور کس کس موقع پر نہیں کرتا۔ ان کے آگے بڑھنے، ترقی پانے اور کامیابی کے راستوں پر پہرے کون نہیں بٹھاتا۔ یہ پہرے گھر سے شروع ہو کر تقریباً ہر میدان میں بٹھائے جاتے ہیں۔ صرف پاکستان کی جامعات کی مثال لی جائے، جابجا ایسے لوگ پھیلے ہوئے ہیں جو خواتین اساتذہ اور طالبات کی مخالفت میں اپنے دھیمے تعصب کے ساتھ سامنے کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان میں اساتذہ کے ہمراہ مرد طلبہ بھی کسی سے کم نہیں۔ ایک آخری سال کا طالب علم کسی کم عمر طالبہ پر رعب اور دھونس جما کر اپنی انا کی تسکین میں محو ہو گا اور اس کو روکنے والا کوئی نہیں ہوتا۔

ہمیں اس بات کا خوب ادراک ہے کہ کسی خاتون کو قائدانہ ذمہ داری دی جائے تو بہت سے لوگوں کو ایذا پہنچتا ہے، ان کے سینوں ہر خوب مونگ دلتی ہے۔ صدیوں کا عناد رگوں میں خون کی طرح ٹھاٹھیں مارتا ہے۔ یہی لوگ مدھم تعصب کی بدولت خواتین کی کام کرنے کی صلاحیتوں پر سوال اٹھاتے ہیں۔ یہ سوال واشگاف الفاظ میں نہ بھی کیے جائیں تو دبے الفاظ میں سامنے والے کا تعصب جھلک پڑتا ہے۔ یہ مدھم تعصب ہلکے پھلکے مذاق میں اور غصے کے اظہار کے بنا ہی سامنے آتا ہے۔ انگریزی میں اس رویے کے کیے مائیکرو یا پیسو ایگریشن کی اصطلاح کا استعمال ہوتا ہے۔ دھیمی مزاحمت یا مدھم تعصب کے رویے گھر اور گھر سے باہر تقریباً ہر جانب ہی جابجا نظر آتے ہیں۔

پیسو یا مائیکرو ایگریشن عورتوں کے خلاف مردوں کے ایسے رویے کو کہتے ہیں جو کھل کر تو نہیں مگر ذو معنی الفاظ میں عورتوں کے خلاف فطرتی نفرت کا اظہار کرتے ہیں۔ نا اہل اور نالائق لوگوں کا یہ خاصا اہم ہتھیار ہوتا ہے۔ جو لوگ کوئی دلیل نہیں دے پاتے، وہ عورت کے جنس پر جرح کرتے دکھائی دیتے ہیں، جیسے فقط عورت ہونا ہی ایک ناکامی ہو۔

ان رویوں میں بات بات پر ان کے عورت ہونے کی وجہ سے نکتہ چینی یا تنقید کرنا، اپنے قول و فعل سے ان کو عدم تحفظ کا احساس دلانا، ان کی صلاحیتوں پر ان کے جنس کی بنیاد پر بلا وجہ سوال کرنا، محفل یا کسی دوسرے موقع پر ایسی گفتگو کرنا جس سے عورتیں اجتناب برتتی ہوں یا دیگر رسمی اور روایتی طریقوں سے ان کی نفی کرنا شامل ہے۔ یہ جامعات، دفتروں، بازاروں، گھروں اور ہر طرح کی محفل میں نظر آتا ہے اور لوگ بھی قہقہے لگاتے دکھتے ہیں۔ جہاں کسی عورت نے ایسے امتیازی اور توہین آمیز انداز کلام پر انگلی اٹھائی وہاں وہ بدمزہ فیمنسٹ قرار پاتی ہے۔

مثال کے طور پر کچھ مائیکرو ایگریشن کے جملہ مندرجہ ذیل ہیں، جو ہمارا تعاقب کرنا نہیں چھوڑتے :
میں آپ کو جواب تو دیتا مگر میں عورتوں کی عزت کرتا ہوں۔
میں عورتوں کی آزادی کے خلاف نہیں ہوں مگر ان کو آزادی کی ضرورت نہیں ہے۔
لڑکیاں تو جماعت میں بولتی نہیں۔
ہم نے اپنی بیٹیوں کو پڑھنے کی اجازت دے رکھی ہے۔
میری بیوی کو اجازت ہے کہ وہ اپنے میکے جایا کرے۔
لڑکیاں نازک ہوتی ہیں۔
لڑکیاں حساس ہوتی ہیں۔
عورتیں نگہبان نہیں ہو سکتی کیونکہ ان کو حیض آتا ہے۔
عورتوں کو حیض آتا ہے۔
عورتیں حاملہ ہوتی ہیں اس لئے ان کو اعلی عہدوں پر ترقی نہیں دی جا سکتی۔
لڑکیاں کہاں خون عطیہ کر سکتی ہیں؟
لڑکیاں رو پڑتی ہیں۔
لڑکیاں تنقید نہیں سہ سکتی۔
بیٹی نے پڑھ کر کیا کرنا ہے۔ جانا تو اگلے گھر میں ہے۔
تم تو بہت اچھی گول روٹی بناتی ہو۔ تم گول روٹی نہیں بناتی۔
بیٹی کو جائیداد میں حصہ نہیں جہیز دینا چاہیے۔
بھائی کے لئے اپنا حصہ چھوڑ دو۔
عورت عورت کی دشمن ہے۔
لڑکیاں تو بس کپڑے جوتوں کی باتیں کرتی ہیں۔
عورت کی گواہی آدھی ہے۔
سیاسیات پڑھنے والی لڑکیوں کو کیا پتا سیاست کیا ہے؟
لڑکیاں جہاز نہیں اڑا سکتی۔
عورت گھر کی سربراہ نہیں ہو سکتی، ملک کی کیا سربراہی کرے گی۔
حیض میں عورتیں پاگل ہو جاتی ہیں۔ اس لئے جنگ میں عورت سربراہ اچھا فیصلہ کرنے کے نا اہل ہوتی ہے۔
عورتیں مشکل میں صحیح فیصلہ نہیں لے سکتیں۔
تمہیں یونیورسٹی کی ہوا لگ گئی ہے۔
تم جاب کر کے جاب کرنے والی آنٹیوں سی ہو جاؤ گی۔
تمہیں انسانی حقوق کی آنٹیوں سا چسکا لگ گیا ہے۔
کام پر شادی کو فوقیت دو۔ بچے پیدا کرو، خود غرض نہ بنو۔
یہ عورت مارچ والیاں صیہونی بازاری عورتیں ہیں۔
تم عورت ہو، تمہارا کام ہی معاف کرنا ہے۔
تم عورت ہو۔
صبر کرو، شکر کرو کہ کسی بازار میں نہیں ہو۔
مارتا ہے تو پیار بھی کرتا ہے۔
کھینچ کر رکھو۔
وہ مجھ سے پیار کرتے ہیں، اس لئے شک بھی کرتے ہیں۔
ایسے مت بولا کرو، ریپ ہو جائے گا۔

لڑکی ہو کر فزکس کیوں پڑھ رہی ہو؟ لڑکی ہو کر حساب کر رہی ہو؟ لڑکی ہو، معاشیات کیوں پڑھ رہی ہو؟ لڑکی ہو، خارجہ پالیسی کیوں پڑھ رہی ہو؟

لڑکوں سے دوستی نہ کرو، ایسی لڑکیوں سے دوستی نہ کرو، اپنی جیسی لڑکیوں سے دوستی کرو۔
کوئی ضرورت نہیں ہے آگے پڑھنے کی، کوئی ضرورت نہیں ہے لڑکوں کے مضمون پڑھنے کی۔
آگے تو شادی ہی ہونا ہے۔
پی ایچ ڈی کر لو، دھونے تم نے برتن ہیں۔
گھرداری تمہارا کام ہے۔
زیادہ اچھل کود نہ کرو، تمہاری شادی ہونا ہے۔
لڑکیاں خوشبو نہیں لگاتی۔
لڑکیوں کو یہ نہیں کرنا چاہیے۔
لڑکیاں اف تک نہیں کرتی۔
زیادہ میک اپ نہ کیا کرو۔
لڑکے والے آ رہے ہیں، کچھ تو میک اپ کیا کرو۔
جب اگلے گھر جاؤ گی تو پتا چلے گا۔
سر پر دوپٹہ لو۔ برقعہ کیا کرو۔ سیدھی ہو کر بیٹھو۔ سیدھے ہو کر لیٹو۔
شکر ہے بیٹا ہوا ہے۔
اگلی بار بیٹا ہو گا۔
اب بیٹی ہو گئی ہے، جھک جاؤ۔
فاطمہ جناح عورت تھیں اور ہندوستان حملہ کرنے والا تھا، اس لئے ان کے ساتھ دھاندلی ٹھیک کی گئی۔

اس طرح کے ہزاروں جملے اور الفاظ خواتین کو سننے کو ملتے ہیں۔ خاموش نفرت کا یہ اظہار دراصل ان تمام عورت دشمن اور صنفی امتیاز کے عوامل کی ہی تائید کرتا ہے جو بڑھ چڑھ کر عورتوں کے خلاف الفاظ میں تشدد اور تبعیض کا اعلان کرتے ہیں۔ یہی رویے طول پکڑ کر عورتوں کی شخصی آزادی کی نفی کرتے ہیں اور متشدد رجحانات کا پیش خیمہ ثابت ہوتے ہیں۔

کام کرنے کی جگہوں پر خواتین کو انہی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ناصرف ان کے کام میں رکاوٹ کا سبب بنتے ہیں بلکہ ان کی ترقی اور عروج میں مسلسل حائل رہتے ہیں۔ یہ مائیکلرو ایگریشن یا خاموش نفرت اس عدم تحفظ کے احساس کو اجاگر کرتا ہے جو پدرسری نظام کو عورت کے وجود اور اس سے منسلک جدوجہد سے لاحق ہے۔

عورت کے اختیار کا خوف یوں بھی لاحق ہے کہ صدیوں سے روایتی، سماجی، معاشی، سیاسی، جذباتی، جنسی، جسمانی، روحانی، نفسیاتی تشدد جو عورت پر ہوتا رہا، کہیں برابری ملنے پر مرد کے ساتھ روا نہ رکھا جائے۔ اس لئے تشدد اور تخصیص کے اس سلسلے کو ختم کرنا پدرسری معاشروں کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ طاقت کو جس قدر منجمد کیا جائے، اتنی ہی کارگر ثابت ہوتی ہے جو پدرشاہی نظام کا طرہ امتیاز رہا ہے۔

طاقت پر سوال اٹھانے یا اس کو للکارے جانے کے خلاف خود پرست، عناد پرست اور باطنی طور پر کمزور لوگ زیادہ مصیبت میں مبتلا ہوتے ہیں، جو ان کے مزاحمتی برتاؤ سے صاف جھلکتا ہے۔ یہی نکات ایک نارسسٹ کی نشاندہی کے طور پر بھی لاگو کیے جا سکتے ہیں۔ پدرسری نارسسٹ سوچ اپنے مقابلے میں کسی دوجے کو آگے بڑھتا ہوا دیکھنا گوارا نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ عمل اور کلام میں تشدد اور امتیاز کو کھلم کھلا اجاگر کیا گیا ہے۔ اسی دھیمے تعصب کی وجہ سے لاکھوں پڑھنے والی طالبات اور عورتیں سماجی اور جسمانی ہی کیا نفسیاتی تشدد کا بھی نشانہ بنتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments