خان صاحب اپنے کہے کا ہی مان رکھ لیں


وزیراعظم عمران خان قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کھو بیٹھے، ایک ایک کر کے اتحادی ساتھ چھوڑتے گئے اور بالآخر ایم کیو ایم نے سرکاری تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی اور خان صاحب کو منجدھار میں داغ مفارقت دے گئے۔ کچھ ماہ پہلے جب سینیٹ انتخابات میں قومی اسمبلی میں سید یوسف رضا گیلانی نے حکمران اتحاد کی اکثریت کو شکست دے کر کامیابی حاصل کی تھی تو خان صاحب نے جمہوری روایات کو تقویت بخشتے ہوئے از خود اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا تھا اور قوم سے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ اگر میرے اپنے اراکین کو بھی مجھ پہ اعتماد نہیں رہا تو وہ ہاتھ بلند کر کے مجھے کہیں کہ ہمیں آپ پہ اعتماد نہیں رہا تو میں اقتدار چھوڑ کر چلا جاؤں گا۔

آج نہ صرف خان صاحب کے اتحادی بلکہ ان کے درجنوں اپنے اراکین پارلیمان نے کھلے عام ٹی وی چینلوں پہ بیٹھ کر خان صاحب پہ عدم اعتماد کیا ہے اور وہ اتحادیوں سمیت اپنے ساتھیوں کا اعتماد بھی کھو بیٹھے ہیں۔ اب وقت و حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ وزیر اعظم صاحب کو محاذ آرائی کے بجائے اپنے کہے الفاظ کا مان رکھتے ہوئے اقتدار چھوڑ دینا چاہیے۔

اب تک کے قرائن بتا رہے ہیں کہ وزیر اعظم ایوان کی اکثریت کا اعتماد گنوانے کے بعد بھی بضد ہیں کہ وہ آخری حد تک جائیں گے، چاہے اس کے لیے ملک و قوم کا مفاد پس پشت ہی کیوں نہ رکھنا پڑے۔ خان صاحب کے فواد چودھری، شہبازگل، فیصل جاوید، شیخ رشید، شاہ محمود قریشی اور ان جیسے کچھ اور مصاحبین جو ان کو اس نہج پہ لے آئے ہیں اس وقت بھی اپنی چرب زبانی، بدتمیزی اور جھوٹ سے باز آنے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ اب بھی اس حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ ان کے اقتدار کا سورج غروب ہو چکا ہے۔

یہ اشخاص اب بھی عمران خان صاحب کو یہ یقین دلانے کی میں لگے ہوئے ہیں کہ وہ ہی جیتیں گے چاہے سب ان کو چھوڑ کر چلے ہی کیوں نہ جائیں کیونکہ پاکستان کی عوام ان کے ساتھ کھڑی ہے۔ خان صاحب پچھلے دو تین روز سے جس خفیہ عالمی سازش اور دھمکی آمیز خط کا ذکر کر رہے ہیں باخبر احباب بتاتے ہیں کہ یہ سب کچھ بھی شاہ محمود قریشی صاحب کے سازشی نظریات اور ذہنیت کا شاخسانہ ہے، وہ یہ بھانپ چکے تھے کہ تحریک انصاف کے اندر سے خان صاحب کے خلاف نفرت اور بیزاری کا ایک لاوہ ہے جو ابلنے کو ہے اور ان کے اتحادی بھی ڈگمگا رہے ہیں اس لیے انہوں نے ہی خان صاحب کو یہ شیطانی مشورہ دیا تھا کہ اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو عالمی سازش سے جوڑیں اور پھر قوم کو یہ یقین دلانے کی کوشش کریں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح آپ کے خلاف بھی عالمی سازش ہوئی ہے اور پی این اے کی تحریک جیسی تحریک آپ کے خلاف شروع کردی گئی ہے۔

شاہ محمود قریشی صاحب شاید بھول گئے تھے کہ شہید بھٹو کے خلاف پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے، اسلامی دنیا کو اکٹھا کرنے، اسلامی بینک بنانے جیسے عظیم منصوبوں کی وجہ سے اس وقت عالمی سازش تیار ہوئی اور پھر بھٹو شہید کو دھمکی دی گئی کہ ”اگر تم اپنے ان منصوبوں سے باز نہ آئے تو تمہیں نشان عبرت بنا دیا جائے گا“ جب کہ خان صاحب نے چار سال میں سوائے ملک و قوم اور معاشرے کو تقسیم کرنے، ڈینگیں، بھڑکیں مارنے کے کچھ بھی نہیں کیا جس کی وجہ سے کوئی غیرملکی طاقت یا طاقتیں ان کے خلاف کوئی سازش کرتیں۔ وزیراعظم عمران خان آج ہزیمت اور شکست و ریخت کے جن مراحل سے گزر رہے ہیں وہ صرف اور صرف ان کے اپنے پیدا کردہ ہیں، وہ ان حالات تک اپنی بدترین، متکبرانہ، رعونت و گھمنڈ سے بھری، طاقت و اختیار کے نشے سے چور طرز حکمرانی اور اپنی نا اہلی اور نالائقی کی وجہ سے پہنچے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان آج بھی اپنا انداز تکلم، اپنی طرز حکمرانی، اپنے طور طریقے تبدیل کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وہ آج بھی سمجھتے ہیں کہ ان کا کوئی نعم البدل نہیں، وہ شاید خود کو عالم اسلام کا رہنما تصور کر بیٹھے ہیں، وہ خود کو ملک و قوم کا مسیحا سمجھتے ہیں مگر افسوس کہ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ خان صاحب نے ملک و قوم کے معاشی، جمہوری، اخلاقی، معاشرتی اور سماجی اقدار کی دھجیاں جس طرح اپنے پونے چار سالا اقتدار میں اڑائی ہیں اس کی مثال ملک کی پچھتر سالا تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں ملتی۔

خان صاحب کا دور حکومت کسی ڈراؤنے خواب کی مانند ہے جس میں وعدوں، دعووں اور امیدوں کے ڈھیروں سہانے خواب تھے مگر ان کی تعبیر بہت ہی بھیانک نکلی ہے۔ عمران خان صاحب بے دریغ حکومتی وسائل، عوام کے ٹیکسز کے اربوں روپے استعمال کر کے اسلام آباد کے پریڈ گراؤنڈ میں پچیس تیس ہزار کارکنان اکٹھے کر کے یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ قوم ان کے پشت پہ کھڑی ہے تو یہ ان کی اور ان کے اپنے ہی دوست نما دشمن اکابرین و مصاحبین کی خام خیالی ہے۔

پاکستان کی قوم اب عمران خان صاحب اور ان کی حکومت سے نجات چاہتی ہے کیونکہ خان صاحب نے نہ صرف داخلی طور پہ ملک کو کھوکھلا کر دیا ہے بلکہ بین الاقوامی طور پہ بھی اپنی نا اہلیت نالائقی سے پاکستان کو تنہا کر دیا ہے۔ عالمی مالیاتی اداروں میں پاکستان کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ مہنگائی، کرپشن، آزادی اظہار رائے، عدل و انصاف کی تنزلی کے عالمی پیمانوں میں پاکستان اول نمبروں پہ پہنچ چکا ہے اور یہ سب عمران خان صاحب کی بے مثل و بے نظیر طرز حکمرانی کا شاخسانہ ہے۔ اسی لیے اب بھی وقت ہے ہم سب کی، پوری قوم کی بات مانیں اور باعزت طریقے سے اپنی واپسی کے راستے کا انتخاب کریں

” بھولے سے کہا مان بھی لیتے ہیں کسی کا،
ہر بات میں تکرار کی عادت اچھی نہیں ہوتی ”

قوم اب بھی یہ امید لگائے بیٹھی ہے کہ خان صاحب اقتدار سے جونک کی طرح چمٹ کر رہنے اور پھر بے عزت ہو کر کوچے سے نکلنے سے، اپنے کہے الفاظ، اپنے ساتھیوں، اتحادیوں اور اپوزیشن کے عدم اعتماد کو قبول کرتے ہوئے مان دیں گے اور اپنے منصب سے استعفیٰ دے کر ملک و قوم کو کسی اندوہناک حادثے کسی انتشار و افراتفری کی صورتحال دوچار ہونے سے بچا لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments