عمران نیازی مستقبل کے میاں اظہر ہیں



صاحبان، اصل والی سیاست میں معجزات نہیں ہوتے۔ اصل والی سیاست میں سیاستدان گلی گلی پھرتے، لوگوں کی پھٹکار سہتے اور پھر کئی برسوں بعد اس قابل ہوتے ہیں کہ ریاست کے سنجیدہ معاملات کو سمجھ سکیں۔ ہاں مگر، آپ کی ”قمر“ پر اگر ”پشوری لالے“ کا ہاتھ ہو تو حمید گل مرحوم کا 1997 میں شروع کردہ نوائے وقت والا ”نرم انقلاب“ سیٹھ میڈیا کی طاقت سے اٹھارہ لوگوں کے مجمع کو 2014 میں بیس بیس گھنٹوں کی کوریج بھی مل سکتی ہے ؛ ہٹلر کے پروپیگنڈا منسٹر، گوئبلز کی روح کو خوشی سے سرشار کرتے ہوئے میڈیا کے ذریعے سے شاہ دولے کے چوہے بھی تخلیق کیے جا سکتے ہیں جو اک انقلابی رہنما کی 200 لوگوں کی ٹیم پر ایمان رکھتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ”عمران خان آئے گی۔ باہر سے 200 ارب ڈالر لائے گی۔ 100 ارب آئی ایم ایف کے مونہہ پر مارے گی۔“

نیازی صاحب کے مستقبل پر صرف ایک بات کرنے سے پہلے، اپنے پڑھنے والے ڈیڑھ درجن قارئین کی خدمت میں دو آرٹیکلز پیش کرتا ہوں جو بالترتیب جولائی 2018 اور اکتوبر 2018 میں تحریر کیے تھے۔ جولائی 2018 میں لکھا تھا کہ تحریک انصاف کا الیکشن ہارنا کیوں ضروری ہے، اور اکتوبر میں ان کی الیکشن میں ”فیضیابی“ کے بعد ، پاکستان کو آنے والے ممکنہ سواد کی تنبیہ کی تھی۔

تب مجھے معلوم نہ تھا کہ یہ حکومت اس قسم کے رویے کا مظاہرہ کرے گی کہ عدم اعتماد کی خبریں سامنے آنے پر سکون کا اک سانس لیتے ہوئے یہ تحریر کرنا پڑے گا کہ اس بے کار بیانیے والی حکومت کا جانا کیوں ضروری ہے۔

پاکستان کی تقریباً 68 ٪ آبادی کی عمر 32 برس سے کم عمر لوگوں پر مشتمل ہے۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو 1990 میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 2004۔ 2005 میں شعور سنبھالنا شروع کیا جب جنرل مشرف کی آمریت اس ملک پر پھر مسلط تھی۔ آمریت کی اس بیانیہ میں ان کا ادارہ پاکستان کا واحد محافظ تھا جبکہ سیاستدانوں کی بھد کے علاوہ ان کا مسلسل مذاق بھی اڑایا جاتا تھا۔

مذاق ویسے سب کا اڑایا جانا چاہیے۔ یہ کمزور کا بدلہ ہوتا ہے۔ تقریباً 17 ارب ڈالر سالانہ کی رعایتیں لینی والی پاکستانی اشرافیہ کے سامنے 95 ٪ سے زائد پاکستانی میرے سمیت کمزور ہی ہیں۔ ہاں مگر، سیاستدان اپنا مذاق اڑانے والوں کو لڑکی کے بھائیوں سے سروں میں لوہے کے راڈ نہیں مرواتے اور نہ ہی کہنیوں پر بندوقوں کے بٹ مرواتے ہوئے ”افغانستان مردہ باد“ اور ”پاکستان زندہ باد“ کے نعرے لگواتے ہیں۔

2004۔ 2005 میں ہوش سنبھالنے والی نسل کو جنرل مشرف کا بیانیہ گھونٹ گھونٹ پینا پڑا۔ اسی دوران سوشل میڈیا نے انسانی معاشرت میں جنم لیا اور بہت تیزی سے قدم جما لیے۔ فوجی آمریتوں میں لوگوں کی سیاسی کمٹمنٹ اور اداروں کی فیصلہ کرنے کی ذہانت کے علاوہ سیاستدانوں کی قابلیت بھی متاثر ہوتی ہے تو 2008 میں پیپلز پارٹی کی حکومت شاندار قانون سازی کے باوجود عوام کو بہت سارے معاملات میں ریلیف فراہم کرنے میں ناکام رہی۔ یہ جسٹس افتخار چوہدری کا دور تھا اور ان کا بھی جو اک شرپسند کینیڈین مولوی کو لائے، میمو گیٹ کرتے پھرے اور بعد از زرداری صاحب سے معذرت کے طلبگار ہوئے۔

انہی پانچ سالوں میں نیازی صاحب کے مہربانوں نے سوشل میڈیا کی سیاسی طور پر Tipping Point تخلیق کرنے کی صلاحیت کو جانا اور پھر نوجوانوں کو اک ”منقول“ پروپیگنڈے کے ذریعے متاثر کرنا شروع کر دیا۔ Tipping Point کیا ہوتا ہے؟ گوگل کر لیجیے۔

2013 سے 2018 تک 1990 اور 2000 تک پیدا ہونے والے مناسب شعور کے حامل ہو چکے تھے اور عین گوئبلز اور پھر ماؤزے ڈنگ کے کلچرل ریوولیوشن کی سنتوں پر نوجوانوں کو ملک کی باگ ڈور سنبھالنے، غداروں کو سزائیں دینے اور کرپٹ لوگوں کو تختہ دار تک پہنچانے کا درس بھی دیا جاتا رہا۔ دھرنے تماشے کے علاوہ پانامہ کا ڈول ڈالا گیا۔ آج کل بابا ڈیم فول کہاں ہیں ویسے؟

پروپیگنڈا پاکستان کی دو نوجوان نسلوں کے ساتھ کھلواڑ کر چکا ہے جو عمران نیازی صاحب کو پاکستان کی آخری امید سمجھتے تھے۔ کچھ کا ڈنک تو پچھلے ساڑھے تین برس کی شاندار ”میں میں“ نے نکالا ہے۔ کچھ ویسے ہی ملٹرائزڈ بیانیہ کے حامل ہیں۔ سیاسی نظریہ ہر کسی کا بنیادی حق ہے۔ پرتشدد اور جارحانہ سیاسی نظریہ مگر کسی کا کوئی حق نہیں۔ پاشا تحریک انصاف نے بیانیاتی تشدد اور سیاسی جارحیت کو ہی بڑھایا اور کل کی تقریر بھی اسی بیانیاتی تشدد، سیاسی جارحیت کے علاوہ فکری بددیانتی کا ہی مرکب تھی۔

سنتے ہیں کہ راولپنڈی اور آبپارہ والے نیوٹرل ہو چکے ہیں، مگر دل و دماغ پر اتنے زخم ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا۔ اگر پاکستان کے دیوتا واقعی ہی نیوٹرل ہو چکے ہیں نیازی صاحب اور گوئبلیئن پروپیگنڈے کے شکار نوجوانوں کو خبر ہو کہ کبھی جنرل مشرف نے پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم تخلیق کی تھی اور پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بھی۔ اک میاں اظہر ہوا کرتے تھے تو اک نوریز شکور بھی۔

نیازی صاحب کی ساری سیاست بیساکھیوں پر ہی استوار رہی ہے۔ مال پانی، گاڑی اور جہاز فراہم کرنے والوں چلے جانے اور عدم اعتماد کے بعد ، وہ آنے والے دنوں کے میاں اظہر اور نوریز شکور ہیں۔ دیوتاؤں نے میرے وطن پر غیرجانبداری کی مہربانی رکھی تو مفت میں 20۔ 20 گھنٹے کی کوریج تو کراچی کے سیٹھ سمیت، کوئی سیٹھ نہیں کرے گا۔ صوفے پر نیم دراز انقلابی ان کے لیے سوشل میڈیا پر شور بھلے مچاتے رہیں۔ نیازی صاحب اور ان کی جماعت کا مستقبل کیا ہو گا، جزوی طور پر یہ مخالف سیاسی جماعتوں کا بیانیہ اور کارکردگی متعین کرے گا۔ وہ مگر 70 برس کی عمر کے بزرگ شخص ہیں۔ ان کا پاکستان میں کوئی سٹیک نہ تھا، نہ ہے اور نہ ہی ہو گا۔

انوکھے لاڈلے کو کھیلن کو چاند چاہیے تھا۔ دیوتاؤں نے تھما دیا۔ پاکستان کی کسے پرواہ تھی۔ کہانی بس اتنی ہی ہے۔
نیوٹرل ہونے کو جانور کہنے والا غصہ سمجھ میں آتا ہے بھئی!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments