جمہوریت کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے!


میدان سجا، خوب سجا، بولیاں لگی خوب لگی جس نے زیادہ بولی لگائی اس کی جانب ہم چلے۔ یہ ہی معیار ہے پاکستانی سیاست کا ، اس سیاست میں اصول نہیں بلکہ اصول ہر وہ راستہ ہے جس کو اپنا کر طاقت حاصل کی جائے یا پھر طاقت میں رہا جائے۔ اس معاملے میں حکومت ہو یا پھر اپوزیشن دونوں بھائی بھائی ہیں۔ سندھ کے شہری علاقوں کی پارٹی ہو یا پھر پنجاب کے چوہدریوں کی، بلوچستان کی پارٹی ہو یا پھر حکومت میں موجود انصاف کی پارٹی۔ سب کے ایک جیسے اصول ہیں اور اصول بس یہ ہے کہ طاقت میں رہا جائے اور اگر نہیں ہے تو کسی بھی طرح حاصل کی جائے۔

سب سے پہلے انصاف کے دعویدار عمران خان کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں جن کے بارے میں یہ کہتے تھے کہ یہ پنجاب کا سب سے بڑا چور ہے اس کو اسپیکر بنوایا اور اب وزیر اعلی بنانے کے لئے راضی ہو گئے یہ کون سا اصول ہے۔ ق لیگ و ایم کیو ایم کے ساتھ حکومت بنانے کو سب سے بڑی منافقت کہتے تھے اور پھر یہ منافقت خوب سینہ چوڑا کر کے کی۔ شیخ رشید کے بارے میں کیا کیا کہا اور وہ وزیر داخلہ رہے۔ کہتے تھے کہ بلیک میل نہیں ہوں گا اور اب حقیقی بلیک میلروں کے ہاتھوں تفصیل سے بلیک میل ہو رہے ہیں۔

اسی طرح اپوزیشن کی ایک پارٹی کے کیا کہنے، ایک ایم این اے جو قتل کے مقدمے میں نامزد تھا وہ اچانک سے نمودار ہوا اور سب کے سب معاملات درست ہو گئے۔ گھر والے مقدمہ سے پیچھے ہٹ گئے اور ضمانت بھی منظور ہو گئی۔ اس پورے معاملے میں کوئی بھی قصوروار ہو مگر ٹائمنگ اہم ہوتی ہے اور اسی سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ ہو کیا رہا ہے۔

پاکستانی سیاست کے اس حمام میں سب ننگے ہیں اور اس حمام میں آنے والا پانی بھی گندا ہے جس کو استعمال کرنے کے بعد انسان پاکیزہ نہیں ہوتا بلکہ مزید گندا ہوجاتا ہے۔ اس حمام میں نہانے کے بعد گندے کپڑے ایک دوسرے سے بدل کر پہنے جاتے ہیں۔ اس سیاست میں ہی نہیں اس نظام میں ہی ایسی گندگی ہے۔

اگر آپ کو کوئی پسند ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ پاک و صاف ہے۔ اگر آپ کو کوئی پسند نہیں تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس سے بڑا گھٹیا کوئی نہیں۔ شہزاد رائے کے مطابق نیک وہ ہے جنھیں موقع نہ ملا۔ پاکستانی سیاست میں ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ جن جن کو موقع ملا وہ نیک نہ رہے۔

آپ سچے ہوں گے مگر آپ نے بہت سے غیر اخلاقی کام کیے ہیں جن میں سے بڑا کام اپ کی بے لگام زبان نے اور ٹویٹر ٹرینڈنگ نے کیا جس نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا۔ آپ نے اپنے لوگوں کو پیچھے دھکیل دیا اور ان لوگوں کو ساتھ لیا جو پہلے والوں کے ساتھ تھے جو آپ کے بقول چور تھے۔ فائدہ کیا ہوا ایسی تبدیلی کا ، جہاں 22 سال انتظار کیا وہاں 5 سال اور کرتے، بہت ممکن تھا کہ آپ مکمل اکثریت کے ساتھ حکومت میں آتے اور بلیک میل نہیں ہوتے اور رہی سہی کسر آپ کے ”میں“ نے نکال دی۔

اس ملک کی حالات سب کے سامنے ہیں، خواہش بھی یہ ہے دعا بھی یہ ہے اس نظام میں بہتری آ جائے اور لوگوں کی حالات زندگی میں بہتری آ جائے مگر ان سب کے لئے سب سے پہلے بڑوں کو عقلمند اور دیانت دار ہونا پڑے گا اور یہ کام بہت مشکل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments