قادر الکلام شاعر و مترجم ’آذر‘ نایاب صدیقی بدایونی کی 18 ویں برسی


سندھی ادب، موسیقی خواہ دیگر سماجی علوم کے میدان میں یہ بات کوئی ان ہونی، نئی یا حیران کن نہیں رہی، کہ ایسے تخلیق کاروں نے بھی سندھ کی مانگ سجائی ہے، جن کی مادری زبان سندھی نہیں رہی۔ اگر ہم سر اور سنگیت کی دنیا میں دیکھیں تو ہمیں سندھ میں پیدا ہونے والے گوالیار گھرانے کے ہر فرد سے لے کر (بشمول استاد منظور علی خاں، فتح علی خاں، وحید علی اور رجب علی) ، سینگار علی سلیم اور صادق علی تک، شاعری کے میدان میں وفا ناتھن شاہی سے لے کر فہیم شناس کاظمی تک اور علم اور دانش کے دیگر شعبہ جات میں ادریس راجپوت سے لے کر دیگر کئی ناموں تک، سندھ کے ایسے متعدد سپوت ملتے ہیں، جنہوں نے اپنی جائے پیدائش کی طرح بعد از تقسیم ہند اور ہجرت، سندھ کو بھی اپنی ’ماں۔

دھرتی‘ کا درجہ دے کر، اس کی زبان و ثقافت کو دل سے اپنایا اور اسے اپنے اظہار کا ذریعہ بنایا۔ یہ چاہے ان کا سرزمین سندھ پر احسان ناں بھی ہو، اور ان کی اپنی ضرورت ہی کیوں نہ ہو، مگر پھر بھی سندھ اور سندھی زبان نے، ایسے باصلاحیت افراد کو شہرت خواہ عزت سے نوازا ہے۔ ایسے تخلیق کاروں کے تسلسل میں بھارتی ریاست اتر پردیش کے مشہور شہر ’بدایون‘ کے قاضی ٹولا محلے میں بیسویں صدی کی تیسری دہائی کے اواخر میں سال 1928 ء میں 5 جولائی کو، افضال حسین صدیقی کے گھر پیدا ہونے والے اور تقسیم ہند سے تھوڑے عرصے بعد 1949 ء میں سندھ آ کر، حضرت سچل سرمست کے پڑوس میں ’رانڑیپور‘ شہر کو اپنا مسکن بنانے والے خوش رنگ شاعر، ”آذر“ نایاب صدیقی بدایونی بھی ایک ہیں، جو سندھی کے ساتھ ساتھ اردو اور فارسی کے بھی برجستہ شاعر تھے، جنہوں نے مختصر تعداد میں ہی سہی، مگر سندھی ادب کو ایسا شعری خزانہ دیا ہے، جس میں فصاحت بھی ہے تو سلاست بھی! عشق پرستی بھی ہے، تو سندھ دوستی بھی! زمانے کی مشکلات کا ذکر بھی ہے، تو ایک مثالی سماج تعمیر کرنے کی خواہش بھی! جن کی فکر بھی قوی ہے تو اس میں فنی برجستگی بھی ہے۔ شاعر کے ساتھ ساتھ وہ ایک کامیاب مترجم بھی تھے اور انہوں نے کچھ اہم منظوم و منثور تراجم بھی کیے۔

آذر، معروف صوفی شاعر، حضرت سچل سرمست کی فکر و فلسفے کے بہت بڑے عاشق تھے، جس کا ذکر وہ اپنے کلام میں جابجا کرتے ہیں۔ مجھے یہ نہیں معلوم، کہ سندھ ہجرت کر کے آنے کے بعد ، سچل کے نواح (رانڑیپور) میں مستقل رہائش اختیار کرنے کی وجہ سے انہیں سچل سرمست کے ساتھ عشق ہوا یا سچل کے ساتھ رغبت کی وجہ سے انہوں نے رانڑیپور میں رہائش اختیار کی، مگر بہرحال سچل سرمست کے ساتھ ان کا پیار دیدنی تھا۔ رانڑیپور کے بعد بسلسلۂ روزگار ان کی رہائش سندھ کے مختلف شہروں میں رہی، جن میں سے ’سندھ کا پیرس‘ شکارپور بھی ہے، جہاں وہ گورنمنٹ ہائی سکول شکارپور میں مستقبل کے معماروں کی شعوری تعمیر میں اپنا کردار ادا کرتے رہے۔ جس کی وجہ سے شکارپور کو بھی اپنی ’ماں۔ دھرتی‘ کا درجہ دیا کرتے تھے۔ اس حد تک کہ انہوں نے ایک جگہ اپنی ایک نظم میں یہ تک کہا، کہ:

شکارپور نے مجھے ماں کے جیسا پیار دیا
شعور و فہم دیا، علم و اعتبار دیا

’آذر‘ صدیقی صاحب پیشے کے لحاظ سے سیکنڈری سکول استاد تھے اور شکارپور کی طرح سندھ کے متعدد شہروں کے ہائی سکولوں کے معلم اور انتظامی سربراہ بھی رہے، لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک قانون دان بھی تھے، جس پیشے کو انہوں نے محکمۂ تعلیم سے رٹائر ہونے کے بعد اپنا وسیلۂ روزگار بنایا۔ ان کا خاندانی نام، ’غلام حامد حیدر‘ تھا۔ ان کا سلسلۂ نسب، حمید اللہ گنوری کی معرفت اسلام کے خلیفۂ اول، حضرت ابوبکر صدیق رضہ سے متعلق بتایا جاتا ہے۔

’آذر‘ نے پرائمری سے ہائر سیکنڈری اسٹینڈرڈ تک کی تعلیم بدایون شہر ہی سے حاصل کی۔ جس کے بعد انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے بی۔ اے۔ کا امتحان پاس کیا۔ ان کا خاندان تقسیم ہند سے پہلے ہی ہجرت کر کے سندھ آ کر، تالپوروں کی خیرپور ریاست میں سکونت پذیر ہو چکا تھا، جہاں ان کے ماموں تالپوروں کے ملازم تھے۔ البتہ ’آذر‘ صاحب اپنے والدین کے ساتھ تقسیم ہند کے دو برس بعد 1949 ء میں سندھ پہنچے۔ یہاں آنے کے بعد کچھ عرصہ آذر صاحب کا تعلیمی سلسلہ منقطع رہا، لیکن قیام پاکستان کے بعد انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے انگریزی اور اردو ادب میں ایم۔

اے۔ اور اس کے بعد کراچی سے ’بی۔ ٹی۔‘ کی سند اور قانون کی ڈگری ’ایل۔ ایل۔ بی۔‘ حاصل کی اور اس کے بعد محکمۂ تعلیم میں استاد کے طور پر تعینات ہوئے۔ وہ سندھ کے مختلف شہروں میں استاد خواہ ہیڈ ماسٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے ساتھ ساتھ محکمۂ تعلیم میں انتظامی عہدوں پر بھی فائز رہے اور 1988 ء میں ”ڈپٹی ڈائریکٹر ایجوکیشن“ کی حیثیت سے رٹائر ہوئے، جس کے بعد انہوں نے سندھ ہائی کورٹ کراچی میں وکالت کی باقاعدہ مشق شروع کی۔ اسی روزگار کے سلسلے کے تحت انہوں نے اپنی عمر کے آخری چند برس کراچی میں گزارے۔

آذر نایاب صدیقی کا ادبی سفر ان کی نؤعمری ہی میں شروع ہو چکا تھا۔ وہ ابھی ہندوستان ہی میں تھے، کہ 1940 ء میں ابھی محض 12 برس کے لڑکپن میں ان کے دل کے اندر کہیں نہ کہیں چھپی، سخن کی تمنا نے انہیں، منشی تمنا حسین ’تمنا‘ بدایونی کی صحبت میں اردو کے ساتھ ساتھ فارسی میں شعر کہنے پر مجبور کیا اور یوں ان کی شعر گوئی کی شروعات ہوئی۔ صرف تمنا کے ساتھ رہنے کی تمنا ہی ان کے عشق سخن کی انتہا نہیں تھی، بلکہ وہ شعراء کے شہر ’بدایون‘ کے دو اور اہم سخن شناسوں، حافظ ظہور احمد ”اختر محوی“ بدایونی اور جام نوائی بدایونی سے بھی شاعری کی اصلاح لیتے رہے۔

سندھ تشریف لانے سے پہلے تک وہ صرف اردو اور فارسی ہی میں شعر موزوں کرتے رہے۔ انہوں نے سندھ کی طرف کوچ کر لینے کے بعد جس طرح سندھی بول چال اور تحریر سیکھی، ویسے ہی 1954 ء سے سندھی میں بھی کلام موزوں کرنا شروع کیا اور اس زمانے کے مقامی سطح پر منعقد ہونے والے طرحی خواہ غیر طرحی مشاعروں میں شرکت کا آغاز کیا، جس کے بعد ان کا مشاعروں میں شرکت کا یہ سلسلہ تا دیر جاری رہا۔ ساتھ ساتھ ان کے کلام کی اشاعت کا سلسلہ بھی جاری رہا۔

ان کا کلام، سندھی کے ساتھ ساتھ اردو کے کئی ادبی رسائل و جرائد میں شائع ہوتا رہا۔ آذر صدیقی کے سندھی کلام کا مجموعہ ”جھلکیوں“ (جھلکیاں ) کے عنوان سے اگست 1978 ء میں مہران پبلیکیشن سکھر کی جانب سے شائع کیا گیا۔ جس کے علاوہ 1979 ء میں ان کی دو انگریزی کتب بعنوان ”مہران لیٹر رائیٹنگ“ اور ”ماڈرن میتھڈس آف ٹیچنگ“ (جو ان کی تدریس کے شعبے کی پیشہ ورانہ تصنیفات ہیں ) بھی طبع ہوئیں، جو طلبہ و طالبات کے ساتھ ساتھ اساتذہ کی رہنمائی کے لئے کارآمد کتب سمجھی گئیں۔

انہوں نے ترجمے کے میدان میں بھی کچھ کامیاب تجربات کیے ، جن میں مسز ایلسا قاضی کی نثری منظومات کے رباعیات کے قالب میں منظوم سندھی تراجم اور شیخ ایاز کی کتاب ”جنم جنم جی جیت ایاز“ کا اردو ترجمہ بھی شامل ہے۔ ان کے غیر طبع شدہ مجموعہ جات میں دیگر امکانی مسودوں کے ساتھ ساتھ، اردو اور فارسی کلام کا مجموعہ بعنوان ”اصلاح سخن“ بھی شامل ہے۔

’آذر‘ اگرچہ سندھی غزل کے روایتی دور کے شاعر ہیں اور ان کا اظہار، سندھی سخن میں بھی فارسی جامے میں لپٹا ہوا ہے، مگر ان کے پاس جو موضوعاتی تنوع ہے، وہ انہیں روایتی دور کے شعراء میں بھی بہرحال ایک الگ تھلگ مقام دیتا ہے۔ سندھی غزل اور رباعی کے برجستہ شاعر، پروفیسر ڈاکٹر عطا محمد ”حامی“ کے آذر صاحب کی بابت کہے ہوئے (لکھے ہوئے ) یہ الفاظ، ’آذر‘ صدیقی کی شاعرانہ قامت کے حوالے سے کسی سند سے کم نہیں ہیں، کہ:

” ’آذر‘ غزل کے شاعر ہیں۔ ان کی غزل روایتی ہے، مگر اس میں آگے بڑھنے کے رجحانات بھی موجود ہیں۔ وہ عاشقانہ جذبات کی ترجمانی کے ساتھ ساتھ سیاسی، معاشی اور تہذیبی معاملات کی عکاسی بھی کرتے ہیں۔ ان کی غزل تضع اور تکلف سے پاک ہے۔ وہ جو کچھ لکھتے ہیں، وہ ان کے مشاہدے اور تجربے کی ترجمانی ہے۔ ان کے کلام میں حقیقت اور واقفیت پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ وہ مطلب کے مختصر الفاظ میں معٰنی کے دفتر بیان کر دیتے ہیں اور ’غم جانان‘ میں ’غم روزگار‘ سما کر اپنے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔ امید ہے کہ وہ سندھ کی ادبی تاریخ میں ایک نمایاں کردار پیش کریں گے۔“

’آذر‘ کے شعر میں توجہ موہ لینے والا یہ اظہار پڑھ کے دیکھیں :
کبھی راہ چلتے جو ”آذر“ ملا
پریشان و حیران و ششدر ملا
لب و رخ ملے، یا تو گل تر ملا
ہر اک نقش بہتر سے بہتر ملا
ایک غزل میں ”آذر“ کا یہ یکتا انداز ملاحظہ کیجیے :
جہان عشق کا یہ انقلاب ہے ساتھی!
کہ چشم حسن میں اشکوں کا آب ہے ساتھی!
کہ جس خمار پہ جمشید کو بھی رشک آئے،
نگاہ دوست میں ایسی شراب ہے ساتھی!
یہ دور خستہ و نازک ہے، اس زمانے میں،
قدم قدم پہ نیا انقلاب ہے ساتھی!
وہ خود ہی اپنے برابر، وہ خود ہی اپنی نظیر،
یہ شاہکار خدا، لاجواب ہے ساتھی!
کرم پسند ہے، جس کو کرم مبارک ہو!
کرم نما مجھے تیرا عتاب آ ساتھی!
غزل کی طرح رباعی جیسی اہم اور مشکل صنف میں بھی ان کا انداز بھرپور ہے :
مظلوم پر رحم کی نظر بھی ہوگی
دنیائے ستم زیر و زبر بھی ہوگی
جو وقت کٹھن ہے، وہ سہل بھی ہو گا
بعد از شب ظلمت کے، سحر بھی ہوگی

’آذر‘ کی شاعری پڑھتے ہوئے، مجھے اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ انہیں اپنی جائے پیدائش ’بدایون‘ سے بے حد پیار ہے۔ اس حد تک کہ کبھی کبھی وہ اسے بھٹ شاہ، درازا شریف اور سیوہن کے ساتھ بھی جا ملاتے ہیں اور ایسا اظہار کرتے ہیں، کہ بدایون کا شمار دنیا کی مقدس ترین زمین کے ٹکروں میں ہوتا ہے۔ ’آذر‘ کے کلام کو پڑھ کر یہ بھی احساس ہوتا ہے کہ انہیں اپنی اور اپنے کلام کی تابندگی اور ہمیشگی کا قوی یقین ہے۔ شاعروں کی اکثریت کی طرح وہ بھی حسن کے پجاری اور مہہ جبینوں کے مشتاق ہیں اور عشق بتان ان کے دل کی دولت ہے۔

18 برس قبل، 76 برس کی عمر میں، 2 اپریل 2004 ء کو سندھ کے دارالحکومت، کراچی میں بچھڑنے والے اس ماہر چہار زباں اور شاعر سہ زباں، ’آذر‘ نایاب صدیقی بدایونی کے بارے میں، میں یہ تو اندازہ نہیں لگا سکتا کہ ان کی شاعری کی عمر کتنی ہوگی اور وہ خواہ ان کا کلام کتنے عرصے تک سندھی ادب میں یاد رکھا جائے گا، یا ڈاکٹر حامی کی یہ امید کس قدر پوری ہوگی کہ ’وہ سندھ کی ادبی تاریخ میں ایک نمایاں کردار پیش کریں گے‘ ، مگر اتنا یقین ضرور ہے، کہ جہاں جہاں ان کا ’درد‘ شاعری بنا ہے اور اس نے ان کے دل میں بسے ہوئے عشق بتاں کو ’اوور لیپ‘ کیا ہے، ان کا وہ وہ سخن یادگار، دیرپا اور ہر دور کا پسندیدہ کلام بننے کی صلاحیت ضرور رکھتا ہے۔ اور ایسا ہی کلام ان کو سخن کی ہر داستاں کا ’عنوان‘ نہ سہی ’مذکور‘ ضرور بنا سکتا ہے۔

چراغ نور ہم بزم جہاں کے
ہم ہی عنوان ہیں ہر داستاں کے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments