روشن خیال پاکستان سے نیا پاکستان تک!


مشرف تشریف لائے، فرمایا! نواز شریف اور بے نظیر کی سیاست ختم ہو چکی ہے، اب یہ دوبارہ کبھی بھی پاکستان کی سیاست میں واپس نہیں آ سکیں گے، ایک رعب تھا، دبدبہ تھا، روشن خیالی کے خیالی پلاؤ کی ہانڈی چڑھا دی گئی تھی، چودھری برادران اور شیخ رشید جیسے درباری ہانڈی پکنے سے قبل ہی ذائقے کی تعریف میں زمین کو آسمان سے اور آسمان کو زمین سے ملا رہے تھے۔

مشرف کی آمد کو نوید سے انقلاب سے تعبیر کیا گیا، تھیوری یہی تھی جو آج ہے صرف الفاظ کا فرق ہے، یہ نیا پاکستان ہے وہ روشن خیال پاکستان تھا، وقت گزرا، موسم گزرے، کئی بہار اور کئی خزاں نے اپنے رنگ دکھائے، دس سال کم مدت نہیں ہے، لوگ منتظر تھے کہ ملک لوٹنے والے واپس نہیں آئیں گے، اب تو بس ایک انقلاب آئے گا جو روشن خیالی کا انقلاب ہو گا۔

دس سالہ دور آمریت نے اس ملک کو آگ اور خون میں نہلا دیا، امریکہ کی جنگ اپنی سرزمین پر لے آئے، امریکہ مخالف لوگوں کو ڈالر لے کر بیچتے رہے، بلوچستان میں نواب اکبر خان کو شہید کر کے ایک ایسے آتش فشاں کا منہ کھولا گیا جس سے ابھی تک شعلے بلند ہو رہے ہیں۔

ان دس سالوں میں یہ ملک بیس سال پیچھے چلا گیا، مسئلہ نواز شریف یا بے نظیر کی ذات سے نہیں تھا کہ انہیں کاؤنٹر کرنے کی پالیسی اختیار کی گئی، مسئلہ جمہوری سوچ سے تھا، کہ اس ملک میں لوگوں کو جمہوری سوچ کے خلاف بھڑکا دیا جائے، جمہوریت کی سوچ کو آگے بڑھانے والے سیاستدانوں کی ذات کو متنازعہ بنایا جائے تاکہ براہ راست جمہوریت سے نفرت لوگوں کے دلوں میں پیوست ہو سکے۔

آج مشرف کہاں کھڑے ہیں اور نواز شریف و پیپلز پارٹی کہاں ہیں، بے نظیر بھی واپس ہوئیں، پی پی پی کو اقتدار ملا، نواز شریف وزیراعظم بنے، جمہوری سوچ کو ختم کرنے والوں پر یہ زمین تنگ ہو گئی اور باہر کو سدھار گئے۔

2018 میں وہی تماشا لگانے کی کوشش کی گئی جو مشرف نے لگایا تھا، یہ نمونے لائے گئے اور اس بار بھی وہی اعلان کیا کہ زرداری، نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کی سیاست ختم ہو چکی ہے، سکریپ وہی تھا بس تحریر کی سیاہی کا رنگ تبدیل کیا گیا تھا اور اس اسکرین پر کھلاڑیوں کو جمہوریت کی یونیفارم پہنا دی گئی، اصل مقصد آمریت کی بقاء اور حقیقی سیاستدانوں کو ملکی سیاست سے بے دخل کرنے کا تھا، اس بار روشن خیالی کی جگہ نیا پاکستان کا نعرہ تخلیق ہوا، نئے پاکستان کی تشکیل میں جو خواب بنے گئے اور دکھائے گئے وہ لفظوں کا گورکھ دھندا تھے جس پر مکاری اور فریب کاری کی اس طرح کشیدہ کاری کی گئی تھی کہ عوام انہیں حقیقت جان کر نئے فن کاروں کو نجات دہندہ سمجھیں۔

” روشن خیال پاکستان“ میں اور ”نیا پاکستان“ میں ایک چیز قدرے مشترک تھی، وہ ہے پی پی، نواز لیگ جمعیت علماء اسلام سمیت ان تمام حقیقی سیاسی کرداروں کو سیاست سے بے دخل کرنا۔ جس کا فائدہ براہ راست آمریت کو جاتا ہے، ملک میں چالیس، پچاس سال سے فعال سیاسی کردار ادا کرنے والی سیاسی جماعتوں کو کنارہ کرنے کا صاف مطلب آمریت کے فروغ کے لیے راہ ہموار کرنا تھا، مگر یہ سیاسی جماعتیں پہلے سے زیادہ مضبوط و توانا ہو کر میدان میں کھڑی ہیں اور ان کی پذیرائی ماضی کے مقابلے کئی گنا بڑھ چکی اور عوام ماضی سے زیادہ ان کے قریب آچکے ہیں۔

روشن خیال پاکستان ہو یا نیا پاکستان، یہ دونوں تھیوریوں کی کوکھ ایک اور جنم بھومی مشترک ہے، لیکن آج دونوں نعرے منہ کے بل گر گئے ہیں، ایک نعرے کا جنازہ برسوں پہلے پڑھا گیا ہے، دوسرے کی صفیں درست کی جا رہی ہیں۔

جب سے یہ ملک بنا ہے اس میں آمریت اور جمہوریت کی کشمکش روز اول سے ہے، ایوب خان سے لے کر عمران خان تک، یہی کوشش رہی ہے کہ جس شکل میں بھی ہو، تسلط آمریت کا ہی ہو، اس ملک کے فیصلے دن کی روشنی میں نہیں رات کی تاریکی میں بنائے جائیں، پارلیمنٹ ایک پرشکوہ عمارت کی شکل میں تو کھڑی رہے لیکن اس کے وقار کو اس قدر مجروح کیا جائے کہ پارلیمنٹ خود سے بھی نظریں نہ ملا سکے۔

سارے حربے ناکام ہوچکے ہیں، عوام تھک چکے ہیں، نہ صرف تھک چکے ہیں بلکہ سمجھ چکے ہیں، ڈگڈگی کو بھی اور اس کے بجانے والے کو بھی سمجھ چکے ہیں، اس لیے جن جن سیاستدانوں کو گالی بنا کر پیش کیا گیا ان کی ایک آواز پر لاکھوں امڈ آتے ہیں، یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اس ملک میں جمہوریت کو ختم کرنا ممکن نہیں رہا ہے اس کے لیے نہ مزید کپتان جیسے نمونے تراشے جائیں اور نہ ہی اپنا اور قوم کا وقت برباد کیا جائے۔

رہی یہ بات کہ سیاستدانوں نے کرپشن کی ہے، ملک لوٹا ہے، قوم کے پیسے کھائے ہیں، تو اس کا احتساب بھی عوام کو ہی کرنے دیں، اس فیصلے کا حق بھی عوام کا ہے کہ وہ کسی ملک لوٹنے والوں سے کیسے نمٹتا ہے، ویسے بھی ملک دو لخت کرنے والوں کو ملک لوٹنے کے طعنے زیب نہیں دیتے، ملک لوٹنے کا ازالہ ممکن ہے، ملک ٹوٹنے کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔

عمران خان جمہوریت کے خاتمے کی آخری کوشش تھے، جو بری طرح ناکام ہوئے، منہ کے بل گر گئے اور اب اس کی چیخیں آسمان کو جا رہی ہیں، تاخیری حربے، لاکھوں لوگ جمع کرنے کی دھمکی، سازشی خط کا ڈھنڈورا، ناراض اراکین کو دھمکیاں، فواد چوہدریوں اور شیخ رشیدوں کی الٹی سیدھی حرکتیں۔ جیسے کوئی آسمان ان کے سر پر گر گیا ہو۔

اب اس ملک پر، یہاں کے عوام پر رحم کر کے مزید تجربے نہ کیے جائیں۔ یہ تسلیم کر لیا جائے کہ ملک کا مستقبل جمہوریت کے ساتھ وابستہ ہے اور جمہوری اقدار کی مضبوطی ہی استحکام کی ضمانت ہے، عوام نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے، اس فیصلے کو دل و جان سے تسلیم کر کے عوامی رائے کو ہی سپریم مان لیا جائے اسی میں سب کی بقاء ہے، اور اسی میں سب کا بھلا ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments