بیرون ملک پاکستانیوں کا عمران خان


آپ کے ہمارے سب کے کچھ رشتے دار بیرون ملک کسی نہ کسی طرح جا کر آباد ہو چکے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو اس طرح گئے ہیں کہ مر کر بھی واپس نہیں آ سکتے۔

باقی جو آتے جاتے ہیں۔ یہاں آتے ہی ان کو یہاں کا دانہ پانی سوٹ نہ کرنے کی بیماری لگ جاتی ہے۔ وہاں وہ دو نمبر شہری ہو نے کے باوجود ایک نمبر کی تمام سہولیات سے فائدہ اٹھا رہے ہوتے ہیں۔ جو ان کے نصیب میں آپ کی ہماری طرح یہاں رہتے ہوئے نہیں تھیں۔ وہاں بیٹھ کر ان کو پینڈو پاکستان بہت یاد آتا ہے۔ ناسٹیلجیا

کوئی تانگے کی آواز تو کوئی پھیری والے کی آواز ان کو بہت ستاتی ہے۔ آلو لے لو، گوبھی لے لو، بھنڈی لے لو۔ وہ سب مڈل کلاسیے یہ سریلی دھن سننے کو ترس جاتے ہیں۔ اور اپنی سالانہ چھٹیوں کے پلان میں پنڈ پاکستان آ نے کے خواب بنتے ہیں۔

لیکن ہو تا کچھ یوں ہے کہ جب یہ برسوں بعد اس ملک کے ائر پورٹ پہ اترتے ہیں۔ خصوصی پنجاب اور اسلام آباد ان کی آنکھیں کھلی رہ جاتی ہیں۔ ”ہائے پینڈو پاکستان نے اتنی ترقی کیسے کر لے، تانگے کہاں گئے۔ وہ رکشے پھوں پھوں کرتے ہوئے کیوں نہیں اچھل کود رہے۔ ہائے یہ شاپنگ مالز یہ پلازے تو کم بخت پینڈو پاکستان نے بھی بنا لئے ہیں۔ ہم ان کو کیا بتائیں۔

بھئی پاکستان آ کر کوئی ڈالر شالر کی شو شا بھی تو مارنی ہوتی ہے۔ کوئی وہاں کی لمبی لمبی سڑکوں اور پلازوں کا رعب شعب بھی ڈالنا ہو تا ہے۔ اور کچھ اپنی پرانی مٹی کی یاد بھی تب ہی لطف دیتی ہے۔ جب یہ گندی مندی سی لگے۔ جیسا یہ سب چھوڑ کر گئے تھے۔

عین عمران خان ان کو اسی لئے پسند ہے کہ اس نے تین سالوں میں اس ملک تو وہی تانگے ریڑھے والا پاکستان بنا دیا ہے۔ تاکہ بیرون ملک پاکستانی جب بھی پاکستان آئیں اسے اپنا ہی ملک سمجھیں۔

اب بیرون ملک پاکستانیوں کا جو کام ایک ڈالر میں ہو جاتا ہے۔ وہ کیوں چاہیں گے کہ وہ تین ڈالر میں ہو۔ لہذا ان کا خیال کرتے ہوئے ڈالر کو بھی ان کی جیب کے مطابق لانا ان کے لیڈر کا کام ہے۔ جو اس نے کیا۔ خیرات ہدیہ صدقہ جو یہ بیرون ملک پاکستانی نکالتے ہیں۔ ملک میں غریب رشتے داروں کو ہی بھیجتے ہیں۔ ان کے مشکل وقت میں چند ڈالری رقم بھیجتے ہیں۔ ان کی غریب بیٹیوں کی شادی کروا کر یہ خود کو دینے والا ہاتھ ثابت کرنے کی ہر ممکن سعی کرتے ہیں

ساتھ دو چار پینڈوؤں کو سنا بھی دیتے ہیں کہ یہاں ہتک عزت کا دعوی دائر نہیں ہو سکتا۔ کوئی ”سو“ نہیں کر سکتا۔ یہ بیچارے خود کو لیڈر لیڈر سمجھنے لگتے ہیں۔

بس یہ سعی نہیں کرتے کہ وطن واپس آ کر رہنا شروع کر دیں۔ نہ یہ سعی کرتے ہیں کہ یہاں کے غریب رشتے داروں کو وہاں بلا کر سیٹ کروا دیں۔ ان کو وہاں بلا کر پڑھا دیں۔ یا اپنے بچوں کو اس ملک کی صورت مبارک دیکھا دیں۔ کیونکہ انہیں علم ہے سب سے پہلے ان کے بچے ہی ان کو تھرڈ ورلڈ کنٹری کے شہری ہو نے کا طعنہ ماریں گے۔

یار پیارے بیرون ملک پاکستانیوں، ہم سمجھتے ہیں تمہارے دکھ اور ہیں۔ مگر محبت لفظوں کا نام نہیں ہے یہ عمل ہے۔ جیسا یہ خان باتوں کا بتنگڑ ویسے آپ آہوں سسکیوں کے ڈرامے نہ کریں۔

آپ اگر اللہ کو مانتے ہیں تو یہ مت کہیں کہ پاکستان کیسے چلے گا؟ اب تک کا سیاسی اور بیرون ملک پاکستانیوں کا ڈرامہ بتا رہا ہے کہ آپ بھی شخصیت پرست ہیں۔ ابھی آپ کے اندر کا بھی پرانا پاکستانی زندہ ہے۔ اور آپ کا یقین قدرت پہ نہیں ہے۔ فطرت پہ نہیں ہے۔ اب تو خیر عین سے عمران خان کی جان کو خطرہ ہے۔ اول تو ایسا کچھ ہے نہیں۔ اور اگر یہ بات پوری ہو گئی تو؟

کیا ستر سال سے یہ چلا رہے تھے پاکستان؟

جب انسان سٹھیا جاتا ہے تو ایسی ہی باتیں کرتا ہے۔ کبھی آپ نے غور کیا موت کے فرشتے آنے جانے لگیں تو انسان غیرفطری باتیں کرنے لگتا ہے۔ لیکن اس سب کو سمجھنے کے لئے ایک خاص سمجھ بوجھ کی ضرورت ہے۔ جو خاص لوگوں کو ہی سمجھ آ رہی ہے

پیارے پیارے بیرون ملک پاکستانیوں آپ جہاں رہ رہے ہیں اس انسان کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں کم از کم برطانیہ میں کسی پاکستانی میئر کی آسامی ان کو مل جائے گی۔ یوں اولاد کو بھی باپ کی شفقت مل جائے گیا۔

ویسے میراثی کی اولاد سے ہم توقع کرتے ہیں کہ اس جیسی ہی ہو۔ عالم کی اولاد عالم بن جائے، اداکار کی اولاد ادا کاری کرنے لگے۔ گائیک کی اولاد گلوکار بن جائے سب جائز ہے اور ہم فخر سے کہتے ہیں کہ خاندانی کام ہے۔ عین سے عمران خان کے پاس تو وراثت میں بھی کچھ چھوڑنے کو نہیں بچا۔ اور حسد میں وہ الٹی گنتی گن رہے ہیں۔

پیارے بیرون ملک پاکستانیوں ہم نہیں کہہ رہے کہ آپ یہاں آئیں بس آپ اپنا ایک بندا جو یہاں چھوڑ چکے ہیں۔ ساتھ لے جائیں۔ اور ملک کو رب کے حوالے کر دیں۔ بائیس سال کی محنت کم نہیں ہوتی۔ وہاں بھی یہ ریاضت کام آ جائے گی۔ ان کو وہاں اپنا نمائندہ منتخب کر کے الیکشن کے حوالے کر دیجئے گا۔ اور جب یہ مسلط ہو جائیں تو بتائیے گا آپ پہ کیا بیت رہی ہے۔

ہم نے تو آج تین سال بعد شہر میں پہلے جیسی روایتی انسانی رونق دیکھی ہے۔ نالہ لئی نہیں کچھ اور منحوس ہے۔ لیکن کرونا کا خوف آج انسانوں کے چہروں پہ نہیں تھا۔ تین سال بعد جی۔ پورے تین سال بعد

دل دکھ گیا تو معذرت ہمارا تین سال سے دکھ رہا ہے۔ کہ مغرب کا نمائندہ مشرق میں تیتر بٹیر بیج رہا ہے
آلو لے لو، گوبھی لے لو، بھنڈی لے لو،  کی آوازیں ہم روز اپ لوڈ کر دیں گے۔ روز ایک سپیس بھی جاری کر دیا کریں گے۔ آپ بھی رو لیجیے گا ہم بھی رو لیں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments