پیروں تلے نوٹ روندنے والے کو ایک محنت کش کی نصیحت


ہم لاہور سے واپس اپنے گھر جا رہے تھے۔ راستے میں ہم چائے پینے کے لئے ایک کھوکھے پر رک گئے۔ یہ غریبانہ چائے خانہ تھا۔ آپ کو عموماً اس قسم کے چائے خانے سڑکوں کے کنارے، اندرون شہر کی گلیوں، محلوں، چوکوں، بازاروں، منڈیوں اور بسوں اور ٹرکوں کے اڈوں پر ملتے ہیں۔ یہ گندے اور بے ترتیب چائے خانے ہوتے ہیں لیکن ان کی چائے، ان کی دودھ پتی مثالی ہوتی ہے۔ لوگوں کو ان کی باقاعدہ لت لگ جاتی ہے۔ لوگ سارا سارا دن یہاں گزار دیتے ہیں۔

یہ نہ آئیں تو ان کے آرڈر آتے رہتے ہیں اور چائے خانے کا چھوٹا پورا دن انہیں چائے سپلائی کرتا رہتا ہے۔ خیر ہمارا موضوع جی ٹی روڈ کا وہ کھوکھا ہے جس پر ہم لوگ چائے کے لئے رک گئے تھے۔ ہم چائے پینے کے لئے کھوکھے پر رک گئے۔ چائے خانہ گندا تھا۔ اندر دھول تھی۔ دھواں بھی تھا۔ گرمی بھی اور بو بھی لیکن ہم اس کے باوجود وہاں رک گے۔ ہم دو لوگ تھے۔ ہم نے چائے منگوائی اور بیٹھ کر انتظار کرنے لگے۔ گرمی اور حبس تھا۔

ہمیں پسینہ آ رہا تھا۔ میں نے ٹشو پیپر نکالنے کے لئے جیب میں ہاتھ ڈالا، ٹشو پیپر نکالا اور چہرہ صاف کرنے لگا۔ ٹشو پیپر نکالتے ہوئے پچاس روپے کا ایک نوٹ میری جیب سے نکل کر فرش پر گر گیا۔ میں نوٹ کے نکلنے اور گرنے سے واقف نہیں تھا۔ یہ نوٹ اڑ کر میرے پاؤں کے قریب پہنچ گیا۔ میں نے نادانستگی میں نوٹ پر پاؤں رکھ دیا۔ دور کونے میں درمیانی عمر کا ایک مزدور بیٹھا تھا۔ وہ تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا، بھاگتا ہوا میرے پاس آیا، زمین پر بیٹھ کر میرا پاؤں ہٹایا اور نوٹ اٹھایا پھر نوٹ کو سینے پر رگڑ کر صاف کیا، نوٹ کو چوما، آنکھوں کے ساتھ لگایا اور دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مجھے واپس کر دیا۔

ہم دونوں اس حرکت پر حیران بھی تھے اور پریشان بھی۔ ہماری جیبوں سے عموماً نوٹ گر جاتے ہیں۔ دیکھنے والے ان کی نشاندہی کرتے ہیں اور ہم نوٹ اٹھا کر دوبارہ جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ لیکن ہم نے زندگی میں کوئی ایسا پاگل نہیں دیکھا تھا جو فرش پر گرے ہوئے نوٹ کے لئے تڑپ کر اپنی جگہ سے اٹھا ہو۔ فرش پر بیٹھا ہو، اس نے نوٹ اٹھا کر اپنے سینے سے صاف کیا ہو، پچاس روپے کے معمولی سے نوٹ کو چوما ہو، آنکھوں سے لگایا ہو اور کسی مقدس ورق کی طرح دونوں ہاتھوں میں رکھ کر مالک کے حوالے کیا ہو۔

یہ یقیناً حیرت کی بات تھی اور ہم دونوں اس وقت حیران تھے۔ میں نے اسے اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ اس کے لئے بھی چائے کا آرڈر دیا اور اس سے اس تڑپ اور اس عقیدت کی وجہ سے پوچھی۔ وہ مزدور تھا مگر وہ سدا کا مزدور نہیں تھا۔ وہ بیس سال قبل شہر کے رئیس لوگوں میں شمار ہوتا تھا۔ اس کا والد شہر کے چار بڑے تاجروں میں شامل تھا۔ یہ اس کی واحد نرینہ اولاد تھا۔ یہ ناز و نعم میں پلا تھا۔ گاڑی تھی، بینک بیلنس تھا، جوانی تھی اور ماں باپ کی اندھی محبت تھی۔ یہ چاروں چیزیں جہاں جمع ہوتی ہیں وہاں بگاڑ ضرور پیدا ہوتا ہے۔ یہ بھی بگڑ گیا اور اس کی صحبت خراب ہو گئی۔ یہ شراب، کباب اور شباب کی لت میں مبتلا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا؟ یہ آپ اس کی زبانی سنیے۔

میں جوان تھا، امیر تھا اور ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ مجھے برے لوگوں نے گھیر لیا۔ میری صحبت خراب ہو گئی۔ میرے والد کو معلوم ہوا تو انہوں نے مجھے سمجھانا شروع کیا۔

مگر انسان کی زندگی میں جب جوانی، شراب اور دولت تین نشے جمع ہو جائیں تو اس کی عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں۔ یہ سمجھنے، سمجھانے کی حد کراس کر جاتا ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا۔ میں نے والد کی بات سننے اور ماننے سے انکار کر دیا۔ میری خرابی نے میرے والد کو روگ لگا دیا۔ وہ اس روگ میں چل بسے، مجھے ساری زمین، جائیداد اور بینک بیلنس مل گیا۔ میں والد کے انتقال پر اداس ہونے کی بجائے دولت ملنے پر خوش تھا۔ میں نے اپنی ماں اور بہنوں کو چھوٹے سے مکان میں شفٹ کیا۔

ان کا ماہانہ خرچ طے کیا اور والد کی حق حلال کی دولت کو انجوائے کرنے لگا۔ میں نے اپنے گھر کو رقص گاہ بنا لیا۔ میں اور میرے دوست روز طوائفوں کو گھر لاتے، ساری رات مجرا کراتے، شراب پیتے اور شراب کے نشے میں طوائفوں پر نوٹ نچھاور کرتے، ہم طوائفوں کو حکم دیتے تھے۔ ہم ان پر جو نوٹ نچھاور کریں گے وہ یہ نوٹ صبح تک فرش سے نہیں اٹھائیں گی۔ وہ ان نوٹوں پر ناچتی رہیں گی۔ مجھے دراصل فرش پر نوٹوں کا قالین اور اس قالین پر ناچتے تھرکتے ہوئے گورے گلابی پاؤں اچھے لگتے تھے۔ چنانچہ میری محفل میں ساری رات نوٹ نچھاور ہوتے تھے اور طوائفیں ان نوٹوں پر ناچتی تھیں۔

یہ کام مہینوں جاری رہا۔ میری عادت، میری حالت سے پورا شہر واقف ہو گیا۔ میرے والد کے ایک دوست کو اطلاع ہوئی تو وہ ایک روز میرے پاس آیا۔ اس نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور کہا، ”بیٹا تمہارے والد لوگوں سے کہا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ جب کسی سے خوش ہوتا ہے تو یہ اسے دولت سے نوازتا ہے، پھر صحت دیتا ہے، پھر اولاد عنایت کرتا ہے اور آخر میں اچھے دوست دیتا ہے۔ تمہارے والد کہا کرتے تھے، دولت ایمان کے بعد اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہوتی ہے۔

لوگوں کی نسلیں اسی نعمت کی دعا کرتے کرتے قبرستان پہنچ جاتی ہیں۔ اللہ بہت کم لوگوں پر خوشحالی کے دروازے کھولتا ہے لیکن جب اللہ کے بندے نوٹوں کو پاؤں میں روندتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ناراض ہو جاتا ہے اور یہ دولت کی ناقدری کرنے والوں سے ایمان بھی چھین لیتا ہے، عقل بھی، صحت بھی اور اچھے دوست بھی۔ والد کے دوست کا کہنا تھا“ ۔

تم نوٹوں کو طوائفوں کے قدموں میں نچھاور کر کے اللہ کی بڑی نعمت کی توہین کر رہے ہو۔ تم تباہ ہو جاؤ گے۔ تم سنبھل جاؤ لیکن میں اس وقت نشے کے گھوڑے پر سوار تھا۔ میں نے ان کو یہ کہہ کر روانہ کر دیا ”آپ مجھے میرے حال پر چھوڑ دیں۔ آپ اپنے بچوں پر توجہ دیں۔ یہ روز لوگوں کے گریبان پھاڑتے ہیں“ ۔ وہ چلے گئے، میں نے اپنا معمول جاری رکھا۔ میں اور میرے دوست طوائفوں کے قدموں میں نوٹ نچھاور کرتے رہے۔ ایک دن اس غرور کا نتیجہ نکل آیا۔ میں نے نشے کے عالم میں گولی چلا دی اور ایک طوائف ماری گئی۔ کیس بنا میں سزا سے بچ گیا لیکن میرا سب کچھ چلا گیا اور میں اب فیکٹری میں مزدوری کرتا ہوں۔

وہ رک گیا اس نے لمبی سانس لی اور بولا ”میں جب بھی کسی نوٹ کو کسی پاؤں میں گرا ہوا دیکھتا ہوں تو میں تڑپ اٹھتا ہوں، میں نوٹ کو اٹھا کر صاف کرتا ہوں، ہونٹوں اور آنکھوں کے ساتھ لگاتا ہوں اور مالک کو واپس کر دیتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں دنیا کا جو بھی شخص نوٹ کو پاؤں میں روندتا ہے یا روندتا ہوا دیکھ کر خاموش رہتا ہے وہ تباہ ہو کر رہ جاتا ہے“ ۔

اس نے ایک اور لمبی آہ کھینچی اور بولا ”بیٹا یہ بات پلے باندھ لیں مجرا کرانے والا کوئی شخص امیر نہیں رہ سکتا۔ یہ تباہ و برباد ہو جاتا ہے۔ کیونکہ یہ اللہ کی نعمت کو گندی عورتوں کے قدموں میں روندتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اپنی نعمت کی یہ تذلیل برداشت نہیں کرتی“ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments