ہاشم شاہ ایک درویش صفت پنجابی شاعر (1)


سید محمد ہاشم شاہ جسے عام طور پر ہاشم شاہ ( 1735۔ 1843 ) کے نام سے جانا جاتا ہے، ضلع امرتسر کی تحصیل اجنالہ کے سب سے بڑے گاؤں جگدیو کلاں میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے پنجابی، فارسی، ہندی اور اردو میں لکھا۔ ان کی پنجابی شاعری میں قصہ ( سسی پنوں۔ سوہنی مہینوال۔ ہیر رانجھا اور شیریں فرہاد) ، ڈیوڑھی، سی حرفیاں، مناجات، دیودھن، منجھے اسرار (سی حرفیاں ) اور بارہ ماہ شامل ہیں۔ ہاشم شاہ نے حکمت، لوگوں کی روحانی تربیت، مشاورت اور پیری مریدی کی خاندانی روایت کی پیروی کی۔ انہوں نے اپنی زندگی گزارنے کے لئے بڑھئی کا پیشہ اپنایا۔ بڑھئی کا پیشہ انہوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ اور اس کے درباریوں کی سرپرستی کرنے پر چھوڑ دیا۔ انہوں نے بعد کی زندگی روحانی محاصل اور صوفی شاعری کی تخلیق کے لئے وقف کر دی (وکی پیڈیا )

ہاشم شاہ ایک سیدھے سادھے صوفی شاعر تھے، جنہیں ولایت یا فقیری کا کوئی دعوی نہیں تھا اس لئے دیگر پنجابی صوفی شعرا کی طرح ان کے حالات زندگی کے بارے میں زیادہ کچھ نہیں لکھا گیا۔ مختلف تذکرہ نگاروں نے بغیر تحقیق کے بہت سی ایسی باتیں ان کے متعلق لکھی ہیں جن میں بہت سا اختلاف پایا جاتا ہے اس لئے بہت ساری متنازعہ باتیں اس مضمون میں شامل نہیں کی گئی ہیں۔

آپ کا پورا نام سید محمد ہاشم شاہ تھا۔ آپ 1735 ء بمطابق 1148 ہجری میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپ حاجی محمد شریف کے سب سے بڑے بیٹے تھے۔ ان کے والد حاجی محمد شریف ایک لمبا عرصہ مدینہ شریف میں قیام پذیر رہے۔ اس دوران انہیں متعدد بار حج بیت اللہ کا شرف حاصل ہوا۔ اپنے مرشد کی ہدایت پر آپ نے دین کی تبلیغ کے لئے ہندوستان ہجرت کرنے کا قصد کیا تو اس وقت ہاشم شاہ کی عمر چار سال تھی۔ حاجی محمد شریف ہجرت کے بعد ہندوستان میں آ کر امرتسر کے موضع جگدیو کلاں میں قیام پذیر ہوئے۔ آپ نے یہاں دین کی تبلیغ کے ساتھ ساتھ درس و تدریس کا کام شروع کیا۔ وہ ایک بہت اچھے طبیب بھی تھے اس لئے درس و تدریس کے علاوہ انہوں نے لوگوں کا علاج معالجہ بھی شروع کیا۔

ہاشم شاہ نے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے گھر میں ہی حاصل کی۔ آپ اپنے والد کے ہاتھ بیعت کر کے ان کے مرید ہوئے اور دینی اور دنیاوی علوم ان سے ہی حاصل کیے۔ آپ نے چودہ برس کی عمر میں ہی عربی اور فارسی پر عبور حاصل کر لیا تھا۔ اس کے علاوہ پنجابی، اردو، سنسکرت، جوتش اور حکمت میں بھی آپ نے کافی مہارت حاصل کر لی تھی۔ آپ کی شادی آپ کے والد محترم نے اپنے ایک رشتہ دار کی بیٹی سے کردی تھی جو ان کے ساتھ ہی عرب سے ہندوستان تشریف لائے تھے۔

ان کی زوجہ محترمہ کا ذکر بہت کم ملتا ہے البتہ کچھ مقامات پر ان کو مائی صاحبہ کے نام سے یاد کیا گیا ہے۔ آپ کے دو بیٹے تھے۔ ان میں سے ایک احمد شاہ تھے جن کا انتقال انتیس برس کی عمر میں ہو گیا تھا۔ دوسرے بیٹے پیر محمد شاہ تھے جن کا انتقال ان کی وفات کے بعد 1860 ء میں ہوا۔ پیری مریدی ان کا خانقاہی اور خاندانی کام تھا ان کے مریدین کی بہت بڑی تعداد تھی۔ حکمت ہاشم شاہ کو اپنے والد محترم سے ورثے میں ملی تھی۔

آپ بھی اپنے والد محترم کی طرح ایک بہت اچھے طبیب تھے قدرت نے ان کے ہاتھ میں بہت شفا رکھی تھی۔ ان کی صوفیانہ اور عشقیہ شاعری خاص و عام میں بہت مقبول اور محبوب تھی۔ انگنت لوگ آپ کے مرید تھے۔ فقیری طبیعت، حکمت اور پنجابی شاعری کی وجہ سے ان کی مقبولیت اپنے والد محترم سے بھی بڑھ گئی تھی۔ دور دور سے عقیدت مند ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہونے کے لئے آپ کے پاس حاضر ہوتے تھے جن میں مسلمان، ہندو اور سکھ سب شامل تھے۔ آپ کی وفات 1843 ء بمطابق 1259 ہجری میں ایک سو گیارہ سال کی عمر میں جگدیو کلاں میں ہوئی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کی میت لکڑی کے صندوق میں بند کر کے تھرپال تحصیل نارووال میں لائی گئی جہاں آپ کی تدفین کی گئی۔ ہر سال مئی میں ان کا عرس منایا جاتا ہے۔

ہاشم شاہ اپنے والد کے مرید تو تھے ہی لیکن آپ غوث الاعظم عبدالقادر جیلانی کو اپنا مرشد مانتے تھے جن کی شان میں انہوں نے بہت سی مناجات لکھی ہیں۔

بہت سے محققین اور پنجابی تذکرہ نگاروں نے سید ہاشم شاہ کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کا درباری شاعر بتایا ہے۔ لیکن شفیع عقیل اپنی کتاب ً پنجابی کے پانچ قدیم شاعر ً میں لکھتے ہیں کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ کی مدح سرائی میں جو اشعار ہاشم شاہ سے منسوب ہیں راقم الحروف کی رائے میں وہ اشعار قطعی من گھڑت معلوم ہوتے ہیں اور ہاشم شاہ کا ان سے دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ جہاں تک ہاشم شاہ کے مہاراجہ رنجیت سنگھ کے درباری شاعر ہونے کا تعلق ہے ڈاکٹر لاجوتنی کرشن نے اس کی پرزور تردید کی ہے۔ وہ لکھتی ہیں کہ جس شاعر نے اپنے زمانے کے بادشاہوں کے بارے میں اتنی سخت اور سچ باتیں لکھی ہوں وہ بھلا درباری شاعر کیسے ہو سکتا ہے۔

لیکن یہ حقیقت ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے ہاشم شاہ اور ان کے بھائی رحمت شاہ کو جگدیو اور تھرپال میں زمینیں اور کنویں دیے تھے اور انہیں معاملہ سرکار برائے خدمت خانقاہ حاجی محمد شریف معافی دی تھی۔ اس سلسلے میں راقم کا موقف ہے کہ ہاشم شاہ، ان کے بھائی رحمت شاہ اور ان کے والد گرامی کی علاقہ میں بہت عزت و احترام اور عوام کی خدمت کا جذبہ دیکھتے ہوئے ان کے فقر، طبابت، مذہبی خدمات اور بزرگی کو مد نظر رکھتے ہوئے زمین ان کے نام کر دی ہو گی تا کہ وہ کسی کے محتاج نہ ہوں۔ راقم کے جد امجد بھی جب سترویں صدی عیسوی میں کھڑی میں تشریف لائے تو یہاں کے مسلمان بادشاہ نے ان کی بزرگی، فقر اور دین کی خدمت کو دیکھتے ہوئے انہیں یہاں مستقل قیام کی درخواست کی اور پچیس ایکڑ زمین ان کے نام کر دی تاکہ وہ کسی کے زیر بار نہ ہوں اور اپنا گزارہ اس زمین سے کر سکیں۔

ہاشم شاہ اپنے فقر، پنجابی شاعری اور طبابت کی وجہ سے اپنے عہد کی ایک مقتدر شخصیت تھے۔ آپ نے پنجابی زبان کے علاوہ فارسی اور ہندی میں بھی بہت سی کتابیں تصنیف کیں لیکن ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب ان کی پنجابی شاعری ہی بنی۔ پنجابی کلام میں بھی آپ کا منظوم کردہ قصہ سسی پنوں اور آپ کے دوہڑے زیادہ مقبول ہوئے۔

ہاشم شاہ کی پنجابی شاعری پر بات کرتے ہوئے شفیع عقیل لکھتے ہیں کہ ان کی مثنویوں اور دوہوں میں کوئی خاص اور نمایاں فرق دکھائی نہیں دیتا۔ وہ پنجابی کے علاوہ ہندی اور فارسی زبان پر بھی عبور رکھتے تھے اس لئے ان کے پاس ذخیرہ الفاظ محدود نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ضرورت اور مواقع پر انہیں الفاظ ڈھونڈنے نہیں پڑے۔ پروفیسر ہرنام سنگھ شان کہتے ہیں کہ ہاشم شاہ کی شاعری کی زبان ٹھیٹھ پنجابی ہے جس کی روح خالص دیسی ہے۔ انہوں نے فارسی اور ہندی کے الفاظ اس خوبصورتی اور مہارت سے اپنی پنجابی شاعری میں استعمال کیے ہیں کہ ان میں پنجابی زبان کی روح سما گئی ہے۔

آپ کی پنجابی تصانیف میں سسی پنوں، شیریں فرہاد، ہیر رانجھا، سوہنی مہینوال کے علاوہ آپ کے دوہڑے اور سی حرفیاں شامل ہیں۔ سسی پنوں آپ کی سب سے مقبول اور مشہور تصنیف ہے۔ اس قصہ میں 127 سی حرفیاں ہیں اسی طرح سوہنی مہینوال میں 151 سی حرفیاں ہیں۔ آپ نے اپنے سب قصوں کا آغاز اللہ تعالی کی حمد و ثنا سے کیا ہے۔

ہاشم شاہ کے بعد آنے والے دوسرے بہت سے پنجابی شعرا اور میاں محمد بخش ؒ نے قصہ منظوم کرتے وقت اسی اسلوب کو اپنایا۔ آپ کا منظوم کیا گیا قصہ ًشیریں فرہاد ً 573 اشعار پر مشتمل ہے۔ یہ قصہ آپ کے منظوم کردہ دوسرے سب قصوں سے لمبا ہے

( ایسے سجن جو آپ سے آنکھیں ملا کر پھر آپ سے آنکھیں نہ چرائیں وہ بہت مشکل اور سبب سے ملتے ہیں۔ ایسے سجن ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتے اور نہ ہی لاکھوں میں انہیں خریدا جا سکتا ہے وہ بہت ہی انمول ہوتے ہیں۔ وہ اپنے اندر ایک دیوانگی چھپائے رکھتے ہیں۔ ان کے اندر عشق کی ایک آگ جل رہی ہوتی ہے جس کو وہ تنکوں کے ڈھیر میں چھپائے پھرتے ہیں۔ اے ہاشم تم اس بھید کو جانتے ہو تو ان کی پہچان کو سب سے چھپا کر اپنے دل میں رکھو۔ اس راز کو سب پر آشکارہ نہ کرو۔ )

(ہاشم شاہ کی شاعری کے کچھ اور رنگ اگلی قسط میں پڑھئے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments