آپ خوددار نہیں خوار و زبوں اور شرمسار ہیں


ایک خود پسند، ضدی، ہٹ دھرم اور نرگسیت کے مارے شخص کا مانگے تانگے کے اقتدار کا سورج جلد ہی غروب ہونے والا ہے۔ غیر مرئی طاقتوں کے بل بوتے پر ملک پر یلغار کرنے والے ٹولے کا سر غنہ سر پر خاک ڈالے، آنکھوں میں انگارے لیے، زبان سے چنگاریاں اور لہجے سے آگ برساتے ہوئے نیم دیوانگی کے انداز میں وحشت زدہ پھر رہا ہے۔ بیالیس ماہ تک مسند اقتدار پر رہ کر سیاہ و سفید کا مالک رہا۔ دیوتاوٴں اور بت گروں کا مکمل تعاون رہا۔ اپنی ٹیم کے انتخاب میں اتنا با اختیار کہ ایک ہی عہدے پر چھ چھ بندوں کو تبدیل کرتا رہا۔

ایک پیج والے کندھے سے کندھا ملا کر ملا نکھٹو، نا اہل اور بے تدبیر شخص کو مسلسل برداشت کرتے اور اس کی حرکتوں اور باتوں کو نظر انداز کرتے رہے۔ فکری تضاد کا مارا شخص کبھی ریاست مدینہ، کبھی انقلاب ایران، کبھی چینی ماڈل، کبھی امریکی سسٹم اور کبھی برطانوی نظام کی بھول بھلیوں میں بھٹکتا رہا اور آخر میں ملک و قوم کو کربلا میں چھوڑ کر جا رہا ہے۔

آپ اس شخص کی بے بسی، بیچارگی، درماندگی اور افتادگی کا اندازہ اس بات سے لگا لیجیے کہ اقتدار سے نکلتے وقت اس کے پاس عوام کو بیچنے کے لیے خودداری، عزت نفس اور غیرت مندی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ یہ شخص اور اس کی ٹیم نا اہل بھی تھے۔ یعنی جو کام ان کے ذمے لگایا گیا اسے کرنے کی اہلیت ہی نہیں تھی۔ نالائق بھی تھے۔ مطلب کام کرتے ہوئے اسے اکثر خراب کر دیتے تھے۔ گفتار کے غازی اور ہر کام بطریق احسن انجام دینے کے دعویدار بھی تھے اور انتہائی درجے کے بد زبان، بد کلام اور لغو گو بھی تھے۔ عمران خان نے بیالیس ماہ میں ملک کو ہر اعتبار سے ڈبو دیا مگر روزانہ بے مغز اور بے ربط خطاب کر کے عوام کی سمع خراشی ضرور کرتے رہے۔

اب شکست فاش یقینی نظر آ رہی ہے تو ایک مبینہ سازشی ”خطری“ خط لہراتے ہوئے عوام میں پہنچ گئے اور خودداری اور خودمختاری کا منجن بیچ کر اپنی گرتی ساکھ کو بحال کرنے کی نڈھال سی کوشش کرنے لگے۔ آج کل وہ بہت غیرت مند، خرد مند، دانشمند، خوددار اور مرد قلندر بن کر ”سامراجی“ طاقتوں کے خلاف شعلہ نوائی فرما رہے ہیں مگر بدقسمتی سے اس حوالے سے بھی ان کا دامن خالی ہے۔ اگر وہ اتنے ہی خوددار اور آزاد منش ہوتے تو اپنے دورۂ امریکہ کے دوران کشمیر پلیٹ میں رکھ کر مودی کو پیش نہ کرتے اور واپسی پر یہ نہ کہتے کہ آج ایک بار پھر میں ورلڈ کپ جیت کر آیا ہوں۔

وہ خوددار اور خود مختار ہوتے تو ”سامراج“ کے مالیاتی ادارے کے شکنجوں میں ملک کو پھنسانے سے پہلے اپنے وعدے کے مطابق خود کشی کر لیتے۔

اگر وہ خوددار اور مرد خود آگاہ ہوتے تو درجنوں سامراجی طاقتوں کے شہریوں کو اپنی کابینہ کا حصہ نہ بناتے۔

اگر وہ خود مختار اور درویش منش انسان ہوتے تو مودی کے الیکشن جیتنے کی دعائیں اور تمنائیں نہ کرتے۔
وہ خوددار ہوتے تو پنجاب کے سب سے بڑے ”ڈاکو“ اور ”چپڑاسی“ کو اپنی حکومت میں شامل نہ کرتے۔
وہ خوددار اور خود شناس ہوتے تو اپنے مرکزی بینک کو ”عالمی“ طاقتوں کے حوالے نہ کرتے۔

وہ اتنے ہی خوددار اور عزت نفس کے حامل ہوتے تو امپائر کے آوٴٹ دیے جانے کے بعد بھی پچ پر لیٹ کر دوسری باری کی ضد نہ کرتے۔

وہ خوددار ہوتے تو کلبھوشن کے وکیل نہیں کشمیر کے سفیر بنتے۔
وہ خوددار ہوتے تو جو بائیڈن کی ایک فون کال کے لیے مرے نہ جاتے۔
وہ خوددار ہوتے تو نواز کے ”یار“ مودی کو مس کالیں نہ کرتے۔
آپ خوددار ہوتے تو عرب ملکوں کے حکم پر ملائیشیا میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت سے انکار نہ کرتے۔
آپ خوددار ہوتے جہانگیر ترین اور دوسری اے ٹی ایمز کو اپنا کچن نہ چلانے دیتے۔
آپ خوددار ہوتے تو لاپتہ شہریوں کے مسئلے پر بھیگی بلی نہ بنے ہوتے۔
آپ خوددار ہوتے تو اپنے وعدے کے مطابق عافیہ صدیقی کو واپس لے آتے۔
آپ خوددار ہوتے تو جارح ملک کے پائلٹ کو چائے پلا کر تزک و احتشام سے واپس نہ بھیجتے۔

اب جبکہ قومی اسمبلی سمیت پوری قوم نے آپ پر عدم اعتماد کر دیا ہے تو غیر جمہوری حیلے بہانوں، نوٹنکیوں، ڈراموں اور اوٹ پٹانگ حرکتوں سے دنیا کے سامنے مزید تماشا نہ بنیں۔ اقتدار اہل اور جمہوری نمائندوں کے حوالے کریں اور جیل جانے کے لیے تیار رہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments