نئی ریاست مدینہ کے بعد کپتان کا نیا کربلا


شاہی خیمے میں تناؤ کی کیفیت طاری تھی۔ ہر دل بوجھل تھا۔ کپتان کے وزیروں مشیروں کے چہرے اترے ہوئے تھے۔ صرف کپتان کا چہرہ چمک رہا تھا۔ اس پر مایوسی کی رمق تک نہیں تھی۔ اس نے درباریوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا

”کربلا میں، جناب امام حسین علیہ السلام، ان کی آل اور معتقدین نے حق و باطل کے مابین فرق اہل عالم پر واضح کرنے کے لئے تعداد میں خود سے کہیں بڑے دشمن سے ٹکراتے ہوئے جانوں کے نذرانے پیش کیے۔ آج جب حق کی سربلندی اور وطن سے محبت کی خاطر ہم غداری و فریب کے خلاف صف آراء ہیں تو اسوۂ حسین علیہ السلام ہماری قوت ہے“

ایک وزیر نے مایوس سی آواز میں کہا ”لیکن کپتان، کربلا میں امام حسینؑ جیسی عظیم ہستی کے ساتھ کل ملا کر 72 افراد کربلا میں لڑنے کو تیار ہوئے تھے۔ آپ کو تو 172 افراد درکار ہیں۔ امام کو 72 نہیں ملے تو آپ کا ساتھ 172 کیسے دیں گے؟“

دوسرے وزیر نے مری ہوئی آواز میں کہا ”میرے کپتان۔ امام تو وقت کے ظالم حاکم کے خلاف لڑنے نکلے تھے، آپ تو خود حاکم ہیں۔ کیا آپ اپوزیشن سے لڑتے ہوئے یوں کربلا کی مثال دے سکتے ہیں؟“

کپتان نے غصے سے اسے گھورا اور بولا ”امام نے حق کی سربلندی کے لیے باطل سے جنگ کی تھی۔ یاد رکھو، جہاں ہم کھڑے ہوں، حق وہاں سے شروع ہوتا ہے۔“

ایک مشیر نے تائیدی انداز میں سر ہلایا ”سب کو معلوم ہونا چاہیے کہ میرا کپتان جہاں کھڑا ہو جائے، لائن بھی وہیں سے شروع ہوتی ہے۔“

غنیم کے لشکر کی کیا صورت حال ہے؟ کپتان نے پوچھا۔

”وہ ہمارے خلاف صفیں باندھ چکے ہیں۔ ان کی تعداد ہم سے بہت زیادہ ہے۔ گو وہ میرے کپتان کی خطابت کا مقابلہ کرنے سے عاری ہیں، ان کے حامی ان کی بات پر ویسا اندھا اعتقاد بھی نہیں رکھتے جیسے میرے کپتان کے ماننے والوں کی عادت ہے، وہ رات کو دن کہیں تو ان کے حامیوں میں سے کئی ان کی بات سے اختلاف بھی کر لیتے ہیں، مگر مسئلہ یہی ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے۔“

”جنگوں کا فیصلہ لشکریوں کی تعداد نہیں کرتی۔ سپہ سالار کی چالیں جنگ کا نتیجہ طے کرتی ہیں۔ جب میں 1992 میں ورلڈ کپ کھیل رہا تھا تو میری ساری ٹیم بالکل تھکڑ تھی۔ آدھے ریلو کٹے تھے اور باقی آدھے دشمن سے مرعوب۔ اس وقت میں نے ایسی بہترین قیادت کی کہ ورلڈ کپ جیت لیا۔ جب تک تمہارا کپتان تمہاری قیادت کر رہا ہے، گھبرانا نہیں ہے“ ۔ کپتان کے لہجے میں تیقن جھلک رہا تھا۔ وہ ایک پہاڑ کی سی استقامت کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کا حوصلہ آسمانوں سے باتیں کرتا دکھائی دے رہا تھا۔

”ہم سچ پر ہیں۔ ہم اپنے ملک کو عظیم اور آزاد بنانے کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔ جبکہ ان کا ہدف کیا ہے؟ وہ چور ڈاکو ہیں۔ وہ کرپٹ ہیں۔ وہ لوٹ مار کرنا چاہتے ہیں۔ کیا تم ان سے ڈرتے ہو؟“ کپتان نے ولولہ انگیز انداز میں کہا۔

جواب میں گمبھیر خاموشی طاری رہی۔ اچانک باہر سے ایک پیادہ دوڑتا ہوا آیا۔ ”میرے کپتان، غنیم نے طبل جنگ بجا دیا ہے اور اس کا لشکر صف آرا ہو گیا ہے“ ۔

کپتان نے اپنے درباریوں کے اترے ہوئے چہرے دیکھے۔ پھر اس نے کہا ”ہم ایک عظیم مقصد کے لیے قربانی دینے جا رہے ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ قدرت نے اس مقصد کے لیے ہمارا انتخاب کیا ہے۔ ہم نئی ریاست مدینہ بنانے نکلے تھے مگر ہم نے خود کو اس صورت میں نئے کربلا میں پایا ہے کہ ہم خود حکمران ہیں۔ بہرحال میں یہ نہیں کہتا کہ تم سب قربانی دو۔ جو ڈر گیا ہے، جو گھبرا گیا ہے، وہ میری طرف سے آزاد ہے۔“

کپتان نے خادم کو حکم دیا ”خیمے کے چراغ بجھا دو۔ جو غنیم کی بھاری اکثریت دیکھتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ ہمارا چھوٹا سا قافلہ اس کا مقابلہ نہیں کر پائے گا، جو ڈر گیا ہے، جو گھبرا گیا ہے، وہ تاریکی کا فائدہ اٹھا کر باہر چلا جائے۔ میں جانتا ہوں کہ جو ارادے کا کمزور ہو، اس کے لیے جان بچانا افضل ہے۔ میں اس سے کوئی شکوہ نہیں کروں گا۔“

خادم نے چراغ بجھا دیے۔ خیمے کی تاریک فضا میں لباس کی چند سرسراہٹیں گونجی۔ پھر خاموشی طاری ہو گئی۔ دس منٹ بعد خادم نے چراغ دوبارہ جلائے۔ خیمہ خالی تھا۔ کپتان سمیت سب لوگ غائب ہو چکے تھے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments