عمران خان: تحریکِ انصاف کا کپتان پہلی اننگز میں ہٹ وکٹ؟

عارف شمیم - بی بی سی اردو


 

خان اور جرنیل

اگر کسی کو اس کے متعلق ذرا بھی ابہام ہے کہ عمران خان ’کراؤڈ پُلر‘ یا ہجوم کو اپنی طرف کھینچنے والے نہیں ہیں، تو وہ بظاہر پاکستانی سیاست سے نابلد ہے۔

عمران خان کا ایک بہت وسیع فین کلب ہے جو 1992 کا کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے سے 2022 میں جیب سے نکالا ہوا خط لہرانے تک، اُن کے سحر میں مبتلا ہے، اُن کی آواز پہ لبیک کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ کپتان جو بھی کہہ رہا ہے وہی سچ ہے۔

عمران خان کرکٹ ہی کی اصطلاح میں انھیں بتاتے ہیں کہ وہ ڈٹ کے کھڑے ہیں اور آخری گیند تک کھیلیں گے۔ لیکن کیا آخری گیند پر 172 رنز بن سکتے تھے؟ اور کیا ہو کہ اگر ان کا اپنا بلا ہی وکٹ کو چُھو لے؟

عمران خان کی کہانی بھی پویلین سے پچ تک کی کہانی جیسی ہے اور اس دوران انھوں نے اپنے سیاسی مخالفین کے وہ چھکے چھڑائے ہیں کہ وہ شاید اُن کے ساتھ کھیلی گئی اننگز کبھی نہ بھولیں۔

کرکٹ کا گراؤنڈ اور سیاست کا میدان

عمران خان کا مرکزی دھارے کی سیاست میں آنا کوئی اچانک حادثہ نہیں تھا اور بقول اُن کے اس کے لیے انھوں نے کئی سال انتظار کیا اور محنت کی۔ سنہ 1987 کے ورلڈ کپ کے بعد جب عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا فیصلہ کیا تو اس وقت پاکستان کے صدر جنرل ضیا الحق نے انھیں دوبارہ کرکٹ میں واپس آنے کا کہا اور چند ماہ بعد عمران نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔

اسی طرح جنرل ضیا نے انھیں بعد میں سیاست میں آنے کا بھی کہا لیکن عمران نے صاف انکار کر دیا، کچھ اسی طرح کی پیشکش انھیں نواز شریف نے بھی کی، لیکن کپتان سیاست میں نہ آنے کے فیصلے پر ڈٹے رہے۔

مگر بلآخر عمران خان سیاست میں آ ہی گئے۔

عمران خان ملٹری انٹیلیجنس آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل حمید گل کو ان کے جہادی نظریات کی وجہ سے پسند کرتے تھے اور جب انھیں موقع ملا تو انھوں نے جنرل حمید گل اور محمد علی درانی کی بظاہر سوشل نظریات پر بنائی گئی تنظیم ‘پاسبان’ میں شمولیت اختیار کر لی۔ حمید گل اور درانی اسے ایک پریشر گروپ یا ‘تھرڈ فورس’ کہتے تھے جس کی، بقول اُن کے، پاکستان کو اشد ضرورت تھی کیونکہ سیاست دان اپنے فوائد کی خاطر ملک کو لوٹ کے کھا رہے تھے اور عوام ان کی آپس کی لڑائیوں میں پس چکے تھے۔

پاسبان کے بانی اسے سیاست کے بجائے معاشرتی تبدیلی کی طرف پہلا قدم کہتے تھے جو کئی سال بعد عمران کی تبدیلی کی سونامی کی لہر میں منظرِ عام پر آئی۔

یہ ایک بہت کارگر ‘ٹرائیو’ تھا۔ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے سابق سربراہ حمید گل کے منصوبہ ساز نظریات، جماعت اسلامی سے آئے ہوئے درانی کی منظم کرنے والی بہترین صلاحیت اور ورلڈ کپ کے ہیرو عمران خان کی کرشماتی شخصیت۔ عمران کے سیاسی نظریات کی پختگی میں اس تنظیم اور اس کے ان دو رہنماؤں کا بظاہر بہت عمل دخل ہے۔

کئی سال بعد ایک اور جنرل مشرف بھی عمران کے قریب ہوئے اور عمران اُن کے ساتھ ملتے ملتے رہ گئے۔ بقول جنرل مشرف پی ٹی آئی کے رہنما ان سے پارٹی کی حیثیت سے کہیں زیادہ سیٹیں مانگ رہے تھے۔

کینسر ہسپتال اور انصاف کا ترازو

LAHORE, PAKISTAN - FEBRUARY 22: (L-R) Imran Khan, his wife Jemima Khan and Diana, Princess of Wales, wearing a pale blue shalwar kameez and a flower garland, laugh during a visit to Shaukat Khanum Hospital on February 22, 1996 in Lahore, Pakistan. (Photo by Anwar Hussein/Getty Images)
شوکت خانم ہسپتال کی ایک تقریب عمران خان اپنی سابق اہلیہ جمائمہ خان اور آنجہانی لیڈی ڈیانا کے ہمراہ

عمران خان بلاشبہ عبدالستار ایدھی کے بعد پاکستان میں فلاحی کام کرنے والی سب سے اہم شخصیت سمجھے جاتے ہیں جنھوں نے اپنی والدہ کے نام پر بنائے گئے شوکت خانم کینسر ہسپتال کے ذریعے پاکستان کے ایک بہت بڑے طبقے کی خدمت کی ہے۔ لیکن یہاں بھی ‘پاسبان’ کا ذکر کرنا ضروری ہے۔ یہ محمد علی درانی ہی تھے جنھوں نے اپنی جماعت کے کارکنوں اور بزنس کمیونٹی میں اپنے روابط کو استعمال کر کے عمران خان کے لیے بہت بڑے پیمانے پر فنڈز جمع کیے۔ اس طرح کے فنڈ ریزنگ کے ایک ایونٹ میں عمران خان کی ملاقات ارب پتی تاجر عبدالعلیم خان سے بھی ہوئی تھی جنھوں نے وہیں کھڑے کھڑے شوکت خانم کے لیے چھ کروڑ کے عطیے کا اعلان کیا۔

اخبار ڈان سے منسلک صحافی منصور ملک جو پی ٹی آئی کور کرتے ہیں اس تقریب میں موجود تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ تحریکِ انصاف بنانے سے پہلے عمران خان کا سب سے بڑا پراجیکٹ شوکت خانم کینسر ہسپتال تھا اور وہ دن رات اس کے لیے کام کرتے رہتے تھے۔ شوکت خانم ایک ایسا پراجکیٹ تھا جس کے لیے انھیں پاکستان کے عوام کی سب سے زیادہ حمایت حاصل ہوئی۔ اس میں نوجوان تھے، خواتین تھیں، کاروباری طبقہ تھا اور بعد میں پاکستان تحریکِ انصاف کی ‘اے ٹی ایم’ کہلائے جانے والے علیم خان بھی اس میں شامل ہوئے۔’

علیم خان کے عطیات اور ان کی شوکت خانم کے لیے خدمات کی وجہ سے ہی لاہور میں شوکت خانم ہسپتال کے تیسرے فلور پر ایک وارڈ کا نام اُن کے والد عبدالرحیم خان اور پشاور میں شوکت خانم میں ایک فلور کا نام ان کی والدہ نسیم خان کے نام پر رکھا گیا ہے۔ علیم خان ‘عبدالحلیم خان فاؤنڈیشن’ کے تحت خیراتی اور فلاحی کام کرتے ہیں۔

29 دسمبر 1994 کو شوکت خانم میموریل کینسر ریسرچ ہسپتال اینڈ ریسرچ سینٹر کا افتتاح ہوا اور دو سال بعد 25 اپریل 1996 کو عمران خان نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد رکھی جس کا منشور بھی ‘پاسبان’ کی بنیادوں پر ہی رکھا گیا تھا جن میں اسلامی فلاحی ریاست کا قیام، احتساب کا نعرہ اور ایک انصاف پسند معاشرے کی تشکیل اولین ترجیحات میں شامل تھیں۔ اگرچہ شروع میں اسے صرف ‘ون مین شو’ کہا جاتا تھا لیکن بعد میں اس قافلے کے ساتھ اور لوگ جڑتے گئے۔

منصور ملک کہتے ہیں گو کہ پارٹی 1996 میں بنی تھی لیکن اس کا پہلا بڑا شو 2011 میں نظر آیا جب اس نے 30 نومبر کو لاہو ر کے مینارِ پاکستان میں اپنا پہلا بڑا جلسہ کیا۔

‘اس وقت تک نظریاتی لوگوں کے علاوہ کچھ الیکٹیبلز بھی اس میں شمولیت اختیار کر چکے تھے۔ سنہ 2002 کے انتخابات میں تحریک انصاف کو صرف ایک سیٹ ملی اور وہ بھی عمران خان کی تھی جو انھوں نے میانوالی سے جیتی تھی۔ پھر 2013 کا الیکشن آیا۔ اس وقت پی ٹی آئی نے اپنے آپ کو گراس روٹ کی سطح تک منظم کرنا شروع کیا، کہ اس کے امیدوار کون کون ہوں گے، کون پیسہ خرچ کرے گا، کون کر سکتا ہے اور کون نہیں کر سکتا۔’

پارٹی بنتے ہی ٹوٹ پھوٹ شروع

آج کل پاکستان تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ، منحرف ارکین، اور اتحادیوں کی ناراضی کی باتیں ہو رہی ہیں۔ کبھی منحرفین کو ‘غدار’ کہا جاتا ہے اور کبھی ان پر کرپشن کا الزام لگایا جاتا ہے۔ لیکن کیا یہ پی ٹی آئی میں پہلی مرتبہ ہو رہا ہے؟ بالکل نہیں۔ پارٹی جب بنی تھی اور انتخابات میں حصہ لیا تھا تب ہی سے پارٹی میں مختلف گروہ ایک دوسرے سے ناراض رہے اور کئی ایک نے پارٹی چھوڑ بھی دی تھی۔

عمران خان نے جب 1996 میں اپنی سیاسی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف بنائی تھی تو اس وقت انھیں شاید یہ اندازہ نہیں تھا کہ گیارہ کھلاڑیوں کی کرکٹ ٹیم کی کپتانی کرنے اور ملکی سطح پر ایک سیاسی جماعت چلانے میں کیا فرق ہے۔

کہا جاتا ہے کہ عمران خان کی شخصیت میں یہ چیز بھی شامل ہے کہ جو بھی ان کے بہت قریب آتا ہے وہ کچھ عرصہ بعد ان سے دور ہو جاتا ہے۔ حامد خان سے لے کر ریٹائرڈ جسٹس وجیہ الدین تک اور جہانگیر خان سے لے کر علیم خان جیسے ناموں تک پی ٹی آئی میں ناراض اراکین کی فہرست بہت لمبی ہے۔

اکثر عمران خان کے اپنے فیصلے ہی اس کھینچا تانی کی وجہ بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر 2013 کے انتخابات سے پہلے اچانک فیصلہ کیا گیا کہ گراس روٹ پر تنظیم سازی کرنے کے لیے ‘نومینیشن کی بجائے الیکٹڈ لوگ لانے چاہییں’ جو کہ پارٹی کے بنیادوں اصولوں کی ہی خلاف ورزی تھی۔

منصور ملک کے مطابق پہلے کہا گیا کہ پارٹی الیکشن کرائیں گے، لیکن اتنی پولرائزیشن ہو چکی تھی کہ گروپس آپس میں لڑنے جھگڑنے لگے۔ اس دوران 2013 کے الیکشن سر پر آ گئے۔ اس وقت پی ٹی آئی نے محسوس کیا کہ ہم الیکشن میں مخالفین سے لڑنے کی بجائے اپنے آپ سے ہی لڑ رہے ہیں۔ جب الیکشن کا نتیجہ آیا تو سب کو پتہ چل گیا کہ غلطیاں کہاں ہوئی ہیں۔’

ملک کہتے ہیں کہ اب پارٹی سے منحرف ہونے والے وہی لوگ ہیں جو پہلے بھی اپنی آواز اٹھاتے رہے ہیں اور ایسا نہیں ہے کہ وہ پارٹی سے پہلی مرتبہ ناراض ہوئے ہیں۔

‘انھیں پیکج اور ڈیویلمنٹ فنڈ نہیں ملتے تھے کیونکہ عمران خان نے تو یہ بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ پارٹی ایم این اے اور ایم پی کو تو فنڈز نہیں ملنے چاہییں کیونکہ یہ تو لوکل گورنمنٹ کا کام ہے۔ لیکن نہ تو انھوں نے گراس روٹ لیول پر مینجمنٹ کرنے کے لیے انٹرا پارٹی الیکشن کروائے اور نہ ہی منشور کے مطابق لوکل گورنمنٹ الیکشن۔ الیکشن کمیشن چار سال سے کہہ رہا ہے کہ الیکشن کروائیں لیکن وہ نہیں ہو سکے، کیونکہ بقول ان کے بندے ہی پورے نہیں ہیں۔ یہ وہ کام تھے جو انھوں نے پہلے 100 دن میں کرنے تھے۔ پارٹی میں نظریاتی لوگ کہنے لگے کہ لوگ باہر سے آ رہے ہیں، وفاقی وزیر اور مشیر لگ رہے ہیں اور جو شروع سے پارٹی کے ساتھ چلے ہیں انھیں کچھ نہیں دیا جا رہا۔ یہ سارا غصہ اب سامنے آ گیا ہے۔’

منصور ملک کہتے ہیں کہ میں نے پارٹی کو بنتے اور پھلتے پھولتے دیکھا ہے اور پارٹی کے لوگوں کو اچھی طرح جانتا ہوں۔ ‘مجھے پتہ ہے کہ 2013 سے پہلے اور بعد میں جو اختلافات شروع ہوئے وہ آج تک موجود ہیں۔ اس وقت ہی پارٹی میں لوگوں نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگانا شروع کر دیے تھے جیسے علیم خان کو لوگ اسی وقت ‘کرپٹ’ کہنا شروع ہو گئے تھے اور آج بھی جب علیم خان سینیئر منسٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے گئے ہیں تو پارٹی کے اندر بہت سے لوگ کہہ رہے کہ شکر ہے ان سے جان چھوٹ گئی ہے۔ لیکن یہ وہی انسان ہیں جنھوں نے پارٹی کو بہت سپورٹ کیا تھا اور سب بڑے بڑے جلسے کرائے تھے جن سے پارٹی گراس روٹ لیول پر نظر آئی تھی۔ علیم خان جیسے لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ہم عمران خان کے وفادار اور نظریاتی ساتھی ہیں لیکن جب حکومت بنتی ہے تو ہمیں فراموش کر دیا جاتا ہے۔’

سنہ 2013 سے سنہ 2018 تک کا سفر پی ٹی آئی کے لیے سیاسی اعتبار سے ایک اہم دور تھا۔ وہ 2013 کے انتخابات میں 30 سیٹیں جیتی تھی اور ووٹوں کے تناسب کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت بن کے اُبھری تھی۔ خیبر پختونخوا میں، جس کے متعلق عمران خان سب سے زیادہ بات کرتے ہیں، اس کو اکثریت ملی اور وہاں پی ٹی آئی کی پہلی صوبائی حکومت بنی۔

منصور ملک کہتے ہیں کہ جیسے ہی 2018 آیا اور عمران خان نے اسٹیبلیشمنٹ کے ساتھ ہاتھ ملایا، جسے وہ پہلے نہیں مانتے تھے پر اب سب مانتے ہیں، تب اسٹیبلشمنٹ نے انھیں لوگ لا کے دینے شروع کر دیے۔

‘جب الیکٹیبلز لائے گئے تو دوبارہ پارٹی میں تنازع شروع ہو گیا، اپنے لوگوں کو ٹکٹ نہیں مل رہے تھے اور جو لوگ باہر سے لائے جا رہے تھے انھیں پارٹی ٹکٹ مل رہی تھی۔ اس کی سب سے بڑی مثال عثمان بزدار ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ کیو اور پاکستان مسلم لیگ نون سے ہو کر آنے والے بزدار کو پی ٹی آئی میں شامل کر کے چیف منسٹر بنا دیا گیا۔ اس سے پارٹی کے سبھی ارکین ناراض ہو گئے، لیکن عمران ڈٹے رہے۔’

عمران، ارطغرل اور یوتھ

2018 کے انتخابات میں پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں 116 نشتیں حاصل کیں اور عمران خان پاکستان کی تاریخ میں پہلے سیاستدان بنے جنھوں نے پانچ نشستوں پر انتخاب لڑا اور پانچوں کی پانچوں جیتیں۔

جیت کے بعد اپنی تقریر میں عمران خان نے اپنی مستقبل کی حکومت کا نظریہ پیش کیا اور کہا کہ وہ ملک کو مکمل فلاحی ریاست بناتے ہوئے اسے ریاستِ مدینہ کے اصولوں پر چلانا چاہتے ہیں۔

انھوں نے سادگی اور ایک چھوٹی کابینہ والی حکومت کی بات کی لیکن ماضی کی طرح یہ وعدہ بھی کچھ ہی دنوں میں ہوا میں تحلیل ہو گیا۔ کابینہ بھی پھیلتی گئی اور اخراجات بھی بڑھتے گئے۔ نہ تو وزیرِ اعظم ہاؤس یونیورسٹی بنا اور نہ ہی منسٹر سائیکلوں پر آئے۔ بڑی بڑی اور مہنگی گاڑیوں کی لائن لگ گئی اور وزیرِ اعظم ہیلی کاپٹر پر دفتر آنے لگے۔ اگرچہ ان کے چاہنے والے ووٹرز کو بُرا تو لگا لیکن عمران کی محبت اور ماضی کے سیاست دانوں سے بیزاری ان کے دلوں میں ایسی بھر چکی تھی کہ انھیں نہ چاہتے ہوئے کپتان کا یہ روپ بھی قبول تھا۔

سنہ 2020 میں عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا کہ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی مشہور ترک سیریز ڈیریلس: ارطغرل دیکھیں۔ یہ عمران خان کا ایک مظبوط اسلامی ریاست کی بنیاد کی طرف اشارہ بھی تھا یا شاید وہ اپنے آپ کو بھی اسی روپ میں دیکھ رہے تھے۔ ترک تاریخی کردار ارطغرل سلطنت عثمانہ کے بانی عثمان غازی کے والد تھے جنھوں نے اپنی زندگی منگولوں، غداروں اور صلیبی جنگیں لڑنے والے مسیحیوں کے خلاف لڑتے ہوئے گزاری تھی۔ ان کے بیٹے نے بعد میں سلطنتِ عثمانیہ کی بنیاد رکھی جو 600 سال قائم رہی۔

پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کی ڈائریکٹر اور سینیئر صحافی فرح ضیا سمجھتی ہیں عمران خان کا وعدہ پرانی سیاست کو رد کر کے نئی سیاست لانے کا تھا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ‘وہ انصاف سے شروع ہوئے تھے لیکن آپ انصاف کا حال دیکھ سکتے ہیں۔ حقیقت میں تو کوئی بھی تبدیلی نہیں لا سکے۔ کیونکہ وہ کوئی تبدیلی نہیں لا سکے اس لیے آسان طریقہ اسلامی افکار یا ارطغرل ڈرامے پر لوگوں کو لگانے کا ہی رہ گیا تھا۔’

تحریک انصاف

اسلام ازم اور نیشنل ازم کا تڑکہ

عمران خان پاکستان کو ریاستِ مدینہ کی طرز پر تو دیکھنا چاہتے ہیں لیکن ساتھ ساتھ وہ سکینڈنیویا کے فلاحی ڈھانچے، برطانیہ اور امریکہ کی جمہوریت اور چین کی طرز کے نظامِ حکومت کی بھی توقع کرتے ہیں۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ترکی کے طیب رجب اردوغان اور ملیشیا کے مہاتر محمد کی مثالیں دیتے ہوئے ان کی طرح کی سربراہی بھی چاہتے ہیں۔ کسی بھی سیاست کے طالب علم کے لیے ان سب کو جوڑنا مشکل بلکہ ناممکن بھی ہے، کیونکہ ان میں مطلق العنانی بھی ہے اور جمہوریت بھی، فسطائیت بھی ہے اور اسلامی اقدار بھی۔ یہ سب ایک دوسرے کو مقناطیس کے ایک جیسے سروں کی طرح ایک دوسرے سے پرے کرتی ہے۔

لیکن عمران خان کا اپنا ایک نظریہ ہے کہ ان میں سے چن چن کے چیزیں لی جا سکتی ہیں یا شاید وہ انھیں ایک ہی چیز سمجھتے ہیں۔

ان کی خارجہ پالیسی میں بھی اس کنفیوژن کی جھلک ملتی ہے۔ وہ اسلاموفوبیا اور دنیا بھر میں مسلمانوں پر مظالم پر تو ہر فورم پر بات کرتے ہیں لیکن جب ان سے پوچھا جائے کہ چین میں مسلمان اویغور کے متعلق ان کا کیا خیال ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس کے متعلق انھیں نہیں پتہ۔ اسی طرح انھوں نے شمالی شام میں ترک حملے کی بھی حمایت کی تھی جس سے ان کے بہت سے حمایتی ناراض بھی ہوئے تھے۔

اسی طرح وہ جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ گئے تو انھوں نے پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات کی بہت تعریف کی اور جب وہ پاکستان واپس لوٹے تو بڑے ناز سے کہا کہ انھیں ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ورلڈ کپ جیت کر آئے ہیں۔ صدر جو بائیڈن کے اقتدار میں آنے کے بعد انھوں نے بہت انتظار کیا کہ وہ ان سے رابطہ کریں اور کچھ انٹرویوز میں تو انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ انھیں معلوم نہیں کہ فون کیوں نہیں آیا لیکن ساتھ ہی حال ہی میں انھوں نے یہ بھی کہہ دیا کہ امریکہ ان کی حکومت کو ختم کرنے کی سازش کر رہا ہے۔

اسلام آباد میں قائدِ اعظم یونیورسٹی کے سکول آف پالیٹکس اینڈ انٹرنیشنل ریلیشنز کے اسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر سید قندیل عباس کہتے ہیں کہ عمران خان کی امریکہ کے حوالے سے پالیسی اور بیان کو سمجھنے کے لیے تاریخی پس منظر کو دیکھنا پڑے گا۔

‘پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے وقت سے ہی ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی ‘انڈین سینٹرک’ رہی ہے اور ہماری توقع رہی ہے جو ملک بھی انڈیا کے حوالے سے ہمارے موقف کی حمایت کرے وہ ہمارا دوست ہے۔ کہا جاتا ہے کہ شروع ہی میں لیاقت علی خان روس کے دورے کو ترک کر کے امریکہ چلے گئے تھے اور یہیں سے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد پڑی اور پاکستان مغربی بلاک کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ لیکن 1965 اور 1971 کی جنگ میں پاکستان کو امریکہ سے وہ مدد نہ ملی جس کی وہ توقع کر رہا تھا اور پاکستان میں مغرب اور امریکہ مخالف احساسات نے جنم لیا۔ جب ذوالفقار علی بھٹو کا زمانہ آیا اور انھوں نے اسلامی بلاک کی بات کی اور ہنری کسینجر نے انھیں مشہور دھمکی دی تو بعد میں بات یہاں تک پہنچی کہ کچھ لوگ تو بھٹو صاحب کی پھانسی کی ذمہ داری بھی امریکہ پر لگاتے ہیں۔’

وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کا المیہ ہے کہ مغربی بلاک میں ہونے کے باوجود پاکستان میں مغرب اور امریکہ مخالف احساسات موجود رہے ہیں۔ عمران خان بھی اقتدار میں آنے سے پہلے ہی امریکہ کے ڈرون حملوں کی اور افغانستان میں طالبان کے خلاف جنگ میں امریکہ کی وہاں موجودگی کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ تناؤ اس وقت عروج پر پہنچ گیا جب امریکہ کے افغانستان سے انخلا کے وقت پاکستان نے امریکہ کی اس طرح مدد نہ کی جیسا کہ وہ چاہتا تھا۔

ڈاکٹر قندیل کہتے ہیں کہ جب ایک انٹرویو میں عمران خان سے پاکستان کی سرزمین سے افغانستان پر حملوں کے حوالے سے پوچھا گیا تو انھوں نے ‘ایبسولوٹلی ناٹ’ کا وہ مشہور جملہ بولا اور ایک اور جگہ یہ بھی کہا کہ اگر اب ڈرون آئے تو ہم گرا دیں گے۔’

ڈاکٹر قندیل کہتے ہیں کہ عمران خان کا جھکاؤ چین اور روس کی طرف ہے اور وہ پاکستان کو مغربی بلاک سے نکال کر مشرقی بلاک کی طرف لے جانے کی خواہش رکھتے ہیں اور ساتھ ساتھ اسلامی بلاک کے بارے میں بھی سوچتے ہیں۔ ‘یہ حقیقت کہ وہ چین اور پھر اس کے فوراً بعد روس کے دورے پر اسی دن گئے جس دن روس نے یوکرین پر چڑھائی کی، یہ اتفاق بھی ہو سکتا ہے کیونکہ دورے پہلے پلان کیے جاتے ہیں۔’

لیکن فرح ضیا کہتی ہیں کہ پاکستان کی کوئی بھی حکومت کبھی آزاد خارجہ پالیسی نہیں بنا پائی ہے۔ ‘اسٹیبلشمنٹ کھبی بھی سیاسی حکومتوں کو آزاد خارجہ پالیسی نہیں چلانے دیتی، دفترِ خارجہ بھی دراصل ان ہی کے پاس ہوتا ہے۔ زرداری نے کوشش کی تھی اور ایران تک چلے گئے تھے لیکن انھیں اس سے آگے کچھ کرنے نہیں دیا گیا۔ میرا سوال ہے کہ کیا ان کے پاس اتنی آزادی تھی کہ وہ اپنی خارجہ پالیسی بنا سکیں۔’

ڈاکٹر قندیل کے مطابق ضرورت ہے کہ جیو پالیٹکس سے نکل کے جیو ایکنامکس کی طرف دیکھا جائے اور شاید عمران یہ کرنا چاہتے بھی ہیں۔ ‘آزاد اور خود مختار خارجہ پالیسی مظبوط معیشت کے بغیر ممکن نہیں ہے۔’

عمران کے ‘ٹائیگر’ اور ‘نازیبا زبان’ کی سونامی

پی ٹی آئی کے ووٹر
پی ٹی آئی کے ووٹر خان کے ہر بات پہ لبیک کہنے کو تیار رہتے ہیں

عمران خان جب سنہ 2014 میں اس وقت کے وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور کہا کہ ان کے نوجوانوں کی سونامی ‘کرپٹ’ سیاستدانوں کو خاک کر دے گی تو شاید بہت سوں کو یہ اندازہ نہیں تھا کہ سونامی کے بعد تباہی کا بہت زیادہ گند بھی باہر آ جاتا ہے جسے سمیٹنا بہت مشکل ہے۔ اور عمران کی سونامی کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔

جس نے بھی عمران کی مخالفت کی، عمران خان کے حامیوں اور خود عمران نے انھیں بلند آواز میں برا بھلا کہا۔ آج اگر ان کی پارٹی میں کوئی چہیتا ہے، تو کل تنقید کرنے کے بعد وہ بُرا ہو جائے گا بلکہ ‘غدار’ اور ‘بکاؤ’ کہلایا جائے گا۔ اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں اور یہی پی ٹی آئی کی سب سے بڑی خامی نظر آتی ہے۔

لیکن مخالفوں کے خلاف بری زبان کا استعمال صرف عمران کے دور میں ہی نہیں ہوا، اس سے پہلے مسلم لیگ نواز اس کی داغ بیل ڈال چکی تھی اور عوامی جلسوں میں نواز شریف اور شہباز شریف نے اپنے مخالفوں کے خلاف جو جملے استعمال کیے تھے وہ بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ تاہم پی ٹی آئی کے دور میں ایک نیا زوال دیکھا گیا۔ ایسا محسوس ہوا کہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت عمران کے ٹائیگر ہر اس آواز کو بری زبان استعمال کر کے دبانا چاہتے ہیں جس نے ان کی پالیسی یا لیڈر پر کوئی تنقید کی۔

تاہم فرح ضیا کہتی ہیں کہ ہمیں یہ چیزیں ورثے میں ملی ہیں کہ یا تو سیاست دان کرپٹ ہے یا پھر غدار اور یہ کچھ نیا نہیں بلکہ 1950 کی دہائی سے ہو رہا ہے۔ ‘لیکن یہ بھی سچ ہے کہ آج کل اس طرح کا بیانیہ ایک اور ہی لیول پر پہنچ گیا ہے۔’

دوسری طرف خود عمران خان نے کبھی بھی اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش نہیں کیا اور جب بھی ان پر کوئی الزام لگا یا ان کی کسی پالیسی میں ناکامی نظر آئی تو انھوں نے فوراً اس کا ذمہ دار کسی اور کو قرار دیا یا اسے ایک سازش کہا۔

عمران کچھ بھی کہنے سے نہیں ڈرتے، وہ چاہے خطاب میں خفیہ خط کا ذکر کرتے کرتے امریکہ کا نام لینا ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ بھی یاد رہے کہ یہ عمران خان ہی تھے جنھوں نے تسلیم کیا تھا کہ وہ بال ٹمپرنگ کرتے تھے بلکہ ایک مرتبہ تو انھوں بال کو کسی چیز تیز دار چیز سے رگڑ کر استعمال کیا تھا۔

کیا عمران خان سیاسی آدمی ہیں؟

عمران خان ہمیشہ سے سیاستدانوں کو برا بھلا کہتے رہے ہیں، کبھی وہ ایوان کو کچھ نہیں سمجھتے اور کبھی وہ بانی پاکستان محمد علی جناح کے علاوہ ماضی کے کسی بھی سیاستدان کو ملک سے وفادار نہیں سمجھتے۔

فرح ضیا کہتی ہیں کہ یہ اس لیے بھی ہے کہ عمران خود ایک سیاسی آدمی نہیں ہیں۔ ان کی تربیت ہی اس طرح نہیں ہوئی۔ ‘وہ اپنی تقریر میں کہنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں کہ میں سیاست کا طالب علم ہوں، لیکن حقیقت میں وہ سیاست کے طالب علم نہیں ہیں۔ وہ ایک کرکٹر ہیں اور وہ بھی ریٹائرڈ، جو بس اپنے ماضی میں رہتا ہے۔ کیونکہ سیاست تو کچھ لو اور کچھ دو کے اصولوں پر ہوتی ہے، اس میں بہت زیادہ لچک چاہیے ہوتی ہے جو عمران خان میں نہیں ہے۔ وہ تو بس ایک نظریاتی قسم کے انسان ہیں جو خود ہی اپنے آپ کو مسیحا سمجھتے ہیں۔’

مسیحا، کرکٹر یا سیاستدان اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران اپنی دوسری اننگز میں دفاعی حمکتِ عملی رکھتے ہیں یا جارحانہ کھیل ہی جای رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32552 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments