سمت کاشی سے چلا جانب متھرا بادل


متھرا: ہندوستان میں ہندوؤں کا ساتواں مقدس ترین شہر جسے اورنگزیب نے اسلام آباد کا نام بھی دیا تھا۔ 1999 ء میں ہندوستان کے سفر میں جو جانا، جو سنا، جو سمجھا، اس کی ایک جھلک پیش ہے۔

ہم تینوں دوست آگرہ کے قلعے سے باہر نکلنے کے بعد کافی دیر خاموش رہے، جس کی وجہ صرف شاہجہاں کا واقعہ تھا۔ بالآخر میں نے خاموشی توڑی اور کہا کہ وہ جو تخت کی خواہش مند نہیں تھی، اسی نے محبت اور خدمت میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی اور آج دنیا اسے خدمت کی نشانی کے طور پر یاد کر رہی ہے۔ سب نے اس بات سے اتفاق کیا۔ شام ہو چکی تھی اور بس بھی تیار تھی۔ ہم سب لوگ بس میں بیٹھ گئے۔ میری سیٹ ڈرائیور کے پاس تھی۔ جس میں میری خواہش کا بھی عمل دخل تھا۔ اکثر ڈرائیور ناصرف بہت باتونی ہوتے ہیں بلکہ ان کے پاس بے شمار معلومات بھی ہوتی ہیں۔ ہمارے ڈرائیور کا نام دھیان چند تھا لیکن اس کے بقول لوگ اسے پہلوان کہتے تھے۔ بس چلنے میں تھوڑا وقت تھا تو اس لیے میں نے پہلوان صاحب سے باتیں کرنا شروع کر دیں۔

ہمارے گائیڈ نے ہمیں بتایا کہ اب ہماری اگلی منزل متھرا ہے۔ متھرا ہندوؤں کے نزدیک ایک بہت مقدس جگہ ہے۔ بس میں پانچ لوگوں کے علاوہ باقی سب ہندو تھے۔ ٹور آپریٹر نے یہ بندوبست کیا تھا کہ وہ تاج محل کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کو متھرا کے مندر بھی دکھائے گا۔ میں نے گائیڈ سے کہا کہ ہمارے پاس متھرا جانے کا ویزا نہیں ہے تو گائیڈ نے جواب دیا کہ یہ شہر واپسی پر راستے میں ہی آئے گا لہذا کوئی دقت نہیں ہوگی۔ آج سے بیس سال پہلے حالات بھی اتنے زیادہ کشیدہ نہیں تھے۔ اس لیے ایسے معاملات میں مقامی پولیس بھی زیادہ سختی نہیں کرتی تھی۔ موجودہ حالات میں ایسا نہیں کرنا چاہیے، بلکہ صرف اسی شہر میں جانا چاہیے جہاں کا ویزا آپ کے پاس ہو۔

ماتھورا (Mathura) جسے اردو میں متھرا لکھا جاتا ہے اس کا صحیح نام ماتھورا ہے۔ بول چال میں بھی اسے ماتھورا یا ماتھو راؤ ہی استعمال ہوتا ہے۔ ہندی اور انگریزی میں بھی اسے ماتھورا ہی لکھا جاتا ہے۔ اس لیے میں بھی اسے ماتھورا ہی لکھوں گا۔

ماتھورا، آگرہ سے 50 کلومیٹر شمال میں جبکہ دلی سے 150 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔ جب ہم وہاں پہنچے تو شام ہو چکی تھی۔ بس سے اترنے اور ایک چڑھائی چڑھنے کے بعد ہم ماتھورا کے مندروں تک پہنچے۔ اس سے پہلے کہ میں ماتھورا میں گزرے ہوئے اپنے وقت سے متعلق کوئی بات کروں میں چاہوں گا کہ ماتھورا کی تاریخ کے بارے میں کچھ معلومات آپ کی خدمت میں پیش کی جائیں۔ یاد رہے کہ ماتھورا ان سات بڑے شہروں میں سے ایک ہے جو ہندو مذہب کے نزدیک سب سے مقدس مانے جاتے ہیں۔ اس بات سے آپ اس شہر کی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔ میں نے اس تحریر کے لیے دیو پرساد کی کتاب Krishna: A Journey through the Lands & Legends of Krishna جسے جیکب آپریشن نے شائع کیا ہے سے مدد لی ہے۔

ماتھورا کی سب سے اہم بات یہاں پر ہندوؤں کے آٹھویں اوتار لارڈ کرشنا کی جائے پیدائش ہے۔ لارڈ کرشنا کی پیدائش ماتھورا شہر میں موجود ایک جیل میں ہوئی تھی۔ لارڈ کرشنا کے والدین کو ان کے کسی حکمران رشتے دار نے قید کر رکھا تھا۔ یہ چھٹی صدی قبل مسیح کی بات ہے۔

جب ہم ایک بڑے مندر کے درمیان میں پہنچے تو وہاں پر پتھر کی ایک سلیٹ پڑی ہوئی تھی۔ اس سلیٹ کے بارے میں گائیڈ نے بتایا کہ اس پر لارڈ کرشنا کی پیدائش ہوئی تھی۔ اسی لیے یہ سلیٹ ہندوؤں کے نزدیک بے حد مقدس ہے۔ لارڈ کرشنا ہندوؤں کے نزدیک محبت پیار اور برداشت کی ایک نشانی ہیں۔ اس لیے ان کی بہت زیادہ پوجا کی جاتی ہے۔ عام طور پر ان کی تصویر ایک بچے یا ایک خوبصورت نوجوان آدمی کی ہوتی ہے جو بانسری بجا رہا ہوتا ہے۔

لارڈ کرشنا کی پیدائش کی وجہ سے یہاں پر موجود مندر کو لارڈ کرشنا جنمستان کمپلیکس کہا جاتا ہے۔ لارڈ کر شناکے نام پر دیگر شہروں میں بھی مندر بنائے گئے ہیں لیکن سب سے بڑا مندر اسی علاقے میں بنایا گیا ہے جہاں پر ان کی پیدائش ہوئی تھی۔ ہندوؤں کی مقدس کتابیں مہا بھارت اور رامائن میں بھی ان کا خصوصی ذکر ملتا ہے۔ اگر آپ نقشے میں ماتھورا کو دیکھیں تو معلوم ہو گا کہ یہ شہر دریائے جمنا کے مغربی کنارے پر واقع ہے۔

مزید غور کرنے پر محسوس ہوتا ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ پر واقع ہے، جہاں سے بہت زیادہ سڑکیں گزرتی تھیں۔ دلی سے لکھنؤ اور دیگر علاقوں کی طرف جانے کے لیے بھی لوگ یہی راستہ اختیار کرتے تھے۔ شمال کے پہاڑوں سے آنے والے بھی یہاں سے گزر کر ہی آگے جاتے تھے۔ اس کی جغرافیائی اہمیت کے پیش نظر یہ علاقہ کئی پرانی ریاستوں کا بھی تخت رہا ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ جس جگہ پر اکثر پرانے شہر واقع ہیں اور جہاں تجارت کے لیے بھی لوگوں کا آنا جانا ہوتا ہے۔ ایسے ہی شہروں میں مختلف مذاہب نے اپنی عبادت گاہیں بھی بنائیں۔ یہ میری ایک رائے ہے جس سے اتفاق یا اختلاف بھی کیا جاسکتا ہے۔

یہ بات بھی شاید آپ کے لیے بہت عجیب ہو۔ کہ ہندوستان پر حملہ کرنے والے پہلے لوگ مسلمان نہیں تھے۔ تاریخ سے پتا چلتا ہے کہ جس نے سب پہلے ہندوستان پر پہلا حملہ کیا وہ وسطی ایشیاء سے آنے والے آرین تھے۔ بعد ازاں سکندر اعظم نے تیسری صدی قبل مسیح میں اس ملک پر حملہ کیا اور موجودہ پنجاب تک محدود رہا اور یہیں سے براستہ سندھ، بلوچستان اور ایران چلا گیا، ایران میں ہی اس کی وفات ہوئی۔ اس کے بعد ماتھورا پر مختلف ہندو حکمرانوں نے حکومت کی لیکن ایک وقت آیا جب یہاں پر ایران سے آنے والے لوگوں نے حملہ کیا۔

وہ لوگ مسلمان نہیں تھے۔ یہ اسلام سے پہلے کی بات ہے۔ آپ نے چیستان کا نام تو سنا ہو گا۔ یہ چرواہوں کا ایک گروہ تھا جو وسط ایشیاء سے اٹھا اور اس نے یورپ اور ایشیاء کے ایک بڑے علاقے پر قبضہ کیا۔ انھوں نے پہلی صدی عیسوی میں ماتھورا پر بھی سو سال سے زائد حکومت کی۔ اس واقعے کے تقریباً نو سو سال بعد غزنوی نے ہندوستان پر حملے کیے۔

اس طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ہندوستان ایک قدیم دور سے ہی بیرونی حملہ آوروں کا پسندیدہ ملک رہا ہے۔ اس کی خوبصورتی، یہاں کی آب و ہوا، وافر مقدار میں غلہ، دریا، ندی نالے خوبصورت منظر دور دور سے لوگوں کو کھینچ کر لے آتے تھے۔

وہ جو کہتے ہیں کہ اس کا حسن ہی اس کا قاتل ٹھہرا۔ یہی ہندوستان کے ساتھ بھی ہوا اور ہوتا چلا آ رہا ہے۔ کب تک۔ جب تک اہل پاک و ہند اپنی حفاظت کے قابل نہیں ہو جاتے۔ جس کا امکان اسی وقت پیدا ہو سکتا ہے جب اس خطہ کے لوگ اپنے مسائل اور اختلافات کو باہمی گفتگو سے حل نہیں کر لیتے۔

ایسا کب ہو گا، معلوم نہیں لیکن امید ضرور ہے۔ موجودہ نسل سے نہیں آنے والی نسل سے قوی امید ہے۔

ماتھورا شہر ایک وادی میں واقع ہے اور مندر ایک پہاڑی کے اوپر ہے۔ اس علاقے میں مسلمان کبھی بھی اکثریت میں نہیں رہے۔ اورنگزیب نے اس مندر کی دیوار کے بالکل ساتھ ہی ایک شاہی عید گاہ بنائی جو اب بھی موجود ہے۔ ہندو یہ کہتے ہیں کہ یہ بھی ایک مندر کی جگہ پر بنائی گئی لیکن عام طور پر اس بات کو سچ نہیں مانا جاتا البتہ یہ ضرور کہا جاتا ہے کہ اس مندر کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے اس دیوار سے دیوار ملا کر شاہی عید گاہ بنائی گئی۔

اورنگ زیب نے اس شہر کا نام بھی بدل کر اسلام آباد رکھ دیا تھا۔ میرے لیے بھی بڑی حیرانی کی بات تھی کہ ہمارے اسلام آباد شہر سے پہلے بھی اسلام آباد نام کا ایک شہر موجود تھا۔ میرے علم کے مطابق موجودہ اسلام آباد شہر سے پہلے ہمارے شہر ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ایک محلہ آباد ہوا تھا جس کا نام اسلام پورہ تھا۔ اس طرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہمارے اسلام آباد سے پانچ سو سال پہلے بھی ایک شہر موجود تھا جس کا نام اسلام آباد تھا۔ اس شہر کے ایک گورنر عبدالنبی نے یہاں جامع مسجد بھی بنوائی تھی۔ اس شہر کی تاریخ بہت پرانی اور دلچسپ ہے۔ یہ شہر تین ہزار سال پرانا ہے جس پر ہندوؤں، جین، بدھ مت، چیستان سے آئے چرواہوں اور مسلمانوں نے حکومت کی۔

میں نے پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ بعض اوقات کسی چیز کی خوبصورتی ہی اس کی تباہی کا سبب بن جاتی ہے۔ ایسا ہی ماتھورا کے ساتھ بھی ہوا۔

ہم مندر کے اندر چلے گئے اور میں حسب معمول اپنے دوستوں سے الگ ہو کر مختلف چیزیں دیکھتا رہا۔ ایک چیز جو میں نے بڑی شدت سے محسوس کی یہاں پر آنے والوں کی اپنے مذہب سے عقیدت تھی۔ میں نے دیکھا کہ جو لوگ بھی یہاں آتے وہ اپنے بتوں کی پوجا اور مختلف گانے گاتے وقت اتنا مگن ہو جاتے کہ انھیں کوئی اور ہوش نہ رہتا۔ یوں لگتا تھا کہ اس کام سے انھیں بہت زیادہ لطف آتا ہے۔ میں ایک چھوٹی سی دکان پر کھڑا دیکھ رہا تھا کہ ایک آدمی نے ایک ٹرے میں بہت سارے بت بنا کر رکھے ہوئے تھے۔ مجھے بہت عجیب لگا جب میں نے دیکھا کہ اس نے انسانی اعضائے رئیسہ کے بت بھی بنا کر رکھے تھے۔ میں نے کئی مندروں میں دیکھا ہے کہ ہندوؤں کی بنائی ہوئی تصاویر میں ایسا ہی نظر آتا ہے۔

ہم کچھ وقت گزارنے کے بعد واپس آئے تو دیکھا کہ ایک جگہ پر بہت ساری بوڑھی عورتیں بیٹھی کچھ گا رہی تھیں اور یہ آنے جانے والے سے بھیک مانگ رہی تھیں۔ گائیڈ نے بتایا کہ یہ وہ عورتیں ہیں جن کا کوئی والی وارث نہیں ہے اور یہ اپنی بقیہ زندگی اسی مندر میں آ کر گزارتی ہیں۔ یہ ان کا اولڈ ہوم تھا۔ گائیڈ نے مجھے ایک اور علاقہ بھی دکھایا جسے گؤشالہ کہتے ہیں۔ جب گائے بوڑھی ہو جاتی ہے اور دودھ دینے کے قابل نہیں رہتی تو اسے ذبح کرنے کی بجائے باقی زندگی گزارنے کے لیے یہاں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ یہاں پر وہ اپنی طبعی موت مر جاتی ہے۔ وہاں سے باہر نکل کر وادی میں ہمیں ایک بہت بڑا شہر نظر آیا جس کی آبادی تقریباً پانچ لاکھ سے زائد تھی۔ اس مندر میں ہر سال ایک میلہ لگتا ہے جس میں 40 لاکھ کے قریب لوگ شریک ہوتے ہیں۔ جس سے آپ اس مندر کی اہمیت کا اندازہ کر سکتے ہیں۔

یہ میرا مشورہ ہے کہ اگر آپ کسی بھی مذہب کے ماننے والوں کو جاننا چاہیں تو آپ کو ان کی عبادت گاہوں میں ضرور جانا چاہیے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments