کیا جسٹس منیر کے آسیب سے نجات مل سکے گی؟


سپریم کورٹ نے آج بھی قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی طرف سے آئین کی شق 5 کا حوالہ دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے کی آئینی حیثیت پر کوئی حکم جاری کرنے سے گریز کیا ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سماعت کے آغاز میں یہ تاثر دیا تھا کہ عدالت آج شام تک کوئی ’مناسب‘ حکم جاری کرے گی لیکن بعد میں سماعت منگل کو دن کے بارہ بجے تک ملتوی کردی گئی۔

حیرت کا امر ہے کہ ایک طرف تو چیف جسٹس کو ملک میں پیدا ہونے والے آئینی و سیاسی بحران پر اس قدر بے چینی لاحق تھی کہ انہوں نے اتوار کو عدالت عظمیٰ کے دروازے کھلوائے اور آئین کی شق 184(3) کے تحت قومی اسمبلی میں رونما ہونے والے واقعات اور اس کے فوری بعد وزیر اعظم کی طرف سے صدر مملکت کو قومی اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس بھجوانے کے معاملہ پر غور کا عندیہ دیا۔ شق 184(3) کے تحت سپریم کورٹ کو عوامی اہمیت کے معاملہ کا از خود نوٹس لینے کا حق حاصل ہے۔ البتہ یہ معاملہ بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سے متعلق ہونا چاہئے جن کا ذکر آئین کے پہلے باب کے دوسرے حصے میں کیا گیا ہے۔ اس شق کے تحت سپریم کورٹ کے کسی فیصلہ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ عدالت عظمی کو ثابت کرنا ہے کہ اس معاملہ میں سوموٹو کا استعمال فوری انصاف کی فراہمی کے لئے کیا گیا ہے۔ اس شق کی آڑ میں کسی ناقابل قبول فیصلہ کو مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی۔

چیف جسٹس کے سو موٹو سے یہی ظاہر ہوتا تھا کہ چیف جسٹس قومی اسمبلی میں رونما ہونے والے واقعہ اور ڈپٹی اسپیکر کی واضح آئین شکنی کی صورت حال کو عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی سمجھتے ہیں جس کی وجہ سے انہوں نے چھٹی والے دن کسی پٹیشن کے بغیر ہی سو موٹو اختیار کے تحت کارروائی کرنا ضروری سمجھا۔ گزشتہ روز منعقد ہونے والی سماعت میں ہی اس حوالے سے فوری عدالتی حکم آنا چاہئے تھا تاکہ یہ واضح ہوجاتا کہ سپریم کورٹ کسی آئین شکنی کو برداشت نہیں کرے گی خواہ اس کا ارتکاب کسی بھی عہدیدار اور کسی بھی طریقے سے کیا گیا ہو۔ لیکن اتوار کو یہ کہہ کر کارروائی ملتوی کردی گئی کہ لارجر بنچ فریقین کے دلائل سن کر کوئی فیصلہ دے گا۔

آج بھی سپریم کورٹ کا پانچ رکنی بنچ قومی اسمبلی میں رونما ہونے والے سنگین آئینی بحران پر کوئی حکم جاری کرنے میں ناکام رہا۔ اوّل تو چیف جسٹس نے اس معاملہ کی سماعت کے لئے جو پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا ہے، اس میں ایک بار پھر سینئر ججوں کو بنچ میں شامل کرنے کی روایت نظرانداز کی گئی ہے۔ چیف جسٹس اگرچہ خود اس بنچ کی سربراہی کررہے ہیں لیکن باقی ججوں میں سینارٹی کے حوالے سے چوتھے، پانچویں، آٹھویں اور بارھویں نمبر پر موجود ججوں کو شامل کیا گیا ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال کے بعد سینارٹی کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ہیں۔ انہوں نے صدارتی ریفرنس پر بنچ کی تشکیل کے وقت چیف جسٹس کو تین صفحات پر مشتمل ایک خط لکھا تھا جس میں اہم آئینی معاملات پر غور کے لئے سینئر ججوں کو شامل کرنے کی روایت کا ذکر کرتے ہوئے اس طرف نشاندہی کی تھی۔ اس خط سے یہ واضح ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے موجودہ 14ججوں میں چیف جسٹس کی ترجیحات اور انتظامی طریقہ کار کے خلاف رائے پائی جاتی ہے۔

گزشتہ دنوں ایک سبکدوش ہونے والے جج کے اعزاز میں منعقدہ ریفرنس سے خطاب میں جسٹس بندیال نے واضح کیا تھا کہ بنچ کی تشکیل چیف جسٹس کا استحقاق ہے۔ اس کے فیصلہ کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات سے اتفاق کے باوجود کسی بھی ادارے کے سربراہ کو اپنے ادارے کے وقار اور عہدے کی نزاکت کا احساس بھی کرنا چاہئے۔ قومی اسمبلی میں رونما ہونے والی صریح آئین شکنی پر غور کے لئے بنچ بناتے ہوئے بھی سینارٹی کے اصول کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ عدالت اس معاملہ پر کوئی بھی فیصلہ جاری کرے لیکن موجودہ حالات میں اس کی غیر جانبداری مشکوک رہے گی اور یہ آئین کی حفاظت کے لئے پائے جانے والے اضطراب کاحل نکالنے کی بجائے مزید تشویش اور انتشار کا سبب بھی بن سکتا ہے۔

خاص طور سے آج کی سماعت کے دوران چیف جسٹس کا پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق نائیک کے ساتھ مکالمہ بھی افسوسناک لب ولہجہ لئے ہوئے تھا۔ فاروق نائک نے اس اہم آئینی معاملہ پر غور کے لئے فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا کی جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ’ اگر انہیں بنچ میں شامل ججوں کی قابلیت پر شبہ ہے تو وہ ابھی اٹھ جاتے ہیں‘۔ حالانکہ اسی مکالمہ کے دوران جب دلیل دیتے ہوئے فاروق نائیک نے عدالت کو بتانے کی کوشش کی تھی کہ ڈپٹی اسپیکر نے تین منٹ کے مختصر وقت میں تحریک عدم اعتماد مسترد کر کے اجلاس برخاست کردیا تو چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ’آپ جذباتی باتیں نہ کریں، قانونی نکتہ واضح کریں‘۔ ایک طرف فاروق نائیک جیسے سینئر، تجربہ کار اور خاموش طبع وکیل کو جذبات سے گریز کا مشورہ دیا گیا لیکن ایک فل کورٹ بنچ کی درخواست پر ججوں کی ذاتی قابلیت کا عذر تراش کر جذباتی دلیل کے ذریعے آگے بڑھنے کی کوشش کی گئی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کو وضاحت کرنا پڑے گی کہ اگر قومی اسمبلی میں پیش آنے والا واقعہ آئین کی کھلی خلاف ورزی نہیں تھا اور اس سے عوام کے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوئے تھے تو انہوں نے اس معاملہ پر 184(3) کے تحت ازخود نوٹس لینے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟ اور اگر واقعی یہ معاملہ آئین شکنی کا کھلا وقوعہ ہے تو اس پر حکم جاری کرنے میں لیت و لعل سے کیوں کام لیا جارہا ہے؟ آج کی عدالتی کارروائی کے دوران فاضل ججوں کی طرف سے اسپیکر کے اختیار میں عدالتی مداخلت کے حوالے سے شق پر سوالات اٹھانے کے علاوہ تحریک عدم اعتماد پر بحث نہ کروانے جیسے معاملات پر نکتہ آفرینی کی گئی لیکن ڈپٹی اسپیکر کے آئین شکن اقدام پر براہ راست کوئی ریمارکس یا رائے سامنے نہیں آئی جس نے ملکی آئین کی بنیاد کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس طرز عمل کی اگر اب روک تھام نہ کی جا سکی تو ملکی جمہوری نظام پر اس کے دوررس منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

حکومت کی ملی بھگت سے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے ایک غیر متوقع رولنگ کے تحت قومی اسمبلی کے ایک ایسے اجلاس میں تحریک عدم اعتماد مسترد کی جو اس تحریک پر ووٹنگ کے لئے طلب کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اچانک قومی اسمبلی توڑنے کا مشورہ اور فوری طور سے اسمبلی توڑنے کے طریقے سے بھی یہی واضح ہوتا ہے کہ حکومت نے اپنے ڈپٹی اسپیکر کے ذریعے جان بوجھ کر ایک غیر آئینی اقدام کیا ہے حالانکہ وہ قومی اسمبلی میں اکثریت کی حمایت سے محروم ہو چکی تھی۔ اس غیر آئینی حرکت کو نئے انتخابات کی آڑ میں چھپانے کے نام پر اب نئے انتخابات کا ڈھنڈورا پیٹا جارہا ہے۔

عبوری مدت کے لئے وزارت عظمی سے چمٹے ہوئے عمران خان نہایت ڈھٹائی سے یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ انہوں نے اپوزیشن کی درخواست پر اسمبلی توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کیا ہے۔ اب وہ انتخاب سے کیوں بھاگ رہے ہیں۔ عمران خان کے ترجمان اور ان کی شخصیت کے سحر میں مبتلا لوگوں کی بڑی تعداد بھی اس معاملہ کی آئینی حیثیت و اہمیت پر غور کرنے کی بجائے یہ دعویٰ کررہی ہے کہ اگر اپوزیشن میں دم ہے تو وہ عام انتخابات سے ’راہ فرار‘ اختیار نہ کرے۔ حالانکہ اگر اس ملک میں انتخابات کی بنیاد پر جمہوری نظام کو مستحکم کرنا مطلوب ہے تو ملکی آئین کے احترام کا اصول ماننا پڑے گا۔ کوئی حکومت یا سیاسی لیڈر آئین کو پامال کر کے عوام سے ووٹ لینے کی بات نہیں کرسکتا۔ عمران خان اور ان کی حکومت کو یہ پینترا استعمال کرنے کی بجائے کہ اپوزیشن سپریم کورٹ سے ریلیف لینے کی کوشش کرنے کی بجائے انتخابات کی تیار ی کرے اور سیاسی لحاظ سے عمران خان اور ان کی پارٹی کا مقابلہ کرے، اس بات کا جواب دینا چاہئے کہ عوامی خواہش کا اظہار قومی اسمبلی میں منتخب ہوکر آنے والے ارکان کے ذریعے ہوتا ہے۔ جو وزیراعظم اسمبلی میں اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ نہیں رکھتا اور آئین شکنی کو سیاسی ہتھکنڈا یا غیر ملکی مداخلت اور قومی مفاد پر حملہ قرار دیتا ہے، وہ کس منہ سے انتخاب اور عوامی رائے کا احترام کرنے کی بات کر سکتا ہے۔

بدقسمتی سے عمران خان نے اپنے فسطائی طرز عمل اور جمہوریت دشمن ہتھکنڈوں سے واضح کیا ہے کہ ان کے نزدیک ذاتی اقتدار قومی مفاد اور جمہوری انتخاب سے زیادہ اہم ہے۔ یہ اس ملک کی بدنصیبی ہے کہ بہت سے لوگ اس گمراہ کن پروپگنڈا کا شکار ہو کر عمران خان جیسے کم حوصلہ اور بھگوڑے شخص کو پرعزم اور ہوشیار لیڈر کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ عمران خان اور ان کے حامیوں کو یہ بھی غلط فہمی ہے کہ امریکہ کے خلاف نعرے بلند کر کے اور اپوزیشن کو امریکی ایجنٹ ثابت کر کے تحریک انصاف آئندہ انتخابات میں بہت بڑی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس ملک میں اب یا کچھ تاخیر سے اگر منصفانہ اور غیرجانبدار انتخاب منعقد ہوئے تو تحریک انصاف شاید دو اڑھائی درجن سے زیادہ نشستوں سے زیادہ پر کامیابی حاصل نہ کرسکے۔ تاہم اس وقت یہ بحث مطلوب نہیں ہے۔ فوری طور سے ڈپٹی اسپیکر اور وزیر اعظم کے غیر آئینی اقدام کا تدارک ہونا اہم ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس بات کی وضاحت بھی ہونی چاہئے کہ پاکستانی سفیر کے ساتھ امریکی اہلکار کی ملاقات میں کہاں یہ مذکور ہے کہ امریکہ عمران خان کے خلاف سازش کر رہا ہے؟ کیا پاکستانی عوام کو واقعی اتنا کم فہم سمجھا جا رہا ہے کہ وہ یہ مان لیں گے امریکی حکام اگر کوئی سازش کریں گے تو اس کا کھلم کھلا اظہار بھی کریں گے؟

پاکستان کے عسکری ذرائع اس بات کی تردید کررہے ہیں کہ قومی سلامتی کمیٹی میں فوجی قیادت نے وزیر اعظم کے خلاف کسی امریکی سازش کی تائید کی تھی۔ اس پس منظر میں آصف زرادری کا یہ مطالبہ جائز اور مناسب ہے کہ قومی سلامتی کونسل کے عسکری ارکان اس پراسرار مراسلے کے بارے میں اپنی پوزیشن واضح کریں۔ بلاول بھٹو زرداری کا یہ سوال بھی جائز اور درست ہے کہ اگر تحریک عدم اعتماد امریکی سازش تھی تو کیا اس کی حمایت کرنے والے 197 ارکان قومی اسمبلی اس امریکی سازش کا حصہ اور وطن دشمن ہیں؟ انہوں نے آئی ایس پی آر سے اس سوال کا جواب دینے کا مطالبہ کیا ہے۔

یہ معاملہ چونکہ سپریم کورٹ میں زیر غور ہے، اس لئے اس سوال پر بنچ میں شامل فاضل ججوں کو بھی غور کرنا چاہئے اور ایک آئین شکنی کی پردہ داری کا کوئی راستہ تلاش کرنے کی بجائے، یہ دیکھنا چاہئے کہ قومی اسمبلی کو سازشی اور دشمن کا ایجنٹ قرار دینے والی حکومت اور اس کے نمائندے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر کو کس حد تک ایک مقدس کرسی پر بیٹھ کر آئین کے خلاف اقدام کا اختیار دینا درست ہوگا۔ آج 4 اپریل ہے۔ 43 سال پہلے اسی روز سپریم کورٹ کے ایک ماورائے قانون و انصاف فیصلہ کی وجہ سے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی۔ موجودہ سپریم کورٹ ماضی کی غلطیوں کا تدارک تو نہیں کرسکتی لیکن ان سے سبق سیکھ کر ملک میں آئین کی بالادستی کو یقینی ضرور بنا سکتی ہے۔

قاسم سوری اور عمران خان کی صریح آئین شکنی کے معاملہ پر سپریم کورٹ کی کوئی ممکنہ لغزش یہی ظاہر کرے گی کہ جسٹس منیر کا آسیب ابھی تک ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کو اپنی گرفت میں لئے ہوئے ہے اور نظریہ ضرورت کا بھوت اب بھی ججوں کو راست گوئی سے روکنے میں کامیاب ہو رہا ہے۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2773 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments