اقتدار کی ہوس، نرگسیت اور مجروح ریاست پہ کاری وار


کسی گاؤں میں نرگسیت کا مارا ایک شیخی خورا رہتا تھا۔ گاؤں کے لوگوں کا شیخیاں مار مار کے اس نے ناطقہ بند کر رکھا تھا۔ گاؤں والے بشمول چوہدری اس کی شیخیوں سے زچ ہو چکے تھے۔ ایک دن اس کے بے تکے اور بلند بانگ دعووں سے تنگ آ کر گاؤں کے چوہدری نے پنڈال سجا کر اسے ایک نہایت شرارتی اور اتھرے گدھے کی ننگی پیٹھ پر بٹھا دیا اور کہا کہ اگر گدھا اس کو گرانے میں ناکام رہا تو اس کی ساری شیخیوں کو سچ مان لیں گے ورنہ آج کے بعد وہ گاؤں میں نظر نہ آئے۔

شیخی خورا سج دھج کے کلف لگے کپڑے پہن کر اونچا شملا کر کے چند کن ٹٹے حواریوں کے ساتھ بڑے تکبر سے آیا اور گدھے پر سوار ہو گیا۔ ایک تو گدھا اتھرا تھا دوسرا شیخی خورا بالکل اناڑی تھا اس لئے گدھے نے چھوٹتے ہی دولتیاں مارنا شروع کی تو عزت و وقار کو زمیں بوس ہوتا دیکھ کراس نے شملا یعنی پگ اتار کر اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑ لی۔ اب جیسے ہی اس نے پگ ہاتھوں میں پکڑی، گدھے نے اس کو گرا دیا اور دولتیاں مار مار کے اسے ادھ موا کر دیا اس سارے عمل میں بھی اس نے اپنی پگ دونوں ہاتھوں میں پکڑ کے رکھی اور اس کو زمین پر نہ گرنے دیا۔

کیونکہ گرتے ہوئے گدھے کی لگام اس کی ٹانگ میں پھنس گئی تھی لہٰذا گدھا اسے دولتیاں بھی مارتا رہا اور گھسیٹتا بھی رہا۔ پگ اس نے اب بھی اپنے ہاتھوں میں پکڑ رکھی تھی۔ بالآخر اس کا پاؤں رسی سے آزاد ہوا اور وہ لڑھکتا ہوا گندے نالے میں جا گرا۔ تھوڑی دیر میں شیخی خورا زخموں سے چور، لیر و لیر لباس اور مجسم گندگی، تالاب سے برآمد ہوا اور دور سے نعرہ لگایا ’چوہدری جیتا میں ہوں میں نے پگ آخر تک نہیں گرنے دی‘ ۔

صاحبو کچھ یہی حال کپتان کا ہوا ہے۔ عمران خان نے لگ بھگ پونے چار سال حکومت کی۔ تحریک عدم اعتماد جو خالصتاً ایک آئینی عمل ہے، اس پر جس طرح کا رویہ عمران خان اور ان کے وزراء نے اختیار کیا وہ کسی بھی زاویہ سے کسی ملک کے سربراہان والا نہیں، بلکہ ایک یونین کونسل کے ممبران کے لیول سے بھی بہت نیچے ہے۔ اقتدار میں رہنے کے لئے زوال اور پستی کی نئی حدود کو متعارف کروایا گیا۔

رہنما کی شخصیت کردار اور اخلاقی اقدار کا نمونہ ہوتی ہے۔ اس میں تحمل ہوتا ہے، سچائی ہوتی ہے، معاملہ فہمی اور حوصلہ ہوتا ہے۔ رہنما بردبار ہوتا ہے، وہ کبھی بدزبانی نہیں کرتا، وہ تربیت ساز ہوتا ہے، وہ اپنے پیچھے چلنے والوں کو جاہل نہیں رہبر بناتا ہے۔ جس قوم کے سربراہ سٹیج پر آ کر مسخروں جیسی حرکتیں کرنے لگیں، تواتر سے اور فخریہ جھوٹ بولیں اور اقتدار کے لیے ذلت اور پستی کی آخری حد سے بھی گزر جائیں، اس قوم کو دنیا میں عزت نہیں رسوائی ملا کرتی ہے۔

جب اقتدار نہیں تھا تو لوگوں کی غربت سے تکلیف ہوتی تھی۔ روپے کے ڈی ویلیو ہونے پہ کڑھتا تھا۔ بجلی گیس اور پٹرول کی قیمتوں کو آدھا کرنے کا خواب بیچتا تھا۔ کرپشن کا راگ الاپتا اور جاپتا تھا۔ پہلے 90 دنوں میں ملک کو شاندار چمکیلے راستے پر ڈالنے کا سہانا خواب بیچتا تھا۔ پھر وہ وزیراعظم بنا اور ایک ایک چیز کو 3 اور 4 چار سے ضرب لگا کر لوگوں کو بیچا، پوری قوم کی جیبیں الٹی کر دیں۔ ملک کے جوانوں بچوں اور بوڑھوں کے آنسو نکال دیے۔ لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے لیے ترسا دیا۔ کرپشن کی سرپرستی کی اور کرپشن اور بدعنوانیوں کی نئی تاریخ رقم کی۔ چوہدری سرور کی گواہی بارش کا پہلا قطرہ ہے۔

اب اس کے سب جھوٹ بری طرح بے نقاب ہو چکے اور ہینڈسم اور کلر سمائل کے پیچھے بھیانک اور مکروہ چہرہ بری طرح بے نقاب ہو چکا ہے۔ جب بیچنے کے لیے کوئی نعرہ نہ بچا، تو اپنے آپ کو اقتدار میں رکھنے کے لئے فارن پالیسی منجن لے آیا ملکی سفارتکار کی روٹین کی کمیونیکیشن کو اپنے خلاف سازش، ملک کے خلاف سازش، سب کو غدار کہنے اور اپنی تعریف و توصیف پہ لگ گیا۔ امریکہ اور مغرب پر براہ راست الزام تراشی کی اور ریاستی وسائل سے، سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں کے خلاف مظاہرے کروائے۔

اتوار کے روز تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہونی تھی۔ اگر حکومتی وزراء اور وزیراعظم نے آئین کے مطابق ووٹنگ کا عمل شفاف طریقے سے ہونے دیا ہوتا تو آج پنجاب اور وفاق کے نئے انتظامی سربراہان کا فیصلہ ہو جاتا۔ تحریک عدم اعتماد کے پیش ہونے سے اب تک کا انتہائی غیر ذمہ دارانہ حکومتی رویہ بالخصوص وزیراعظم، وزیر داخلہ اور موجودہ وزیر قانون فواد چوہدری، کسی بڑے سانحہ کی نوید سناتا رہا اور ذمہ داران اس کو انجوائے کرتے رہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جس نے گند پھیلایا تھا اس کی مکمل صفائی تک وہ مکمل ذمہ داری کا رویہ رکھتے اور پھر ملک کو دستور کی شاہراہ پر ڈال کر سکون کا سانس لیتے۔ والدین سے زیادہ کس کو پتا ہوتا ہے کہ بچے کا مزاج کیسا ہے۔ بہرحال چیمبر میں پھنسی آخری گولی چل گئی ہے اور پہلے سے چور ریاست کے لاغر وجود میں جا پیوست ہوئی ہے۔

انتہائی مجروح ریاستی لاشے کو جب فوری طبی امداد فراہم کرنے کے لیے ہسپتال پہنچایا گیا تو سرجنوں نے نہایت مہربانی فرما کر اتوار کے روز ہسپتال کے تالے کھولے، آخری سانسیں لیتے ریاستی وجود کو دیکھا، مضطرب ورثا کو دیکھا اور فرمایا مریض کی حالت کافی خطرناک ہے لیکن آپ تحمل رکھیں علاج کل شروع ہو گا آپ سب دعا کریں اور پریشان نہ ہوں۔

محمد سجاد آہیر xxx

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد سجاد آہیر xxx

محمد سجاد آ ہیر تعلیم، تدریس اور تحقیق کے شعبے سے ہیں۔ سوچنے، اور سوال کرنے کا عارضہ لاحق ہے۔ بیماری پرانی مرض لاعلاج اور پرہیز سے بیزاری ہے۔ غلام قوموں کی آزادیوں کے خواب دیکھتے اور دکھاتے ہیں۔

muhammad-sajjad-aheer has 38 posts and counting.See all posts by muhammad-sajjad-aheer

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments