غیرت کے نام پر آئین کا قتل


بالآخر عمران خان نے آئین پر خود کش حملہ کر ہی ڈالا ہے، جیسا کہ ان کے وزرا عوامی اجتماعات میں کہہ رہے تھے کہ ان کا دل کرتا ہے کہ تحریک عدم اعتماد لانے والی پوری کی پوری اپوزیشن پر خود کش حملہ کر دیں۔ یہ الگ بات کہ نئی نسل والے کرکٹ کی زبان میں کہہ رہے ہوں گے کہ عمران خان نے یارکر پھینک کے اپوزیشن کو کلین بولڈ کر دیا بلکہ تینوں وکٹیں اڑا دی ہیں۔ تاہم ابھی دیکھنا ہو گا کہ وکٹیں کس کی اڑیں، اپوزیشن کی، آئین کی یا ملک کی؟

نذیر فیض مگی سرائیکی وسیب کے انتہائی معروف شاعر تھے، ان کی ایک نظم ہے ’کالا کالی‘ جس میں ایک معصوم بچہ اپنے والد سے پوچھتا ہے، ”ابا جی ناراض نہ تو ایک بات پوچھوں، میری بڑی بہن کو سارے رشتہ داروں نے مل کر کیوں گلا گھونٹ کر مار دیا حالانکہ وہ گھر کا کام کاج کر رہی تھی، والد کہتا ہے تمھیں بتاتا ہوں میرا بیٹا لیکن کس کو بتانا نہیں، صبح سویرے وہ کسی غیر مرد کے ساتھ کھڑی تھی، اس کو گلے مل رہی تھی، اس لیے اس کو مار دیا۔

معصوم بچہ پھر کہتا ہے، ابا جی اگر ناراض نہ ہوں تو، پچھلے سال میرا بڑا بھائی دوسری بستی کی ایک لڑکی ساتھ (اسی طرح) پکڑا گیا تھا، لیکن اس کو مارنے کی بجائے آپ نے معززین کے پاؤں پہ پگڑی رکھ کے بچا لیا تھا، جبکہ الٹا میری دو بہنیں بھی چٹی میں (حرجانہ) کے طور پر دیدی تھیں، اگر میر بہن نے غلط کیا تھا تو پھر بیٹے قتل کیوں نہ کیا؟“

سچی بات ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامے پر اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد نمودار ہوتے ہی کچھ لوگوں کی قومی غیرت اور خود مختاری و خودداری کی رگ بھی ہوبہو اسی طرح پھڑک اٹھی جس طرح اس باپ نے اپنی جوان بیٹی کو کسی غیر مرد کے ساتھ کھڑے ہونے کا سن کر گلا گھونٹ کے موت کی وادی میں پہنچا دیا، اس میں شبہ نہیں کہ ہمارے بہت سے دور دراز علاقوں میں غیرت کے نام پر قتل ایسے ہی ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ کالا کالی (کارو کاری) کی روایت نہ تو سرائیکی، سندھی اور نہ ہی براوئی کلچر میں ملتی ہے لیکن وادی سندھ میں باہر سے آ کر قل و غارت اور جنگ و جدل کی روایات کے بیج بونے والوں نے اس کو پروان چڑھایا، اب سرائیکی وسیب، اندرون سندھ، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں یہ ایک ناسور بن کر چکا ہے۔

مگر اہم سوال ہے کہ غیرت اور کارو کاری کے نام پر بیٹی کیوں قتل ہوتی ہے بیٹا کیوں بچ جاتا ہے، نہ صرف بچ جاتا ہے بلکہ اسے بچانے کے لئے بہنوں کو ونی ہونا پڑتا ہے۔ بیٹی کو موت کے گھات اتارنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ کوئی چور اچکا، نوسر باز صرف اتنا کہہ دے کہ آپ کی بیٹی سنسان جگہ فلاں کے ساتھ کھڑی باتیں کر رہی تھی، باپ آؤ دیکھتا ہے نہ تاؤ، اچانک غیرت جاگ جاتی ہے اور کلہاڑی کے ایک ہی وار میں گردن تن سے جدا ہوجاتی ہے۔ حالانکہ ملک میں قانون، پولیس اور عدالتیں بھی موجود ہیں، مگر چھ ماہ بعد وہی غیرت مند باپ، بھائی یا شوہر موچھوں کو تاؤ دیتا بری ہو کر جیل سے باہر آ جاتا ہے۔

کیا ہمارے ملک کی آئین نامی کتاب کا حشر بھی اسی مظلوم بیٹی جیسا نہیں ہو رہا، جب بھی طاقت کے نشے میں ڈوبا ایک ڈکٹیٹر چاہتا ہے اس کو کاغذوں کا پلندا کہہ کر ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتا ہے اور سرکاری ٹی وی پر قومی غیرت اور خود مختاری و خودداری کے بھاشن دینے لگتا ہے، جبکہ لوگ بھی سے ٹھیک اسی طرح داد دیتے ہیں جس طرح بیٹی کو قتل کر کے رہا ہونے والے ”غیرت مند“ باپ کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر استقبال کیا جاتا ہے۔ لوگ قطعاً اس بات کی تصدیق کرنے میں دلچسپی نہیں رکھتے کہ جس مظلوم ذات پر یہ الزام لگایا گیا، کیا واقعی درست تھا؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ جس نے الزام لگایا وہی اس سے ہم بستری کا تقاضا کر رہا ہو اور انکار پر الزام لگا دیا ہو کہ یہ تو بد کردار عورت ہے، فلاں وقت، فلاں جگہ، فلاں کے ساتھ گلے مل رہی تھی۔

ہوبہو اسی طرح ہماری غیرت مند عوام کو اس بات کی تصدیق کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں کہ جو شخص قومی غیرت، خود مختاری اور خودداری کے بھاشن دیتے ہوئے عدم اعتماد کی (جمہوری) تحریک کو غیرملکی سازش سے تعبیر کر رہا ہے، اس کے الزام کی تصدیق ہی کر لی جائے کہ اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ؟

مگر ہم تو غیرت مند قوم ہیں، گھاس کھا کر ایٹم بم بنانے والی غیرت مند قوم، جو اپنے بچوں او بچیوں کو تعلیم دینے سے قاصر ہے، جو اپنے عوام کو پینے کا صاف پانی، صحت کی سہولیات، روزگار اور دو وقت کی روٹی دینے سے تو قاصر ہے مگر امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین کو آنکھیں دکھانا عین قومی غیرت کا تقاضا سمجھتی ہے۔ تاہم ہمارے اندر اتنی قومی غیرت نہیں کہ ڈالر لے کر یمن، بحرین، افغانستان، ایران و دیگر ملکوں میں دہشت گرد نہ بھیجیں۔

قومی غیرت کا فلسفہ بھی عجیب ہے، جو ہمیں یورپی سفرا کی جانب سے ایک آزاد و خود مختار ملک کے خلاف جارحیت کی مذمت کی گزارشات پر مبنی خط ملنے پر تو بپھرا دیتا ہے مگر جب ہم اسی یوپی یونین سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر برآمدات کے کوٹے کی بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں تو قومی غیرت کہیں سو جاتی ہے۔ امریکہ جب یوکرائن پر حملے کے وقت روس کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے پر آئی ایم ایف کے قرضے کی قسط کے اجرا میں معاونت سے انکار کرتا ہے تو اچانک ہماری قومی غیرت پھن پھیلا کر کھڑی ہو جاتی ہے اور ہم اپنے آئین کو پامال کرنے والے (سلیکٹڈ) وزیراعظم کو اپنا غیرت مند رہنما قرار دے کر نعرے لگاتے نہیں تھکتے، جبکہ اس وقت ہماری قومی غیرت بھنگ پی کر سو جاتی ہے جب ہماری قومی سرحدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دشمن ملک کا پائلٹ جہاز  لے کر گھستا ہے اور پکڑا جاتا ہے تو ہم اسے چائے پلا کر واپس بھیج دیتے ہیں، اس کے خلاف قانون کے تحت نہ تو مقدمہ قائم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں اور نہ ہی کوئی سڑکوں پہ آنے کی دھمکی۔ دنیا کا سب سے بڑا دہشت گرد ہمارے ملک سے پکڑا جاتا ہے مگر اسی دہشت گرد کو پکڑنے والوں کے خلاف تو ہماری قومی غیرت اچانک جاگ اٹھتی ہے جبکہ یہ کوئی نہیں سوچتا کہ وہ دہشت گرد (بغیر ویزے کے ) کس کی اجازت سے یہاں مقیم تھا۔

دراصل غیرت بھی میرے دوست شفقت گوپانگ کی طرح ہے، کافی سال پہلے کی بات ہے کہ وہ ملتان سے اپنے 125 ہنڈا موٹر سائیکل پر واپس فاضل پور آ رہا تھا کہ راستے میں (محمد پور دیوان کے قریب) دیکھا کہ میلہ لگا ہوا ہے اور ورائٹی شو چل رہا ہے (یہ اس وقت کی بات ہے جب ہمسایہ ملک میں طالبان کی حکومت تھی اور پاکستان میں بھی ملائیت کا دور دورہ تھا) ، شفقت وہیں رک گیا اور ٹکٹ لے کر لڑکیوں کا رقص دیکھنے چلا گیا، وہ کرارے نوٹوں کی گڈیاں اچھال کر اعضا کی شاعری کو بھرپور داد دینے میں محو تھا، ساتھ ہی ٹھہرے کا پیگ بھی چل رہا تھا کہ اچانک پگڑیوں والے ملاؤں نے لاٹھیوں سے حملہ کر دیا، لڑکیاں چیختی چلاتی ٹینٹ کے اندر چلی گئیں، ملاؤں نے شفقت پر بھی لاٹھیاں برسانا شروع کر دیں اور وہ کرسی سے نیچے گر گیا۔

بعد میں شفقت گوپانگ نے خود بتایا کہ جب وہ نیچے گرا ہوا تھا اور لاٹھیاں کھا رہا تھا تو ایک ملاں نے اس کا کالر پکڑ کر کھینچا، جیسے ہی ملاں نے اس کا کالر پکڑا تو شفقت کی غیرت جاگ اٹھی اور اس نے نیفے میں اڑسا پستول نکال کر سیدھا فائر کیا۔ بلکہ فائرنگ کرتے ہوئے 125 ہنڈا موٹر سائیکل سٹارٹ کیا اور گھر پہنچ گیا۔ یار دوست اکثر قہقہہ لگا کر کہتے ہیں، جب ملاں لاٹھیاں مار رہے تھے اور وہ نیچے گرا ہوا تھا تب شفقت کی غیرت نہیں جاگی، لیکن جیسے ہی کسی ملاں نے کالر پکڑا تو اچانک اس کی غیرت جاگ اٹھی

قومی غیرت ہرگز نہیں سوچتی کہ امریکہ کے لئے پاکستانی برآمدات (کل درآمدات کا) 21 فیصد برطانیہ کے لئے 8 فیصد جبکہ یورپی یونین کے لئے (کل برآمدات کا) 28 فیصد ہیں، اس کے برعکس چین کے لئے بالترتیب 10 فیصد اور روس کے لئے ایک فیصد سے بھی کم ہیں، کیا ہماری معیشت قومی غیرت کے اس بخار کے نتیجے میں ملکی برآمدات میں 47 فیصد کمی کو برداشت کر سکتی ہے۔ خیال رہے کہ 47 فیصد برآمدات میں کمی کا مطلب ہے 12 ارب 57 کروڑ ڈالر، اگر خدانخواستہ قومی غیرت کے اس علمبردار (عمران خان) کے کسی فیصلے نتیجے میں امریکہ، برطانیہ اور یورپ کے لئے پاکستانی برآمدات میں کسی قسم کی کوئی رکاوٹ آئی تو ان کی درآمدات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی بلکہ یہ ساڑھے بارہ ارب ڈالر کی درآمدات وہ خطے کے دوسرے ممالک (بھارت اور بنگلہ دیش) سے منگوائیں گے۔

نیز اگر نوبت امریکہ، برطانیہ و یورپ میں مقیم پاکستانیوں کو ملک بدر کرنے تک پہنچی تو متوقع معاشی خمیازے کے اعداد و شمار بھی ملاحظہ کریں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے دوران سمندر پار پاکستانیوں کی طرف سے بھجوائی جانے والی ترسیلات زر کا مجموعی حجم 31 ارب 60 کروڑ ڈالر کی تک پہنچنے کی توقع ہے جبکہ امریکہ، برطانیہ اور یورپی یونین میں مقیم پاکستانیوں کا اس میں حصہ 11 ارب 29 کروڑ ڈالر ہو گا جو کہ مجموعی ترسیلات کا 35 فیصد بنتا ہے، اس طرح مذکورہ بالا عالمی طاقتوں کو بلاوجہ آنکھیں دکھانے کا پر جرمانہ (مجموعی طور) 24 ارب ڈالر ہو سکتا ہے، باقی آپ کی مرضی کیونکہ آپ ایک آزاد ملک کے آزاد اور غیرت مند شہری ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments