یہ کس کو تم نے سر دار کھو دیا لوگو


ذوالفقار علی بھٹو نے اعلیٰ تعلیم کیلی فورنیا اور آکسفورڈ سے حاصل کی، جنرل ایوب خان کے دور حکومت 1963 میں وزیر خارجہ کے اہم منصب پر فائز ہوئے تاہم حکومت سے شدید اختلافات کے بعد کابینہ سے الگ ہو گئے۔ علیحدگی کے بعد اپنے ہم خیال احباب کے ساتھ مل کر 30 نومبر 1967 میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی، پی پی پی کے منشور و مقبول ترین نعرے روٹی کپڑا اور مکان نے ذوالفقار علی بھٹو کو ملک کا سب سے مقبول لیڈر بنا دیا۔

مغربی و مشرقی پاکستان میں سیاسی بحران و سقوط ڈھاکہ کے بعد انہوں نے اقتدار سنبھالا، جس کی وجہ سے وہ سویلین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور پھر 1971 سے 1973 تک پاکستان کے صدر رہے جبکہ 1973 سے 1977 تک وہ منتخب وزیراعظم رہے۔ آمرانہ دور حکومت میں ذوالفقار علی بھٹو کو اس وقت کی سپریم کورٹ نے قتل کے مقدمہ میں سزائے موت سنائی اور عدالتی فیصلے پر چار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی، ان کا جسد خاکی لاڑکانہ گڑھی خدا بخش میں دفن کیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو اپنے سیاسی فلسفے کی بنا پر عوام میں مرتے دم تک اور بعد میں بھی ملکی سیاست کا اہم کردار رہے، ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو شہید نے اپنے والد کے افکار کو آگے بڑھایا، کئی اہم معاملات پر ناگزیر و غیر مقبول و کٹھن فیصلے بھی کرنے پڑے، تاہم بھٹو کے فلسفے کی حقیقی داعی بن کر بھٹو ازم کو بڑھاتے خود دہشت گردی کا نشانہ بن گئی، شہید رانی کی بعد پی پی پی کی سیاست بحرانوں کا شکار رہی تاہم آصف علی زرداری نے پارٹی کو بکھرنے سے روکنے میں اہم کردار ادا کیا، اس وقت محترمہ کے بیٹے بلاول بھٹو زرداری ملکی سیاست میں ایک نوجوان قیادت کی صورت میں ابھر کر سامنے آئے ہیں اور بھٹو کے افکار کو دوبارہ زندہ کرنے کے لئے ان کا سیاسی کردار قد آور و تجربہ کار سیاست دانوں کے برابر قرار دیا جاتا ہے۔ مبصرین کا ماننا ہے کہ آج بھی ذوالفقار علی بھٹو کے فلسفے، نظریات اور سیاسی ورثے کو ختم نہیں کیا جا سکا، جس کا مستقبل میں بھی کوئی امکان نہیں۔

ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کو عدالتی تاریخ کا جانب دارنہ فیصلہ تسلیم کیا جاتا ہے ، اس حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے آئین کے آرٹیکل 186 کے تحت مقدمہ کو ری اوپن کرنے کا فیصلہ کیا اور اس ضمن میں سپریم کورٹ میں ایک ریفرنس دائر کیا۔ جس میں عدالتی فیصلے پر نظرثانی کرنے کی استدعا کی گی۔ یہ ریفرنس پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں 2011 کو دائر کیا گیا، ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا گیا جب بھٹو کی اپنی سیاسی جماعت ملک میں برسر اقتدار تھی اور ملک بھر میں ان کی برسی کے حوالے سے چار اپریل سے تقریبات شروع تھی۔

پیپلز پارٹی کے اہم رہنما اور وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے متعدد بار بیان دے چکے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے کے فیصلے کے مقدمہ کو دوبارہ کھولا جائے۔ واضح رہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ کو دوبارہ کھولنے یا اس پر نظرثانی کے بارے میں بات کی گئی ہو، اس سے پیشتر بھی اس قسم کے مطالبے کیے جاتے رہے ہیں، ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے بعد پیپلز پارٹی تین مرتبہ اقتدار میں آ چکی ہے او یہ پہلا موقع تھا جب پارٹی کے بانی سربراہ کے خلاف مقدمہ کے فیصلے پر نظرثانی کے لیے ریفرنس دائر کیا گیا۔

سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف مقدمہ کو ری اوپن کرنے کے حوالے سے سیر حاصل بحث ملکی تاریخ کا حصہ بن چکی ہے، خیال رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پیپلز پارٹی کے وکلاء ونگ پیپلز لائرز فورم کے ایک عہدیدار میاں حنیف طاہر نے لاہور ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی تھی جس میں استدعا کی گئی تھی کہ جسٹس نسیم حسن شاہ کے خلاف کارروائی کی جائے کیونکہ انہوں نے اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ بھٹو کے خلاف مقدمہ کی سماعت کرنے والے بنچ پر بھٹو کو سزا دینے کے لیے خاصا دباؤ تھا اور بھٹو کو شہادتوں کی بنیاد پر سزائے موت سے کم کی سزا دی جا سکتی تھی۔ لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بنچ نے اس درخواست کو ابتدائی سماعت پر ہی مسترد کر دیا تھا۔

دسمبر 1971 کو سقوط ڈھاکہ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے مغربی پاکستان میں اقتدار سنبھال کر اہم اصلاحات کا نفاذ کیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کو متفقہ آئین دیا، بھارت سے شملہ معاہدہ کر کے ہزاروں مربع میل رقبہ اور جنگی قیدیوں کو بھارت سے آزاد کرایا۔ بھٹو کے دور میں نچلے طبقات کے حقوق کے لیے کئی اقدامات کیے، بھٹو کے دور میں ہونی والی اصلاحات میں بھاری صنعتوں کو قومی تحویل میں لیا گیا، بنکوں، انشورنس کمپنیوں اور پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قومی تحویل میں لینا ذوالفقار علی بھٹو کے بڑے اصلاحاتی اقدام میں شمار کیا جاتا ہے، اس کے علاوہ زرعی اصلاحات، عوام کو سستی ٹرانسپورٹ اور خوراک سمیت بنیادی مراکز صحت کا قیام اور غریبوں کے لئے علاج کی مفت سہولت، تعلیم اور علاج کے لئے بجٹ کا 43 فیصد مختص کرنا، پاکستانی عوام کو شناخت دینے کے لیے قومی شناختی کارڈ بنوانے کے لیے قانون سازی اور دیگر اصلاحات شامل ہیں۔

حکومت قائم ہونے کے تین سال کی کوششوں کے بعد بھٹو ایک متفقہ آئین دینے میں کامیاب ہوئے، ملک میں جمہوریت کے استحکام، تسلسل کے لئے یہ آئین پاکستان کا تاریخ ساز کارنامہ تھا۔ آئین پاکستان میں پہلی بار ختم نبوت ﷺ کے منکرین کے خلاف عملی اقدام کے طور پر جرت مندانہ آئین سازی کی گئی۔ 7 ستمبر 1974 ء کو عقیدہ ختم نبوت اور ناموس رسالت کے تحفظ کی طویل جد و جہد فتح مبین سے ہمکنار ہوئی اور پاکستانی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو آئینی طور پر غیر مسلم اقلیت قرار دیا۔ عقیدہ ختم نبوت مسلمانوں کے ایمان کی اساس اور روح ہے۔ تمام مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے علماء و مشائخ نے ہر دور میں اس عقیدہ کے تحفظ کے لئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دلوانا ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کا اہم کارنامہ ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو ایک ایٹمی طاقت بنانے کے لئے ایٹمی پروگرام کا آغاز کیا اور آج ان کے جرت مندانہ اقدام کی وجہ سے پاکستان مسلم اکثریت ممالک میں پہلی مسلم اکثریت ایٹمی مملکت بنی۔ جس کہ وجہ سے خطے میں طاقت کا توازن برابر ہوا تیسری دنیا کے ممالک اور مسلم امہ کے اتحاد کی کوشش میں ذوالفقار علی بھٹو نے دنیا کے 77 ترقی پذیر ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا اور مشترکہ مسائل کو ایک ہی پلیٹ فارم سے حل کرنے کی کوششوں کا انعقاد کیا، اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں اسلامی سربراہ کانفرنس کا نہ صرف انعقاد کیا بلکہ مسلم امہ کے اتحاد کے لیے ایسے گراں قدر فیصلے بھی کروائے۔

ذوالفقار علی بھٹو کے افکار و فلسفے کو آج بھی سیاست دان قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، جب کہ پاکستان پیپلز پارٹی آج بھی بھٹو کے نظریے کو پاکستان کے مسائل سمجھتی ہے۔ گو کہ اس وقت پاکستان پیپلز پارٹی کو سیاسی مشکلات و مساعد کا سامنا ہے، ان کی ٹاپ لیڈر قیادت مختلف مقدمات کا سامنا کر رہی ہے، لیکن عوام میں ذوالفقار علی بھٹو کی مقبولیت کو ختم نہیں کیا جا سکا، پاکستان کے لئے بھٹو کی خدمات کا اعتراف عالمی قیادت کرتی ہیں، پاکستان کو موجودہ مشکلات و عالمی چیلنجوں سے باہر نکالنے کے لئے ذوالفقار علی بھٹو جیسے بے باک اور جرت مند لیڈر کی کمی آج بھی محسوس کی جاتی ہے کہ ان کے متبادل قیادت عوام کو میسر نہ آ سکی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments