خدا کی رضا اور روتا ہوا مرد


داور بھاگتا ہوا جب نو ہزار روپے کی ایمرجنسی آپریشن کٹ کا تھیلا اٹھائے زنانہ وارڈ کے دروازے پر پہنچا تو وہاں وارڈ میں داخل دوسری عورتوں کے لواحقین نے اسے بتایا کہ آپ کے مریض کو اوپر لے گئے ہیں اس کی حالت خراب ہے۔ دو تین لوگوں نے بائیں طرف کو اوپر جاتی ریڑھ کی طرف اشارہ بھی کیا۔ داور نے بائیں طرف دیکھا تو چار لوگ اس کی بیوی کشف کا بیڈ دھکیلتے ہوئے اوپر کو لے جا رہے تھے۔ اسی اثنا میں اس کی پھوپھی اور خالہ وارڈ کے اندر سے نکلیں۔ انھوں نے منہ ڈھانپ رکھے تھے اور آنکھیں آنسوؤں سے تر تھیں۔ داور کو اپنے ہاتھ سے آپریشن کٹ اور زندگی نکلتے ہوئے ہوئے محسوس ہوئی۔

یہ منحوس گھڑیاں تب شروع ہوئیں جب ایک ہفتہ پہلے صبح اس کی آنکھ بھابی کی آواز سے کھلی کہ ملتان میں کمال انکل کو ہارٹ اٹیک ہوا ہے۔ ان کو اسپتال لے گئے ہیں۔ صبح اٹھتے ساتھ بندہ ویسے ہی کسی قابل نہیں ہوتا اور پھر اس خبر نے کہ باپ کو دل کا دورہ پڑ گیا ہے، دوار کی حالت اور خراب کر دی۔ اس کی دھڑکن تیز ہو گئی اور ہاتھ کانپنے لگے۔ کشف اور اس کا بیٹا بھی اٹھ چکے تھے۔ کشف امید سے تھی۔ پانچواں مہینہ ختم ہونے کو تھا۔ اس کے لیے یہ صدمہ مضر تھا لیکن ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ داور  نے بڑی مشکل سے کچھ حوصلہ جمع کیا اور اپنی بہن کو فون کیا۔ دونوں جانب سے آواز کی جگہ صرف آنسو اور سسکیاں نکلی۔ آخر داور نے ہمت کی اور ایک جملہ بولا۔ ”بیٹا فکر نہ کرنا میں آ رہا ہوں۔ “

اس کا بھائی ذوالقرنین کسی میٹنگ کے سلسلے میں شمالی علاقہ جات کے دورے پر تھا۔ بڑی مشکل سے اسے خبر ہوئی تو وہ بھی عازم سفر ہوا۔ داور اس سے پہلے باپ کے پاس پہنچ سکتا تھا لہٰذا اس نے فوراً پہلی بس پکڑی اور روانہ ہو گیا۔ ملتان پہنچ کر سیدھا اسپتال گیا اور باپ کو سلامت اور بات چیت کرتا دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی۔ رات تک ذوالقرنین بھی پہنچ گیا۔ اب ساری رات داور باپ کے پاس رہتا کہ ایک شخص کو رہنے کی اجازت تھی اور دن کو ذوالقرنین آ جاتا۔

دوسری رات اسپتال میں رہ کر جب داور واپس آیا تو گھر کی خواتین کو پریشان دیکھا۔ معلوم ہوا کہ کشف کی حالت خراب ہے اور اسے سرکاری اسپتال میں ایڈمٹ کرنے لگے ہیں۔ اب خدا جانے کیا مسئلہ تھا اور اتنا وقت تھا کہ اسے کسی اچھے اسپتال میں داخل کروایا جا سکے یا نہیں، اس نے جلدی سے بس پکڑی اور واپس لاہور آ گیا۔ اڈے سے اتر کر وہ اسپتال پہنچا۔ وہیل چیئر پر کشف کو دیکھ کر اس کے حلق میں گولا سا پھنس گیا۔ اس نے ضبط کیا اور بھابی سے بات کی کہ کیا کرنا ہے۔ بھابی کو لیڈی ڈاکٹر نے بتایا کہ معائنے میں صدمے کی وجہ سے خون کے دھبے دیکھے گئے ہیں اور واٹر بیگ کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔ مریضہ کو فوراً ایڈمٹ کروا دیں۔ مرتا کیا نہ کرتا، داور نے کشف کو ایڈمٹ کروا دیا۔

اس کا بیٹا بہت ہی حساس اور جذباتی طبعیت کا تھا۔ سات سال کا بچہ جو ہر وقت ماں سے چمٹا رہے اسے اب داور کیسے سنبھالے۔ یہ اس کے لیے ایک اور بڑی آزمائش تھی۔ اسپتال سے خالہ کے گھر گیا۔ بیٹے سے ملا اور اس کو بتایا کہ ماما سلپ ہو گئی ہے اور ٹانگ پر چوٹ لگی ہے تو ڈاکٹر کے  لے جا رہا ہوں۔ خالہ کے گھر دو تین کزن اور ان کے بچوں کے درمیان اس کا بیٹا کھیل کود میں مصروف تھا۔ بچے نے زیادہ اصرار نہیں کیا ساتھ جانے پر۔ کزن نے کندھے پر ہاتھ رکھ کر دبایا اور اشارہ کیا کہ فکر نہ کر، بچے کا خیال ہم رکھ لیں گے۔ داور کا دل کچھ ہلکا ہوا اور وہ پھر اسپتال پہنچ گیا۔

ایک پرائیویٹ کمرہ لیا اسپتال میں اور بھابی کو کشف کے پاس چھوڑ کر کمرے میں آ گیا۔ صوفے پر دراز ہوا ہی تھا کہ آنکھ لگ گئی۔ خواب میں داور نے صرف اپنے آپ اور بیٹے کو دیکھا۔ اسے کشف کہیں نظر نہ آئی۔ وہ پریشان ہوا اور ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ یہ دماغ بھی عجیب کھیل کھیلتا ہے۔

پانچ دن گزر گئے۔ کشف کی حالت میں بہتری نہ آئی۔ ایک تو وہ حاملہ عورتوں کے مسائل نہ جانتا تھا اور دوسرا اس کے پاس کوئی غم بانٹنے والا نہیں تھا۔ ایک دو دوست آئے اور حال چال پوچھ کر چلے گئے۔ مالی امداد کی بھی آفر کی لیکن خدا کا شکر ہے داور کو ابھی ضرورت نہیں تھی۔ سرکاری اسپتال میں وارڈ سے فارمیسی کے چکروں نے اس کو چکرا کر رکھ دیا تھا۔ ایک سوئی بھی چاہیے ہوتی تھی تو وہ فارمیسی سے لانی پڑتی تھی۔ وارڈ کے اندر کچھ نہیں رکھتے تھے ڈاکٹر اور نرسیں۔

دوائی لے کر آؤ تو ٹیکا یاد آ جاتا تھا نرسوں کو۔ وہ لے کر آؤ تو آگے ایک اور لسٹ تیار ہوتی تھی۔ وہ سوچتا تھا ایسے غیر پیشہ ورانہ لوگ کیا خیال کرتے ہوں گے کشف کا۔ شام کو داور نے جوتے اتارے تو اس کے سیدھے پاؤں کی ایڑی میں ایک روپے کے سکے جتنا چھالا بنا ہوا تھا۔ ابھی وہ جوگر پہن کر اسپتال میں پھرتا تھا تو یہ حال ہوا۔

اسے ہر معاملے میں اپنے بھائی ذوالقرنین کے مشورے کی عادت تھی۔ لیکن یہ عجیب معاملہ تھا۔ بھائی باپ کے پاس تھا۔ وہاں بھی سو مسئلے تھے۔ اب منٹ منٹ بعد داور کتنے فون کرتا۔ بہت سے فیصلے اسے خود لینے پڑے۔ ابھی تک کمال صاحب کو نہیں بتایا تھا کہ کشف کی کیا حالت ہے۔ ان کو سٹنٹ ڈل چکا تھا اور حالت خطرے سے باہر تھی۔

اس رات بھابی نے اسے بتایا کہ واٹر بیگ تقریباً ختم ہو گیا ہے اور بچے کو باہر ہر صورت میں نکالنا پڑے گا ورنہ کشف کے جسم میں زہر پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ وہ رات قیامت خیز تھی۔ بھابی نے داور کو بتایا کہ کشف کی چیخوں سے پورا وارڈ لرز رہا تھا۔ بڑی ڈاکٹر صاحبہ نے کہا ہے کہ صبح تک انشاء اللہ کچھ بہتری ہو جائے گی۔ انھوں نے کہا کہ ایک دو خون کی بوتلوں کا انتظام کر کے رکھیں۔

اس صبح جب داور خالہ اور پھوپھی کے لیے ناشتوں کے شاپر اور چائے لیے وارڈ کے باہر پہنچا تو اندر سے پھوپھی نے نکل کر کہا کہ ڈاکٹر کہہ رہی ہے جلدی سے آپریشن کٹ لے کر آئیں۔ روتے ہوئے پھوپھی کی آواز بھی نہیں نکل رہی تھی۔ داور نے وہ شاپر ان کو پکڑائے اور واپس داخلی دروازے کے پاس موجود فارمیسی کی طرف بھاگ پڑا۔ اس کے پاس اب نہ گھبرانے کا وقت تھا اور نہ ہی رونے دھونے کا۔ اور وہ روتا بھی کیوں، مرد تو روتے نہیں۔

آپریشن کٹ لیے وہ سیڑھیاں پھلانگتا آپریشن تھیٹر جا پہنچا۔ وہاں اس کی خالہ، پھوپھی اور بھابی موجود تھے۔ ایک نرس آ کر کٹ لے گئی۔ پھر ایک ڈاکٹر آیا اور ایک کنسینٹ (رضامندی کا کاغذ) داور کے سامنے کر دیا کہ اس پر دستخط کر دیں ہم مریضہ کو بے ہوش کرنے لگے ہیں۔ داور نے دستخط کر دیے۔ پھر ایک اور کنسینٹ لایا کہ بچہ نہیں بچ سکتا۔ یہ تو داور کو پہلے ہی معلوم تھا۔ اس نے ڈاکٹر کو کہا کہ کشف کو بچا لینا۔ ڈاکٹر نے اسے ایک نظر دیکھا اور کہا اس کی بھی کوشش کر رہے ہیں۔ تیسری مرتبہ وہ پھر کاغذ لے کر آیا تو سب کی سانس رک گئی۔ کشف کو وینٹی لیٹر پر شفٹ کر رہے تھے کہ حالت بہت خراب تھی اور مزید خون کی ضرورت تھی۔ دستخط کر کے داور بلڈ بینک کی طرف بھاگا اور دوستوں کو فون ملانے لگا۔

جتنا خون بلڈ بینک سے مل سکتا تھا وہ استعمال ہو چکا تھا۔ داور نے کسی کو خون دینے سے کبھی منع نہیں کیا تھا۔ چناں چہ وقت پڑنے پر خدا نے اس کی مدد کی اور چند گھنٹے میں اس نے خون کی چوبیس بوتلیں جمع کر لیں جن میں سے اٹھارہ کشف کے کام آئیں۔ کشف جس سکول میں پڑھاتی تھی اس میں کام کرنے والے اس کے ساتھی آ گئے خون دینے۔ داور کے تین کزن اور بہت سے خدا ترس لوگ جن کو پتہ چلتا گیا وہ آتے گئے۔ دو مرتبہ وینٹی لیٹر پر جانے کے بعد بڑی ڈاکٹر صاحبہ نے کشف کو بچا لیا۔

آپریشن تھیٹر کے باہر بیٹھے داور اور اس کے کزن کے پاس دو لیڈی ڈاکٹر آئیں اور پوچھا کہ داور کون ہے۔ داور نے اپنا بتایا تو کہنے لگیں خدا کا شکر ہے کشف کی جان بچ گئی۔ بچہ دانی کا زخم بھر نہیں رہا تھا۔ خون جسم میں جاتے ہی نکل جاتا تھا۔ دو مرتبہ جا کر واپس آئی ہے تمھاری بیوی۔ ابھی بھی آئی سی یو میں دو دن بہت اہم ہیں۔ داور نے ان کا شکریہ ادا کیا اور آئی سی یو کی کھڑکی سے کشف کو دیکھنے چل پڑا۔

رات ہی کشف کو ہوش آ گیا تھا۔ اس کے جسم پر تاروں اور نالیوں کا انبار تھا یہاں تک کہ گلے کے اطراف میں کان کے نیچے بھی کوئی آلہ لگا ہوا تھا۔ پھر اگلے دن اس کو کمرے میں لایا گیا۔ داور اب بیٹے کو بھی اسپتال لے آیا تھا۔ بچہ سات دن بعد ماں سے مل کر خوش تھا لیکن اس کی حالت دیکھ کر سوالات کر رہا تھا جس کے بچوں جیسے جواب دے کر داور اور کشف اس کو راضی کر رہے تھے۔

اگلے دن داور کو وارڈ میں بلا کر ایک ڈبہ تھما دیا گیا جس میں پانچ مہینے تک پلنے والا وہ بچہ تھا جو جاں بر نہ ہو سکا۔ نرس نے بتایا کہ لڑکا تھا اور ساتھ میں افسردہ منہ بنایا کہ اولاد نرینہ کہ نہ بچنے کا اسے بھی غم تھا۔ داور نے سوچا اب کیا کروں۔ اس نے ایک دو دوستوں سے پوچھا تو ہر ایک کی اپنی رائے تھی۔ کسی نے کہا نام رکھ کر دفنا دو۔ کسی نے کہا نام رکھے بغیر نماز جنازہ پڑھ کر دفنا دو۔ خیر داور نے اپنے ماموں کو فون کیا اور مسئلہ پوچھا کہ وہ مسلکی اور مذہبی شخصیات سے رابطے میں رہتے تھے۔

ماموں نے اسے بتایا کہ بیٹا بس تین سفید کپڑوں میں لپیٹ کر غسل دو وہ بھی ایسے کہ تین بار پانی بہانا ہے۔ نام نہیں رکھنا اور نماز جنازہ بھی نہیں ہو گی اس کے بعد تدفین۔ داور نے یہ سن کر فون رکھا اور اپنے کزن کی طرف دیکھ کر ساری بات بتائی۔ اس نے اسی وقت سوسائٹی کے قبرستان فون کر کے ایک چھوٹی سی قبر کے لیے کہہ دیا۔ خالہ کو بھی بتایا اور ان کے گھر پہنچے تو انھوں نے تین سفید کپڑے داور کو لا دیے اور بھیگی آنکھوں سے داور کے ہاتھ میں ڈبہ دیکھتی رہیں۔ پھر داور اور اس کا کزن سوسائٹی کے قبرستان کی جانب چل پڑے۔ ڈبہ داور کی گود میں تھا۔

قبرستان پہنچ کر داور نے ڈبہ کھولا اور تین کپڑوں میں اندر سے نکلے پلاسٹک کے تھیلے کو لپیٹا۔ کزن نے نلکا چلایا اور داور نے تین بار اس پر سے پانی بہایا۔ گورکن نے ایک چھوٹی سی لحد بنا رکھی تھی۔ داور نے بھاری دل کے ساتھ وہ سفید کپڑوں کی ننھی سی گٹھڑی اس لحد میں رکھ دی اور دو قدم پیچھے ہٹ گیا۔ گورکن نے مٹی ڈالنا شروع کر دی اور وہ بے نام بچہ دفن کر دیا گیا۔

داور پلٹا تو اس کے گھر کام کرنے والی کا بندہ رزاق اس کے ساتھ کھڑا ہوا تھا۔ داور اور اس کا بھائی اکثر اس کی مدد کرتے رہتے تھے۔ پاس آیا اور داور کو الگ لے جا کر کہنے لگا۔ داور بھائی آپ نے پریشان نہیں ہونا۔ آپ کا کافی خرچہ ہو گیا ہو گا۔ میرے اور ذکیہ کے پاس ملا کر دو لاکھ روپے ہیں۔ آپ کا کام چلتا ہے تو آپ لے لو۔ میں پیسے ساتھ لایا ہوں۔ داور کچھ نہ کہہ سکا۔ اس کا گلا رندھ گیا اور اس نے رزاق کو گلے لگا لیا۔ بھائی تو اس کے ساتھ تھا نہیں اس وقت لہذا کچھ دیر اسے ہی گلے لگائے رکھا۔ اس وقت داور رو پڑا تھا۔

سات دن کا ضبط ٹوٹ گیا۔
مرد رو پڑا۔

خاور جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

خاور جمال

خاور جمال پیشے کے اعتبار سے فضائی میزبان ہیں اور اپنی ائیر لائن کے بارے میں کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتے، کوئی بات کرے تو لڑنے بھڑنے پر تیار ہو جاتے ہیں

khawar-jamal has 40 posts and counting.See all posts by khawar-jamal

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments