امریکہ چھوڑیں، روس چلتے ہیں


پاکستانی سیاست ہمیشہ امریکہ کے گرد گھومتی ہے۔ قیام پاکستان سے اب تک پاک امریکہ تعلقات بنتے بگڑتے رہے ہیں مگر یہ بننے بگڑنے کا عمل ہمیشہ حکمران طبقہ میں رہا ہے۔ عوام کو یہی باور کرایا گیا کہ امریکہ پاکستان کا سب سے بڑا دشمن ہے اس نظریے کو پروان چڑھانے کے لئے پاکستان کی ہر سیاسی جماعت نے اقتدار سے باہر ہوتے ہوئے بھرپور کام کیا۔ پاکستانی عوام میں انڈیا کے بعد امریکہ کو ایک دشمن ملک مانا جاتا ہے۔ عام پاکستانیوں کا ماننا ہے کہ امریکہ ہمیشہ پاکستان کے خلاف سازش کرتا ہے اور اس کی بقا کے خلاف کام کرتا ہے۔ مگر حقائق کیا ہیں اور امریکہ اور یورپ کے بغیر پاکستان کن حالات سے دوچار ہو سکتا ہے اس پر نظر ڈالتے ہیں۔

امریکہ دنیا کے ان اولین ممالک میں سے ایک ہے جس نے قیام پاکستان کے ساتھ ہی پاکستان سے سفارتی تعلقات قائم کئیے۔ قیام پاکستان کے 2 ماہ اور 6 دن بعد امریکہ نے پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کیے اور پاکستان کے اولین دوستوں میں شامل ہو گیا۔ قیام پاکستان سے 2016 تک امریکہ نے مجموعی طور پر پاکستان کو 78 بلین ڈالر کی امداد دی جبکہ 2016 سے 2022 تک کے اعداد و شمار اس میں شامل نہیں ہیں۔ پاکستان سالانہ اربوں ڈالر کی چیزیں امریکہ کو ایکسپورٹ کرتا ہے جبکہ پاکستان پر درآمدی بوجھ سب سے زیادہ چین کا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی مقامی صنعتیں دم توڑ چکی ہیں۔ روس کے ساتھ ہمارے تجارتی تعلقات نہ ہونے کے برابر ہیں۔

امریکہ میں پاکستانی تارکین وطن کی تعداد ساڑھے پانچ لاکھ ہے تاہم غیر رجسٹرڈ تارکین وطن جو امریکہ میں مقیم ہیں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے یہ پاکستان امریکہ سے زرمبادلہ پاکستان بھیجتے ہیں جس سے پاکستانی معیشت کو سہارا ملتا ہے۔ جبکہ امریکہ کے مقابلہ میں چین بشمول ہانگ کانگ میں پاکستانیوں کی تعداد 54 ہزار ہے جن میں بڑی تعداد پاکستانی طلباء کی ہے جبکہ محتاط اندازے کے مطابق چار ہزار کے قریب پاکستانی کاروباری افراد چین کے مختلف صوبوں میں جاتے ہیں۔

یہ لوگ زرمبادلہ بھیجنے کی بجائے چین کی معیشت میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور پاکستان سے پیسہ چین جاتا ہے۔ جبکہ ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانی تارکین وطن ملکی معیشت میں زرمبادلہ بھیج کر آٹے میں نمک کے برابر اپنا حصہ ڈالتے ہیں تاہم گزشتہ کچھ سالوں سے چین اور ہانگ کانگ کے حالات کی وجہ سے ہانگ کانگ میں مقیم پاکستانیوں کی بڑی تعداد کینیڈا اور برطانیہ منتقل ہو رہی ہے

پاکستانیوں کی بیرون ملک سب سے زیادہ تعداد سعودی عرب میں 26 لاکھ، یو اے ای 16 لاکھ، برطانیہ 12 لاکھ، امریکہ 6 لاکھ، عمان اڑھائی لاکھ، کینیڈا 2 لاکھ، قطر 1 لاکھ 25 ہزار تقریباً، کویت 1 لاکھ دس ہزار، جنوبی افریقہ رجسٹرڈ ایک لاکھ جبکہ غیر رجسٹرڈ ملا کر اڑھائی لاکھ، سپین ایک لاکھ چار ہزار سے زائد، جرمنی 74 ہزار، آسٹریلیا 65 ہزار، ملائشیا 60 ہزار، ناروے 40 ہزار، یونان 34 ہزار، ڈنمارک 25 ہزار جبکہ ترکی پاکستانیوں کے لئے نئی منزل کے طور پر ابھرا ہے اور یہاں اب پاکستانیوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔

ترکی میں پاکستانی نژاد ترک شہریوں کی تعداد 550 جبکہ عارضی و مستقل سکونت اختیار کرنے والوں کی تعداد پانچ ہزار اور غیرقانونی تارکین وطن کی تعداد پچاس ہزار کے قریب ہے۔ حیرت انگیز طور پر روس میں پاکستانی تارکین وطن کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اور روس کبھی بھی پاکستانیوں کے لئے روزگار کی منزل نہیں رہا ہے اور اس کی بنیادی وجہ وہاں کی آب و ہوا اور کمزور معیشت ہے۔ ان اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو پاکستانی معیشت میں سب سے زیادہ زرمبادلہ برطانیہ یورپ اور امریکہ کے علاوہ عرب ممالک سے آتا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان میں یورپ اور امریکہ کو اپنا دشمن سمجھا جاتا ہے۔

جبکہ چین پاکستان کا سب سے بڑا دوست سمجھا جاتا ہے حالانکہ چینی معیشت نے سب سے پہلے پاکستانی معیشت کو پیداواری معیشت سے انحصاری معیشت میں بدل کر اپنے زیرنگیں کیا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان جو کسی دور میں دنیا کو کرٹلری، سپورٹس سامان، لیدر، کپڑا و دیگر اشیاء بالخصوص را میٹیریل ایکسپورٹ کرتا تھا اب یہی چیزیں چین سے امپورٹ کرتا ہے۔ بلاشبہ دفاعی صنعت میں چین پاکستان کے تعلقات مثالی ہیں تاہم اس کا عام آدمی پر براہ راست کوئی اثر نہیں پڑتا۔ جبکہ روس کے ساتھ پاکستان کی معیشت کسی طور پر نہیں جڑ سکی اور اگر پاکستانی معیشت کا رخ روس کی جانب موڑ بھی دیا جائے تو اس کے فوائد سامنے آنے می کئی دہائیاں لگ جائیں گی۔

پاکستانی وزیراعظم نے عین اس موقع پر روس کا دورہ کیا جب انہیں علم تھا کہ پاکستان میں حالات ان کے قابو سے باہر ہو چکے ہیں اور ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہونے لگی ہے۔ وزیراعظم نے اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو عالمی سازش سے جوڑنے کے لئے عین اس لمحے روس کا دورہ ”کھڑکا“ مارا جس لمحے روس نے یوکرین پر حملہ کیا۔ دنیا اس دورہ سے ششدر رہ گئی اور پاکستان کے خلاف ردعمل سامنے آنے لگا۔ اسی ردعمل کو عدم اعتماد کی تحریک کے ساتھ جوڑ کر پاکستان میں ایک پرانی بحث کو نیا موضوع فراہم کیا گیا کہ پاکستان کو امریکہ اور مغرب سے آزادی دلوائی جائے۔

پی ٹی آئی پاکستان میں سوشل میڈیا ٹرینڈ سیٹر پارٹی ہے اور اس کے سوشل میڈیا ونگ کی کارکردگی ہمیشہ ناقابل یقین حد تک مثالی رہتی ہے۔ وہ کسی بھی بیانیہ کو اس قدر تیزی سے فروغ دیتی ہے کہ ملک میں ایک بحث جنم لے لیتی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کو امریکہ یورپ برطانیہ و دیگر روس مخالف دنیا سے جوڑ کر عمران خان کے خلاف عالمی سازش کا جو بیانیہ عوام بالخصوص پی ٹی آئی کارکنان کو دیا گیا انہوں نے اس بیانیہ پر من و عن یقین کر لیا اور اب یہ بیانیہ امریکہ مخالف ایک ٹرینڈ بن کر سامنے آیا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ، یورپ، برطانیہ سمیت مغرب مخالف اس بیانیہ کو سب سے زیادہ فروغ بھی وہ لوگ دے رہے ہیں جو خود برطانیہ امریکہ اور یورپ میں رہتے ہیں جبکہ حکمران جماعت کے وہ مشیر جو خود امریکی شہری ہیں امریکہ کے خلاف سب سے زیادہ بیانات دے کر یہ نفرت فروخت کر رہے ہیں مگر ان میں سے کوئی ایک بھی اپنی شہریت اور امریکہ سے ملنے والے مفادات چھوڑنے پر تیار نہیں۔ عمران خان کے مشیر شہباز گل آج بھی امریکی پبلک یونیورسٹی سے تنخواہ وصول کرتے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ اگر پاکستان روس اور چین کی محبت میں امریکہ برطانیہ اور یورپ کے خلاف روسی بلاک کا حصہ بن جائے اور جواب میں یہ تینوں خطے پاکستان پر معاشی پابندیاں لگا دیں تو کیا پاکستان اپنے پاؤں پر کھڑا رہ پائے گا؟ صرف برطانیہ اور امریکہ پاکستان بھیجی جانے والی رقوم پر پابندی لگا دیں تو پاکستان کی معیشت جھاگ کی طرح بیٹھ جائے گی جبکہ پاکستانی اشیا کی امپورٹ پر پابندی سمیت دیگر بڑی پابندیاں پاکستان کی بقاء کو خطرے میں ڈال سکتی ہیں۔

ایران کی طرح مرگ بر امریکہ، مرگ بر یورپ اور مرگ بر برطانیہ کے نعرے لگانا بہت آسان ہے اور پاکستان جیسے جذباتی معاشرے میں ان نعروں کو تقویت بھی جلد مل جاتی ہے لیکن کیا ایران کی معیشت کا بھی ہم جائزہ لیتے ہیں؟ جہاں ایک امریکی ڈالر 43 ہزار ایرانی ریال کا ہے جو انقلاب سے پہلے دنیا کی سب سے بڑی معیشتوں میں شمار ہوتا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).