لگتا ہے آئین کے ساتھ پھر ہاتھ ہو گیا ہے


بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ ایک خود ساختہ اصول پرست، جمہوریت پسند نے مادی خواہشات کی تکمیل کے لیے آئین اصول، اخلاق اقدار سب کچھ پامال کر دیے۔ خودساختہ اصول پرست کئی دنوں سے سرپرائز سرپرائز دینے کی چیتاونی دیتا رہا مگر سرپرائز ایسا ہو گا کم از کم مجھ جیسے ایک معمولی سے چھوٹے سے سیاست کے طالب علم نے کبھی نہیں سوچا تھا۔ ہم اکثر جنرل ضیاء الحق، ایوب خان، پرویز مشرف جیسے فوجی حکمرانوں کو لعن طعن کرتے انہیں ڈکٹیٹر اور نجانے کیا الم غلم خطابات سے نوازتے ہیں مگر آج جو کچھ ایک انتہا پسند سیاسی جماعت کے اس انتہا پسند رہنما نے کیا ہے اس کی نظیر پاکستان کی پونی صدی کی سیاسی تاریخ میں نہیں ملتی۔

جب ملک کا نا اہل نالائق اور اراکین کی اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھنے والا وزیراعظم عدم اعتماد کی تحریک کی یقینی کامیابی کے بعد بھی اتنا مطمئن و پر سکون نظر آتا ہو تو دال پوری کی پوری کالی لگتی ہے۔ ایسا کس طرح ممکن ہے کہ آئین شکنی ہو اور کوئی ”ایبسولیوٹلی ناٹ“ کہہ کر ان سارے معاملات سے لاتعلقی کا اظہار کر کے اپنا پلو جھاڑ لے۔ ملکی آئین کی تشریح کرنے اور غیر آئینی اقدامات سے روکنے والا ادارہ نوٹس لے اور آئین شکنی پہ فوری ایکشن نہ لے کر اسے طول دینے کی کوشش کرے، انصاف کی فراہمی میں دیر کرے۔

مشہور قانونی کہاوت ہے کہ ”انصاف کی فراہمی میں تاخیر کا مطلب ہوتا ہے انصاف کی فراہمی سے انکار“ انتہائی اہم اور ملکی تاریخ کے سیاسی جمہوری مارشل لاء کی کوششوں کو روکنے کے لیے ، ملک کو آئینی بحران سے نکالنے کے لیے ملک کی عدالت عظمیٰ کا فرض تھا کہ فوری نوٹس لینے کی مہربانی کی تھی تو فوری عبوری حکم دے کر معاملے کو مزید تباہی اور غیر آئینی اقدامات کی طرف بڑھنے سے روک سکتے تھے۔ اسی عدلیہ نے دو سال سے ڈپٹی اسپیکر کو جعلی ووٹوں کی بنیاد پہ نا اہل ہونے کے باوجود محض ایک شنوائی پہ اسٹے آرڈر دے کر آج تک جمہوریت اور آئین کو داغدار کرنے کی سازش کا موقع بھی فراہم کیا۔

ملک کی عدالت عظمیٰ اور ملک کی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کا فرض ہے کہ وہ ریاست کے ساتھ وفاداری کا ثبوت دیتے ہوئے کسی بھی طالع آزما کو کوئی بھی غیر آئینی قدم اٹھانے سے روکیں، مگر تحریک عدم اعتماد کی تحریک کو بلڈوز کر کے ملک کی منتخب اسمبلی توڑ دینے جیسا غیر آئینی اقدام اٹھا کر مملکت کے صدر، وزیراعظم، اسپیکر قومی اسمبلی، ڈپٹی اسپیکر، وزیر قانون اور وہ تمام اشخاص وہ ادارے آئین سے انحرافی کی مرتکب ہوئے ہیں جنہوں نے ان غیر آئینی اقدامات میں معاونت و اعانت کی۔ پاکستان کی متحدہ حزب اختلاف اور خود تحریک انصاف کے اراکین پارلیمان کو اپنے مینڈیٹ کی حفاظت کے لیے کھڑا ہونا پڑے گا۔

ثقافتی موضوعات اور قدیم مصری علوم کے ماہر نوبل انعام یافتہ ایک جرمن اسکالر ژاں اسمان کا کہنا ہے کہ ”عوامیت پسند، قوم پرست رجحانات رکھنے والی حکومتوں کے سربراہان اکثر سیاسی مقبولیت کے حصول کے لیے اپنی سیاست کو سماجی اکثریت کی روایتی مذہبی سوچ سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں، مذہب اور سیاست کو آپس میں ملانے کا یہی رویہ عوامیت پسند، سربراہان مملکت کو انتہا پسندی، خودپسندی اور جمہوریت مخالف رویوں کی طرف کے جاتے ہیں۔

ژاں اسمان کی بات کا اگر جائزہ لیں تو عمران خان بھی ان ہی رویوں کی شکار ہو چکے ہیں۔ وہ عوامیت پسندی سے انتہا پسندی، خودپسندی اور جمہوریت۔ کے کٹر مخالف کا روپ دھار چکے ہیں جبکہ ان کے ان غیر روایتی، غیر سماجی اور غیر جمہوری رویوں کو کچھ اداروں کی اندھی حمایت نے تقویت پہنچائی ہے جس کی وجہ سے عمران خان ایوان میں عددی برتری گنوانے کے باوجود ایک فاشسٹ حاکم بن کر آئینی اور جمہوری روایات کو ملیامیٹ کرنے اپنے پیروں تلے روندنے کے درپے ہو چکے ہیں۔

ملک کی عدالت عظمیٰ پہ اب یہ ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے حلف کے ساتھ وفا نبھاتے ہوئے اللہ تعالیٰ کے قانون عدل و انصاف کا بول بالا کریں، آئین پاکستان کی حفاظت میں کمر بستہ ہو کر کھڑے ہوجائیں اور آئین شکنوں کو آئین شکنی کی وہ سزا دیں کہ آئندہ کسی آئین شکن طالع آزما کو آئین سے کھلواڑ کی جرات نہ ہو۔

ہم یہ یقین کر لیتے ہیں کہ پاکستان کی سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ اس سارے عمل میں نیوٹرل ہوگی، لاتعلق ہوگی مگر کیا آئین شکنی پہ اس طرح غیرجانبداری مجرمانہ غیرجانبداری نہیں کہلائے گی؟ کیا کوئی یقین کرے گا کہ عمران خان کو اقتدار میں لانے والے اب اس کے غیر آئینی اقدامات ان کے غنڈہ راج پہ اپنی آئینی حدود میں رہتے ہوئے غیرجانبدار ہو گئے ہیں؟ ان سارے غیر آئینی غیر قانونی اور غیر جمہوری اقدامات پہ عمران خان کے خاموش حامی نہیں ہیں۔

پاکستان اس وقت سنگین آئینی بحران میں گھرا ہوا ہے، ایک طرف ملک کا سابق وزیراعظم اپنے ذاتی اور مادی اقتدار کی ہوس میں ایک عالمی طاقت پہ اپنی حکومت گرانے کے الزامات لگا کر پہلے سے ہی عالمی تنہائی کے شکار، معاشی بحران سے دوچار اپنے ملک کو خارجی اور معاشی طور پر مزید مسائل سے دوچار کرنے کی سازش کر رہا ہے۔ وہ بغیر ثبوت اور اب تک کے حالات، واقعات اور اطلاعات کے مطابق ایک جھوٹے جعلی سفارتی خط کو جواز بنا کر ملک کی ساری اپوزیشن اپنے منحرف اراکین کو غدار قرار دے رہے ہیں تو دوسری جانب ان موصوف کے الزامات پہ ملک کی قومی سلامتی کے اہم ذمے داران خاموش تماشائی بنے ایک جھوٹے اور منافق بیانیے کو تقویت دے رہے ہیں۔

بنا تحقیق بنا ثبوت ملک کی محب وطن اپوزیشن اور اراکین اسمبلی اور ان کے کروڑوں ووٹرز پاکستانیوں کو غدار قرار دیا جا رہا ہے جبکہ نیشنل سیکیورٹی کے ذمے داران اپنی نیوٹریلٹی دکھانے اور عوام کو یقین دلانے کے لیے بالکل خاموش تماشائی بنے عمران خان اور ان کے حواریوں کے خاموش حامیوں کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ پچھلے کچھ دن کے سیاسی حالات کا مکمل اور باریکی سے جائزہ لینے کے بعد مجھ جیسے ایک معمولی سیاسی ورکر، سیاست کے طالب علم کا شک بھی اب یقین میں بدلتا جا رہا ہے کہ پاکستان کی اپوزیشن کے ساتھ ملک کی مقتدرہ نے کوئی بڑا ہاتھ کر دیا ہے، انہیں نیوٹرل رہنے کا یقین دلا کر پس پردہ عمران خان اور ان کے حواریوں کی مکمل سرپرستی کرتے رہے ہیں، مگر اپوزیشن کے ساتھ دھوکا کرنے والے یہ بھول گئے ہیں کہ انہوں نے اپوزیشن کے ساتھ نہیں بلکہ پاکستان کے آئین و جمہوریت، سلامتی اور استحکام، عوامی ترقی و خوشحالی کے ساتھ دھوکا کیا ہے، اگر واقعی میں کوئی دھوکا ہوا ہے تو ، اور پھر اس دھوکے کی قیمت شاید اس بار ناقابل تلافی ہوگی، جو نہ صرف پاکستان کا آئین، جمہوریت، قوم و اپوزیشن بھگتے گی بلکہ اس بار اس غیر آئینی غیر قانونی اقدام کی پشت پناہی کرنے والا ہر فرد ہر ادارہ بھی اس کا خمیازہ بھگتے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments