آئین کی حرمت اور آج کا المیہ


کسی بھی معاشرے اور ملک میں کچھ نظریات، عقائد اور دستاویزات ایسی ہوتی ہیں، جن کی حرمت کا پاس اور ان کے ساتھ وابستگی کسی بھی منطق یا سوچ سے بالاتر جانی اور سمجھی جاتی ہے۔ اور یہی وہ بندھن ہوتا ہے، جو مختلف الخیال اور مختلف المشرب افراد کو وحدت کی اکائی میں پرو کر ان کو ایک قومی شناخت عطا کرتا ہے۔ اگر یہ بندھن کسی کی سازش یا ریشہ دوانی سے کمزور ہونا شروع ہو جائے، تو فتن کا ایک ایسا باب کھل جاتا ہے، جس کے آگے کوئی دلیل اور معقولیت کارگر ثابت نہیں ہوتی۔

تاہم ان نظریات و دستاویزات کی اہمیت، ان سے وابستگی اور وفاداری کی تعلیم دینا اس معاشرے کے ارباب دانش اور رہنمایان قوم کے ذمہ ہوتا ہے، جو اپنے قول و فعل سے اپنی قوم کے اندر ان کی حرمت اور تقدس کو اجاگر کرتے چلے جاتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ساتھ وہ اپنے معاشرے کو یہ درس بھی دیتے ہیں کہ جو آمر چاہے وہ عسکریت کے لبادے میں ہو، یا نیم سیاسی بندوبست کی شکل میں، یا مذہب کا لبادہ اوڑھے ان کی حرمت اور تقدس کو پامال کرنے کے درپے ہو تو نہ صرف اس کے خلاف ڈٹ جائیں بلکہ اس کے خلاف نفرت کو اپنی نسلوں کو بھی منتقل کریں۔

ایک مہذب اور باشعور معاشرے میں جہاں مذہب اور اقدار کے پاس کی تلقین لازم سمجھی جاتی ہے، وہیں وہ معاشرہ اور قوم اپنے دستور اعنی آئین کو بھی ایک مقدس دستاویز مان کر اس کے اوامر و نواہی کے آگے سر تسلیم خم کر کے، اپنے باشعور، ذمہ دار اور مہذب ہونے کا ثبوت فراہم کرتا ہے۔ غرض یہی وہ بنیادی وصف ہے جو اقوام عالم کی نگاہ میں اس کا وقار بلند کر کے، اس کے لئے باعث فخر و توقیر بنتا ہے۔

ہم کسی بھی مہذب ملک کی طرف نگاہ دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے، کہ اس کے افراد اپنے ملک کے آئین سے اس قدر وفادار ہوتے ہیں کہ ان کی نگاہ میں آئین شکنی سے بڑا جرم اور کوئی نہیں ہوتا، اور اس سے سر مو انحراف کرنے والا اپنی قدر و منزلت کھو بیٹھتا ہے۔ جس کی بایں وجہ ایک ملک آئین کے بغیر جب سرزمین بے آئین کے تشخص سے جانا جائے گا، تو اقوام عالم میں اس کی حیثیت، اس کی شناخت، اس کا استحقاق سب کچھ مجروح ہو گا۔ اور اس کے باوصف وہ قوم بھی ہر جگہ بے توقیر تصور کی جائے گی۔ جس کی سب سے واضح مثال وطن عزیز ہے، جو ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی، آج پسماندہ ممالک کی صف میں کھڑا ہے، اور بین الاقوامی طور پر ہماری سرزمین، سرزمین بے آئین تصور کی جاتی ہے۔

ہماری اس اجتماعی آبروریزی کا سلسلہ نظریہ ضرورت کے ساتھ شروع ہوا، جو ہنوز جاری و ساری ہے۔ تاہم اس بے توقیری کے ڈانڈے ان کے گھر تک جاتے ہیں جو انگریز وراثت کے طور پر ہمیں دے کر گیا تھا، اور جنہوں نے پرائی لڑائی میں اپنے آقاؤں کی خدمت کے طور پر اپنے ہی شہریوں کو بیچ کر اس ملک کے آئین کے ساتھ کھلواڑ کر کے، پوری دنیا میں اس کی جگ ہنسائی کی۔ اے کاش کہ قوم اس مرحلے پر جاگ جاتی اور ان غداروں کا مواخذہ کرتی تو یہ سلسلہ تھم جاتا، مگر قوم نے جب اس آئین شکنی کو ہضم کر لیا تو آنے والے آمروں کے لئے راستہ صاف ہوتا گیا۔ تاہم اس موقع پر ان افراد اور سیاستدانوں کو یاد نہ کرنا یقیناً نا انصافی ہوگی جنہوں نے تمام مصائب اور شدائد کے باوجود اس آئین شکنی کے خلاف حریت کا علم بلند کر کے، قوم کو مزید بے توقیر ہونے سے بچا لیا۔

اس بات کے اندر کوئی دو رائے نہیں ہے کہ، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم اور میاں محمد نواز شریف دونوں کا سیاسی جنم آمریت کی کوکھ سے ہوا، ور انہوں نے آمروں کا ساتھ دے کر فوائد بھی سمیٹے۔ مگر جیسے جیسے ان کے اندر سیاسی بلوغت کا شعور پروان چڑھنا شروع ہوا، ان کے دل و دماغ میں بھی آئین کی حرمت اور پاسداری کا عقیدہ راسخ ہوتا چلا گیا۔ لہذا آئین شکن عناصر نے اپنے مذموم ارادوں کی تکمیل کی خاطر ان کی جائز حکومتوں پہ شب خون مارکر ایک سیاہ دور کی بنیاد رکھی۔ اور ملک کو اقوام عالم میں جگ ہنسائی کے لئے لا کھڑا کیا۔

تاہم ہماری قومی تاریخ کا سیاہ دور، شاید اس قدر سیاہ نہ تھا، جو موجودہ حکومت کے زمانے میں دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اس بندوبست کے کرتا دھرتا اور اس جسم ناجائز کے رکھوالوں نے، شب و روز اپنے اعمال سیاہ کے سبب اپنے معتقدین اور ہم مشرب لوگوں کی نگاہ میں اس مقدس دستاویز کو اس قدر بے وقعت اور بے توقیر کر دیا ہے، کہ گویا ملک کا سیاسی بندوبست آئین کے نہیں بلکہ ایک فرد واحد کی شخصی پسند و ناپسند کا محتاج ہے۔ اس جماعت کے نزدیک گویا حق و باطل کا معیار مقرر کرنے کا اختیار ایک ایسی، ہستی کو حاصل ہے جو جس طرف منہ کردے وہ حق بن جاتا ہے، اور جس طرف پشت کردے وہ باطل مانا جائے گا۔

با الفاظ دگر قوم کو اس بات کو ماننے پہ مجبور کیا جا رہا ہے، کہ اصل آئین وہ مقدس دستاویز نہیں بلکہ ہمارے حاکم وقت کے منہ سے نکلے وہ الفاظ ہیں جو حضور والا کسی بھی وقت اور کسی بھی حالت میں ادا فرمائیں، چاہے وہ آئین کے بنیادی ڈھانچے سے متصادم اور ملک و قوم کے لئے کتنے ہی مضر کیوں نہ ہوں، مگر چونکہ وہ ہمارے آقا و مولی کے منہ سے نکلے ہیں، لہذا اب کوئی بھی آئینی قدغن اور رکاوٹ ہمیں قابل قبول نہیں۔ اس سے بڑا المیہ اس معاشرے کے لئے اور کیا ہو سکتا ہے کہ، جس کے افراد اپنا سر آئین کے آگے جھکانے کی بجائے ایک فرد واحد کی جھوٹی ذات کے آگے جھکانے پہ فخر محسوس کریں اور ایک لحظے کے واسطے بھی یہ سوچنے کو تیار نہ ہوں کہ آئین کتنی مقدس دستاویز ہے اور دیگر اقوام اپنے آئین کے بارے میں کیا عقیدہ رکھتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments