ایم کیو ایم کے لئے تیس سیکنڈ کی خاموشی تو بنتی ہے


سنہ 1978 میں کراچی یونیورسٹی میں مہاجر طلبہ تعظیم آل پاکستان مہاجر آرگنائزیشن کے پلیٹ فارم سے سیاسی جماعت بنے والی ایم کیو ایم کا کراچی کی سیاست میں بڑا اہم رول رہا ہے، کبھی یہ وقت تھا کہ قفل زدہ نائن زیرہ پر بڑی جماعتوں کے سربراہان کی حاضری لگا کرتی تھی اکثر باوردی اہلکار بھی ملاقات کی لسٹ میں شامل ہوتے تھے پھر یوں ہوا کہ بائیس اگست کا رن پڑا اور 2016 سے پڑا وہ تالا آج بھی پل بھر میں مقدر بدل جانے کی عملی اور عبرتناک مثال بنا ہوا ہے۔ ایم کیو ایم کی تباہی کی یا اس تالے کی وجوہات کیا ہیں آئیں یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مارچ 1987 میں مہاجر قومی موومنٹ کے نام سے ابھرنے والی سیاسی جماعت کا دعوی متوسط طبقے کی جماعت کا تھا، وہ کوٹا سسٹم کے شدید مخالف تھی اور شہری سندھ کے حقوق کی علمبردار کی صورت میں سامنے آئی تھی مگر اپنے دعوی کے برعکس انہوں اپنوں کے ساتھ کوٹا سسٹم پر کمپرومائز کر کے پہلی غداری کی، بعد ازاں حکومتی اتحاد کا حصہ بن بن کر اپنے ووٹر سپورٹر کو مایوس کیا، آئیں جائزہ لیتے ہیں ایم کیو ایم کب کب حکومتوں کا حصہ رہی۔

مہاجر سے متحدہ قومی موومنٹ بننے والی سیاسی جماعت 88 سے لے کر تاحال حکومت کا حصہ رہی۔ 1988 میں پی پی کے ساتھ پھر بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کا پہلا سیاسی اتحاد وقوع پذیر ہوا جبکہ 1987 کو ایم کیو ایم نے بطور سیاسی جماعت جنم لیا تھا۔

نومبر 1990 سے جون 1992 تک نواز شریف کے اتحادی رہے اور کراچی آپریشن سہا۔ 6 اکتوبر 1993 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم نے قومی اسمبلی کا بائیکاٹ کیا مگر صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں سندھ کی 28 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1997 میں نواز شریف ایک بار پھر وزیر اعظم منتخب ہوئے تو ایم کیو ایم ایک بار پھر اتحادی بن کر نواز شریف کی حکومت میں شامل ہو گئی۔

17 اکتوبر 1998 کو ہدف بنا کر کیے جانے والے حملے میں سندھ کے سابق گورنر حکیم محمد سعید کو قتل کر دیا گیا۔ اس وقت کے ’وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی ہی اتحادی جماعت یعنی ایم کیو ایم کے خلاف پریس کانفرنس کر کے حکیم سعید قتل کا الزام ایم کیو ایم پر عائد کیا تو ایم کیو ایم ایک بار پھر حکومت سے علیحدہ ہو گئی۔‘

1999 سے لیکر 2008 تک مشرف دور کو مکمل انجوائے کیا مگر جب مشرف صاحب صدر نہیں رہے تو ان کا بالکل بھی ساتھ نہ دیا

18 فروری 2008 کے انتخابات ایم کیو ایم نے 18 عام اور مخصوص نشستوں سمیت قومی اسمبلی کی کل 25 اور صوبائی اسمبلی کی کل 42 نشستیں حاصل کیں۔ مرکز میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنائی یوسف رضا گیلانی وزیراعظم بنے اور ایم کیو ایم پیپلز پارٹی کے ساتھ ایک بار پھر اتحادی بن گئی

دسمبر 2008 میں ایم کیو ایم اس مخلوط حکومت سے نکلی مگر جنوری 2019 میں وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نائن زیرو گئے پھر ایم کیو ایم حکومت میں واپس آ گئی۔ ’

’پھر جون 2011 میں خاصے شدید احتجاج اور اختلاف پر ایم کیو ایم حکومت سے علیحدہ ہوئی مگر استعفے منظور نہیں کیے گئے تاہم ایم کیو ایم حکومت سے باہر رہی۔ ’ ایم کیو ایم فروری 2013 میں یعنی انتخابات سے محض ڈیڑھ دو ماہ پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت سے علیحدہ ہوئی۔ اس دوران وفاق میں مسلم لیگ نون جبکہ صوبے میں پی پی کی حکومت تھی جب ہی کراچی آپریشن شروع ہوا تھا

بائیس اگست 2016 کے بعد ہم نے نئی ایم کیو ایم دیکھی، وہ ایم کیو ایم جس کے احتجاج کی کال پر شہر لہو لہو ہو جایا کرتا اس کے اپنے سربراہ خالد مقبول صدیقی کی کار ان کے آفس کے سامنے سے چوری ہو گئی اور شہر میں چڑیا کا بچہ تک نہ مرا جبکہ کبھی اس شہر کے قبرستان روزانہ 25 سے 30 لاشوں کو اپنے گود میں لینے کے عادی ہوا کرتے تھے یہ ہی خالد مقبول صدیقی خورشید میموریل ہال میں پریس کانفرنس کے دوران کل کراچی چلے گا یا جام رہے گا کا فیصلہ کیا کرتے تھے آج اپنی سیاست کو دفن کر کے مکمل خاموش ہیں اس خاموشی کی وجہ ایک اور سیاسی اتحاد ہے جسے عادت کے مطابق انہوں داغا دی مگر اب کی بار ایک اور ایسی پکڑ ہوئی کہ رہی سی سیاست بھی داؤ پر لگتی نظر آ رہی ہے

25 جولائی 2018 میں نئی ایم کیو ایم نفیس لوگوں کی صورت میں تحریک انصاف کی حکومت کے اتحادی بنی پھر 30 مارچ 2022 کو عادت کے مطابق دغا دی اور ایک بار پھر پی پی کے معاہدات طے کیے مگر اب کی بار یہ ڈبل کراسنگ ایم کیو ایم کے ایسے گلے پڑی کہ وہ ہکا بکا ہو گئے کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے، جو ہر بات کا الزام اوپر سے کال آنے یعنی بوٹ والوں پر عائد کیا کرتے تھے وہ انگشت بدنداں ہیں، اس لئے ایم کیو ایم کے لئے تیس سیکنڈ کی خاموشی پلیز۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments