کیا ہم روایتی سیاست سے باہر نکل سکیں گے؟


پاکستان کی سیاسی اور جمہوری سیاست کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے وہ روایتی اور پرانے خیالات، سوچ اور فکر سمیت پرانی طرز حکمرانی سے جڑی سیاست ہے۔ مسئلہ حکومت یا حزب اختلاف سے جڑی سیاسی جماعتوں کا ہی نہیں بلکہ ہماری مجموعی سیاست کا المیہ ہے کہ ہم عملی طور پر اپنی قومی سیاست کو سیاسی، جمہوری اور قانون کی حکمرانی کے تابع کرنے کے ایجنڈے سے انحراف کی پالیسی پر گامزن ہیں۔ سیاست کو غیر آئینی، غیر جمہوری اور قانون شکنی سمیت ذاتی مفادات کی بنا چلانے کی روایت نے ہماری سیاست کو کمزور بھی کیا اور اس کا ایک بڑا سیاسی نقصان قومی مفادات کو بھی پہنچ رہا ہے۔ اس کے ذمہ دار کوئی ایک سیاسی جماعت یا فریق یا گروہ نہیں بلکہ مجموعی طور پر وہ تمام فریق جو اس ملکی فیصلہ سازی میں اہمیت رکھتے ہیں برابر کے ذمہ دار ہیں۔ یہ پالیسی یا سوچ کہ ہم ناکامی کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر ڈال کر خود کو بچانے کی جو کوشش کر رہے ہیں وہ بھی مسئلہ کا حل نہیں۔

پاکستان کو اپنی داخلی، علاقائی سمیت خارجی مسائل پر ایک غیر معمولی صورتحال کا سامنا ہے۔ حالات بہت زیادہ پیچیدہ بھی ہیں اور سنگین بھی ہیں۔ ایسی صورت میں ہمیں حالات کی بہتری کے لیے غیر معمولی حالات میں غیر معمولی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا قومی مسائل کی بنیاد روڈ میپ جو تمام فریقین کے اتفاق رائے سے سامنے آئے وہ ہماری سیاسی ضرورت بنتا ہے۔ یہ اسی صورت میں ممکن ہو سکے گا جب ہم حالات کی سنگینی کا خود بھی احساس کریں اور دوسروں کو بھی ترغیب دیں کہ ہم روایتی انداز کی بجائے کچھ غیر معمولی اقدامات کی مدد سے خود بھی آگے بڑھیں اور دوسروں کو آگے بڑھنے کی طرف راغب کریں۔

سیاست اور جمہوریت بنیادی طور پر پہلے سے موجود خرابیوں کو بنیاد بنا کر ایک ایسا اصلاحاتی ایجنڈا ترتیب دیتی ہے جو معاشرے کی ترقی سمیت لوگوں کے بنیادی حقوق اور مفادات کو تحفظ دے کر سیاسی نظام کا ساکھ کو قائم کرتا ہے۔ لیکن یہاں اوپر یعنی وفاقی، صوبائی اور مقامی نظام کو دیکھیں تو اس پر چند خاندانوں کی سیاسی اجارہ داری نے عملاً پورے سیاسی نظام کو ہی یرغمال بنالیا ہے۔ اس عمل میں حکومت ہو یا حکومت کا سربراہ یا حزب اختلاف سب ہی ان طاقت ور سیاسی خاندانوں کے ہاتھوں بے بس نظر آتے ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روایتی سیاست سے ہماری کیا مراد ہے۔ روایتی سیاست سے مراد یہ ہی ہوتی ہے کہ طاقت ور سیاسی طبقہ یا فیصلہ ساز ایسی تبدیلیوں کے لیے تیار نہیں ہوتا جو ہماری ضرورت بنتے ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ نئی تبدیلیاں یا غیر معمولی فیصلے ان کے اپنے ذاتی مفادات کو نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ملکی سطح پر اصلاحات کا عمل کمزور ہوتا ہے اور اگر کچھ اصلاحاتی عمل میں کیا جاتا ہے تو اس کی حیثیت محض نمائشی ہوتی ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ یہاں روایتی سیاست میں ملک، اداروں اور عام آدمی کی خود مختاری یا سلامتی کے مقابلے میں ہم افراد کو بنیاد بنا کر اصلاحات، پالیسی یا قانون سازی کرتے ہیں۔ ایسی صورت میں افراد یا شخصیات بالادست ہوجاتی ہیں اور ادارہ جاتی عمل یا قانون کی حکمرانی کا عمل پیچھے رہ جاتا ہے۔ جب بھی اصلاحاتی عمل اداروں کے مقابلے میں افراد کی بنیاد پر کی جائے گی تو حقیقی تبدیلی کا عمل کمزور ہوتا ہے۔ حقیقی تبدیلی میں ایک بڑی رکاوٹ یہ بھی ہے کہ ہم مسائل کو روایتی یا ردعمل کی بنیاد پر دیکھتے ہیں جب کے نظام کے اندر جو تبدیلیاں درکار ہوتی ہیں یعنی ”ادارہ جاتی ڈھانچہ پر مبنی اصلاحات“ اس کو کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

ہم جمہوریت اور قانون کی حکمرانی یا عوامی مفادات کے حق میں جنگ کی بات تو کرتے ہیں مگر ہمارا طرز عمل یا عملدرآمد کا نظام اس کی عملی طور پر نفی کرتا ہے۔ ہماری سیاست اور سیاست دانوں کا طرز عمل مختلف تضادات کے ساتھ سیاسی نظام کو کمزور کرتا ہے اور بار بار کے سیاسی یوٹرن ظاہر کرتے ہیں کہ ہم مجموعی طور پر چھوٹے ذاتی یا جماعتی مفاد کے لیے بڑے مفادات کو قربان کر دیتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ سیاسی جماعتوں اور قیادت کی سطح پر ہونے والے فیصلوں پر لوگوں میں شدید مایوسی کا عمل پایا جاتا ہے۔

بظاہر ایسا لگتا ہے کہ صرف سیاسی نظام ہی نہیں بلکہ عملاً تمام فریقین سٹیٹس کو کے نظام کو برقرار رکھنے میں ہی اپنا مفاد سمجھتے ہیں۔ ایسی سیاست جب خود اہل سیاست سے جڑے اہم افراد کرپشن اور بدعنوانی پر مبنی سیاست یا آمرانہ طرز عمل کا بڑی ڈھٹائی کے ساتھ سیاسی جواز پیش کرتے ہیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہم سیاسی اور جمہوری عمل میں کس طرف بڑھ رہے ہیں۔ کچھ لوگ تو یہ برملا کہتے ہیں کہ اس ملک میں کرپشن اور بدعنوانی کوئی مسئلہ ہی نہیں اور یہ عمل اس عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہے یا ملک میں احتساب اور معیشت کا نظام اکٹھا نہیں چل سکتا۔ اس طبقہ کے بقول اگر ہمیں معیشت چلانی ہے تو احتساب یا کرپشن جیسے معاملات سے خود کو علیحدہ کرلینا چاہیے۔

ذاتی طور پر راقم ملک میں ایک مضبوط سیاسی جماعتوں کے نظام کا حامی ہوں۔ کیونکہ جو بھی سیاسی اور جمہوری تبدیلی کا عمل مثبت طور پر سامنے آئے گا اس کی بنیادی کنجی ہی سیاسی جماعتیں اور ان کی قیادت ہے۔ لیکن جو لوگ یہ سمجھتے ہیں سیاسی جماعتوں کے داخلی نظام میں موثر تبدیلی یا غیر معمولی اقدامات یا کڑوی گولیاں کھائے بغیر یہ سیاسی نظام جمہوریت کو تقویت دے سکے گا، تو یہ غلطی پہ۔ ہمیں ضرور اسٹیبلیشمنٹ پر تنقید کرنی چاہیے اور سیاسی مداخلتوں کا عمل بھی ختم ہونا چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کو اپنے داخلی نظام کا بھی تجزیہ کرنا چاہیے کہ وہ خود اس جمہوری جنگ میں کہاں کھڑے ہیں۔

سیاسی وفاداریاں کی تبدیلی، لوٹا کریسی، فلور کراسنگ، پارٹی ٹکٹوں کی خرید و فروخت اور پارٹی فنڈز کے نام پر سیاسی رشوتیں، سیاست کے مقابلے میں خاندانی نظام کی اجارہ داری، داخلی شفافیت یا عدم احتساب کا نظام، مصنوعی سطح کے پارٹی انتخابات، اسٹیبلیشمنٹ کے کھیل میں پس پردہ سازشی کھیل، کرپشن اور بدعنوانی پر مبنی سیاست جیسے امور کی بنیاد پر جمہوریت کو سیاسی تماشا بنانا کو روکنے کی بجائے اس فرسودہ نظام کی سرپرستی ہی مسئلہ کی جڑ ہے۔ سیاسی جماعتیں ہوں یا اسٹیبلیشمنٹ جب یہ لوگ ملک کے طاقت ور طبقات یا فیصلہ سازی یا رائے عامہ پر کنٹرول کر کے اداروں کو اپنے تابع کر کے سیاسی نظام کو یرغمال بنانے کے کھیل کو طاقت فراہم کرتی ہیں تو اس کے نتیجہ میں تمام فریقین کا سیاسی گٹھ جوڑ ہی حقیقی تبدیلی کے عمل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم موجودہ روایتی سیاست سے کیسے باہر نکل سکیں گے۔ اگرچہ یہ کام سیاسی عمل میں اصلاحات اور عملدرآمد کے نظام کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن ریاست، اداروں اور معاشرے کی سطح پر اس روایتی سیاست کے بارے میں چند بنیادی فریم ورک کی ضرورت ہے۔ ایسا فریم ورک جو سیاسی جماعتوں سمیت حکمران طبقات اور اداروں کو اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر کام کرنے اور روایتی سیاست کے مقابلے میں غیر معمولی تبدیلیوں کی طرف مائل کرسکے۔

ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا کہ ہمارا موجودہ سیاسی نظام بتدریج اپنی سیاسی افادیت کھو رہا ہے۔ لوگوں کا اس سیاسی نظام سے تعلق کمزور بن رہا ہے اور وہ اس پورے سیاسی نظام میں خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔ یہ خلیج سیاست و جمہوریت کے لیے کوئی اچھا پیغام نہیں کیونکہ سیاست اور جمہوریت وہیں ترقی کر سکتی ہے جہاں وہ لوگوں میں اپنے نظام کے بارے میں سیاسی اعتماد یا بھروسا کی سیاست کو قائم کرسکیں۔ نئی نسل کو یقینی طور پر سیاسی نظام کا حصہ بننا چاہیے۔

وہ جس بھی جماعت کو بہتر سمجھیں اس کا حصہ بنیں یا اگر وہ کسی جماعت کا حصہ نہیں بننا چاہتے تو تب بھی اپنے سیاسی و سماجی شعور کی مدد سے اس نظام اور سیاست کے داخلی مسائل پر آواز بھی اٹھائیں اور جتنی مزاحمت ممکن ہو ضرور کریں۔ کیونکہ دباؤ کی یہ سیاست جو عملی طور پر نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے اور جن کے پاس سوشل میڈیا یا نئے ابلاغ کی طاقت ہے وہ واقعی تبدیلی کے عمل میں ایک کلیدی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

سیاسی جماعتوں یا سیاسی شخصیات سے محبت اپنی جگہ لیکن اسی نظام میں رہتے ہوئے غلط کو غلط اور درست کو درست کہنے کی عدالت ڈالنی ہوگی۔ کیونکہ اگر نئی نسل نے نظام کی تبدیلی میں اپنا موثر اور بڑا کردار ادا نہ کیا تو روایتی نظام اور روایتی تبدیلی سے افراد یا جماعتیں اسی نظام کی آلہ کار بن کر نظام سمیت سیاست اور عملی طور پر جمہوریت کو بھی تماشا بنائیں گی۔ اس لیے نوجوان آگے بڑھیں اور تبدیلی کے عمل میں اپنا حصہ ڈالیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments