روس یوکرین جنگ، تصویر کا دوسرا پہلو


سوشلسٹ بلاک کے خاتمہ، وارسا پیکٹ کی تحلیل، سوویت یونین کے انہدام اور سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نیٹو کو بھی تحلیل کر دیا جاتا، کیونکہ اس کے قیام کے وقت یہی بتایا گیا تھا کہ اس کے قیام کا مقصد سرمایہ دار ممالک، بالخصوص مغربی یورپ کے ممالک کو سوویت یونین کی جانب سے پیدا ہونے والے خطرات سے تحفظ فراہم کرنا ہے۔ لیکن اس کے برعکس، امریکی سامراج نے اسے نئی ابھرنے والی عالمی قوتوں کو دبانے، ان کی ابھرتی ہوئی معاشی گروتھ کو روکنے، ترقی پذیر ممالک کے وسائل کو لوٹنے کے عمل کو جاری رکھنے اور ان پر نئی جنگیں مسلط کر کے ان کو کنٹرول کرنے کے لیے نہ صرف نیٹو کا وجود قائم رکھا بلکہ اس میں مسلسل توسیع کا عمل جاری رکھا اور اب تک جاری ہے۔ روس یوکرین جنگ کو ہم اس تناظر سے ہٹ کر دیکھیں گے تو نہ صرف ہم اس کی وجوہات سمجھنے سے قاصر رہیں گے اس کے خاتمہ کے امکانات، دنیا کے وجود اور امن کو لاحق ہونے والے خطرات اور نئے ابھرنے والے عالمی منظر نامے کو نہیں سمجھ پائیں گے۔

اس وقت دنیا بھر میں روس یوکرین جنگ نے خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے۔ کارپوریٹ میڈیا، امریکہ بہادر اور مغربی ممالک کا میڈیا اس جنگ کو بڑی مہارت سے روسی توسیع پسندی کا نام دے کر اسے حسب معمول انسانی حقوق کی پامالی اور انسانیت کی تذلیل کا وسیع تر پراپیگنڈا کرنے میں مشغول ہے، اور اسے اپنے معاشی و سیاسی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ انسانی ذہنوں کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکی سامراج اپنے مغربی اتحادیوں سمیت دنیا بھر کے کارپوریٹ میڈیا کو پوری طرح سے اپنی گرفت میں لیے ہوئے ہے، جبکہ ترقی پذیر ممالک کے میڈیا کو اپنے مسلط کردہ جدید نوآبادیاتی نظام کے تحت وہاں مسلط کی ہوئی حکمران اشرفیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے کنٹرول کر رہا ہے۔ ترقی پذیر ممالک کے یہ حکمران اپنے سامراجی آقاؤں کی ہدایات کے مطابق اپنے ممالک میں اعلاناً یا غیر اعلان شدہ سنسرشپ مسلط کیے ہوئے ہیں، اور ملکی میڈیا کو روزانہ کی بنیاد پر ہدایات جاری کرتے اور پلان کے مطابق کنٹرول کرتے ہیں۔

کارپوریٹ میڈیا نے اس جنگ کے متعلق دنیا بھر کے عوام کے ذہنوں میں جو تصویر بٹھا دی ہے اس سے تو یہی نظر آتا ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے حکم کے مطابق روس نے 24 فروری 2022 کو یوکرین پر حملہ کیا، جسے امریکی سامراج اور اس کے مغربی اتحادی روس کی جانب سے کھلی جارحیت اور توسیع پسندی کہتے ہیں۔ بلا شعبہ اس جنگ نے دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ میں سب سے بڑے پناہ گزینوں کے بحران کو جنم دیا ہے، اور مغربی میڈیا کے مطابق اب تک تین ملین سے زیادہ یوکرینی شہریوں نے اپنا ملک چھوڑ دیا ہے، اور لاکھوں افراد کو اندرونی طور پر بے گھر کر دیا ہے۔

سامراجی ممالک کی جانب سے دنیا بھر میں منظم اور کنٹرولڈ پراپیگنڈہ کے قطع نظر، آئیے زرہ ان تاریخی اور جغرافیائی حالات و واقعات کی روشنی میں حقائق کا جائزہ لیتے ہیں، کہ روس نے یوکرین پر حملہ کیوں کیا؟ یا پھر امریکی سامراج اور اس کے مغربی حواریوں نے روس کو اس حملے کے لیے مجبور کیسے کیا؟ سامراجی ممالک سرد جنگ کے زمانے اور بعد ازاں 26 دسمبر 1991 کو سوویت یونین کے انہدام کی تکمیل کے بعد سے لے کر آج تک روس کا شیرازہ بکھیرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

وہ روس کی معاشی و دفاعی قوت کو ملیامیٹ کرنے اور اسے ایک عالمی قوت کے طور پر دوبارہ ابھرنے سے روکنے کے لیے ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں، جس میں انہوں نے یوکرین کے صدر ولودومیر زیلینسکی جیسے لوگوں کو ٹریپ کر کے ان کے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ اس سارے منظر نامے کو سمجھنے کے لیے اس خطے کی تاریخ، بالخصوص دوسری عالمی جنگ کے بعد یورپ کا ابھرنے والا نقشہ، نیٹو کا قیام و مقاصد، اس کے متبادل وارسا پیکٹ کا قیام و مقاصد، سوشلسٹ بلاک کا خاتمہ، وارسا پیکٹ کی تحلیل، نیٹو کے وجود کو قائم رکھنا اور اسے مزید وسعت دے کر روس کی سرحدوں کے اردگرد نیٹو ممالک، بالخصوص امریکی میزائل سسٹم کی تنصیب کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے، جسے سمجھے بغیر اس جنگ کے پس منظر، وجوہات اور مستقبل قریب میں اس خطے کے ابھرنے والے نقشے کو سمجھنا انتہائی مشکل ہے۔ بلا شعبہ ہمیں یہ بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یوکرین کہیں سامراج کی اسی توسیع پسندی کے کھیل کو سمجھے بغیر اس کا شکار تو نہیں ہو گیا۔

دوسری عالمی جنگ تاریخ کی سب سے بڑی اور مہلک ترین جنگ تھی، جس میں 30 سے ​​زائد ممالک براہ راست شامل تھے اور یہ تقریباً 50 ملین انسانوں کو نگل گئی۔ یہ جنگ نازی جرمنی کی جانب سے جمعہ 1 ستمبر 1939ء کو پولینڈ پر حملے سے شروع ہوئی، جو تاریخ کے انتہائی خون آلود 6 برسوں تک جاری رہی، تا وقت کہ اتحادیوں نے 1945ء میں نازی جرمنی، اٹلی اور جاپان کو شکست دے دی۔ جیسا کہ نام سے ظاہر ہے، دوسری عالمی جنگ کے واقعات پوری دنیا میں رونما ہوئے، البتہ زیادہ تر جنگی کارروائیاں یورپ، مشرقی ایشیا اور بحرالکاہل کے جزیروں میں ہوئیں ؛ لیکن اس کو مڈغاسکر اور ایلیوٹین جزائر جیسی جگہوں پر بھی دیکھا گیا۔

دوسری عالمی جنگ کے دوران ہی مشرقی یورپ کے بہت سے ممالک میں امن، برابری، سماجی انصاف اور قومی آزادی کے تحریکیں زور پکڑ چکی تھیں، اور ان ممالک کے عوام میں فاشزم کے مقابلے کے لیے نیشنلزم بہت شدت سے جاگ گیا تھا۔ جنگ سے ہونے والی تباہی سے دنیا بھر میں انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا تھا۔ بھوک، ننگ، بے روزگاری اور بیماریوں میں بے پناہ اضافہ کر دیا تھا، اور لوگ فاقوں پر مجبور ہو گئے تھے۔ اپنی تباہ شدہ صنعت اور بدحال معیشت کو سہارا دینے کے لیے سامراجی ممالک نے اپنے نوآبادیاتی تسلط تلے محکوم ممالک میں ظلم، جبر اور استحصال کو بڑھا دیا اور اسی استحصال سے انہوں نے اپنے ممالک کی تباہ شدہ معیشت کی تعمیر نو کی۔

ایسٹرن یورپ کے ممالک کے پاس نہ تو اپنی تعمیر نو کے لیے ضروری وسائل تھے اور نہ ہی استحصال کے لیے محکوم ممالک۔ لہٰذا جنگ کی تباہی نے ان ممالک کے عوام میں انقلابی تحریکوں کو جنم دیا اور ان ممالک میں سوشلسٹ اور کمیونسٹ پارٹیاں مضبوط متبادل کے طور پر ابھر کر سیاسی دھارے میں آ گئیں۔ ان ممالک کے ترقی پسندوں اور قوم پرستوں نے سوویت یونین کی ریڈ آرمی کی کھل کر حمایت کی اور ان کے شانہ بشانہ لڑ کر اپنے ممالک کو قابض جرمن فوجوں کے تسلط سے آزاد کروایا تھا۔

اس سے 1949 ء تک البانیہ، بلغاریہ، چیکوسلواکیہ، ہنگری، مشرقی جرمنی، پولینڈ، رومانیہ اور یوگوسلاویہ میں جنگ مخالف، کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور دیگر ترقی پسندوں کے متحدہ محاذوں نے ایک ایک کر کے اپنے ممالک کا اقتدار سنبھال لیا۔ ہاں البتہ یونان اور آسٹریا میں ترقی پسند کمزور تھے اور وہاں قوم پرستوں نے اقتدار سنبھال کر سرمایہ دارانہ نظام کو قائم رکھا۔

یورپ کے ابھرتے ہوئے نئے نقشے، سوشلزم کے ایک متبادل عالمی نظام کے طور پر ابھرنے نے مغربی یورپ کے سرمایہ دار ممالک کے محنت کش عوام پر بھی براہ راست اثرات ڈالے۔ سب سے اہم عمل جولائی 1945 ء میں برطانیہ میں ہوا جب وہاں کی لیبر پارٹی نے برطانیہ کے الیکشن میں فتح حاصل کر کے حیران کن طور دنیا کو سرپرائز کر دیا۔ لیبر پارٹی نے ان انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی، اور اس کے منتخب وزیر اعظم کلیمنٹ ایٹلی کی قیادت میں ایسی پالیسیاں اور اصلاحات نافذ کی گئیں، جو جنگ کے بعد اتفاق رائے کے نام سے مشہور ہوئیں۔

ان اصلاحات میں سماجی خدمات اور پبلک سیکٹر کو بڑھایا اور بہتر کیا گیا، فلاحی ریاست کا قیام عمل میں لایا گیا، ہر شہری کے مفت علاج کے لیے نیشنل ہیلتھ سروس قائم کیا گیا، اور ریلوے، ڈاک خانہ، بجلی، گیس سمیت عوامی سہولیات اور اسٹیل انڈسٹری سمیت بڑی صنعتوں کو قومی ملکیت میں لے لیا گیا۔ یہ بنیادی ڈھانچہ تو سوشلسٹ نظام سے لیا گیا تھا، لیکن اس کے ساتھ ساتھ نجی ملکیت کو قائم رکھ کر سوشلزم اور سرمایہ داری نظام کا درمیانہ راستہ اپنایا گیا۔

یورپ کے اس ابھرتے ہوئے نئے نقشے نے سامراجی ممالک میں زبردست ہلچل مچا دی۔ ان حالات میں امریکی سامراج نے کینیڈا اور مغربی یورپ کے 10 ممالک کو ملا کر 4 اپریل 1949 ء کو واشنگٹن میں نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن تشکیل دے دی، جسے عرف عام میں نیٹو کہتے ہیں۔ اس وقت نیٹو میں بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ، ہالینڈ، ناروے، پرتگال، برطانیہ اور امریکہ شامل تھے اور نیٹو کے قیام کا مقصد یہ بتایا گیا تھا کہ اسے 1917 ء کے روسی انقلاب اور بعد ازاں اگست 1945 ء میں دوسری عالم جنگ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والے سوشلسٹ بلاک سے مغربی یورپ کے ممالک کے وجود کو لاحق خطرات سے تحفظ فراہم کرنا ہے، اور یہ اتحاد ایک دفاعی لائن کے طور پر مغربی یورپ کے ممالک کا سوویت یونین سے دفاع کرے گا۔

بظاہر تو امریکی سامراج اور اس کے اتحادی حواریوں کی جانب سے یہ تاثر دیا جاتا تھا کہ یہ شمالی بحر اوقیانوس کے معاہدے کی تنظیم، سوویت یونین کی طرف سے لاحق خطرات کے جواب میں قائم کی گئی ہے۔ لیکن یہ صرف جزوی طور پر سچ تھا۔ کیونکہ نیٹو کی تشکیل امریکی سامراج کی جانب سے چار مقاصد کی تکمیل کے لیے ایک وسیع تر کوشش کا حصہ تھی، اول دنیا میں سوشلزم کے بڑھتے ہوئے خطرے کو روکنا، دوئم براعظم یورپ میں امریکہ کی مضبوط موجودگی کے ذریعے یورپ میں ابھرتی ہوئی قومی آزادی کی تحریکوں کو دبانا اور وہاں کے عوام میں قومی آزادی کے لیے بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے احیاء کو روکنا، سوئم سرمایہ دارانہ سیاسی نظام کی حوصلہ افزائی اور ان کی جانب سے ترقی پذیر ممالک کے وسائل کی لوٹ کو تحفظ فراہم کرنا، اور چہارم امریکہ کی دنیا بھر میں، بالخصوص یورپ میں معاشی، سیاسی اور فوجی بالادستی کو تسلیم کروانا شامل تھے۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کا بیشتر حصہ اس طرح تباہ ہو چکا تھا جس کا تصور کرنا بھی اب مشکل ہے۔ اس تنازعہ میں تقریباً 37 ملین یورپی ہلاک ہو چکے تھے، جن میں سے 19 ملین سے زیادہ عام شہری تھے۔ بھوک، ننگ اور بیماریوں کا یہ عالم تھا کہ ان ممالک میں نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح چار میں سے ایک تھی۔ لاکھوں یتیم بچے برسوں تک سابقہ ​​شہروں کے جلے ہوئے گھروں میں بھٹکتے رہے۔ صرف جرمن شہر ہیمبرگ میں نصف ملین افراد بے گھر تھے۔ اس تباہی نے مغربی یورپ کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک کی معیشت، صنعت اور سماجی نظام کو بھی بری طرح تباہ کر دیا تھا، جس سے ان ممالک میں وسیع پیمانے پر عوامی مزاحمت ابھر کر سامنے آئی۔

برطانیہ میں 1951 ء میں لیبر پارٹی کے اقتدار کے خاتمے نے نیٹو ممالک کی جانب سے سوویت یونین اور مشرقی یورپ میں سیاسی مہم جوئی کا آغاز کر دیا تو سوویت یونین اور مشرقی یورپ کے سوشلسٹ ممالک نے اپنے دفاع کو یقینی بنانے کے لیے متبادل تنظیم کے خد و خال پر غور و فکر شروع کر دیا۔ جب مغربی جرمنی نے 1955 ء میں لندن اور پیرس میں ہونے والی 1954 ء کی کانفرنسوں کی روشنی میں نیٹو میں شمولیت اختیار کر لی، تو مشرقی جرمنی میں متوقع مداخلت اور ملکی سالمیت کو درپیش خطرات کے پیش نظر سوشلسٹ ممالک نے 14 مئی 1955 ء کو پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں سوشلسٹ ممالک کی کانفرنس منعقد کر کے وارسا ٹریٹی آرگنائزیشن، جسے وارسا پیکٹ بھی کہتے ہیں، قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔

وارسا معاہدے نے سوشلسٹ ممالک کو نیٹو کے مقابلے میں ایک متحدہ فوجی کمان اور دوسرے شریک ممالک پر مشترکہ گرفت مضبوط کرنے کی منظم صلاحیت فراہم کی۔ وارسا معاہدے کے ذریعے سوشلسٹ ممالک نے جنگ باز مغربی ممالک کے مقابلے میں ایک مضبوط دفاعی لائن کھینچ دی، تاکہ اس کے حمایت یافتہ نظریات کے پھیلاؤ کو تحفظ فراہم کیا جا سکے۔ سوویت یونین کے انہدام کا عمل شروع ہوا اور سرد جنگ کا خاتمہ ہونے لگا تو 1990 ء میں مشرقی جرمنی نے مغربی جرمنی کے ساتھ دوبارہ الحاق کی تیاری کے دوران وارسا معاہدہ چھوڑ دیا۔ پولینڈ اور چیکوسلواکیہ نے بھی انخلاء کی شدید خواہش کا اشارہ دیا۔ بعد ازاں جون 1991 ء میں سوویت یونین کے انہدام کے ساتھ ہی وارسا پیکٹ بھی اختتام پذیر ہو گیا۔

سوویت یونین کو انہدام تک پہنچانے والے راہنما میخائل گوربا چوف کا اقتدار بھی اس کے ملک کے ساتھ ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس اثناء میں گوربا چوف اور اس کے بعد آنے والے حکمرانوں نے وارسا پیکٹ کے خاتمے اور سوویت یونین کے انہدام کی بنیاد پر نیٹو کو قائم رکھنے پر سوال اٹھائے، حتیٰ کہ رشین فیڈریشن کی نیٹو میں شمولیت کی خواہش کا بھی اظہار کیا۔ نیٹو کے بعض رکن ممالک نے بھی ایسی تجاویز دیں، لیکن کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔

جب 1991 ء میں مشرقی اور مغربی جرمنی کو یکجا کیا جا رہا تھا اور بعد ازاں متحدہ جرمنی نیٹو کا رکن بن گیا تو اس وقت بھی روسی صدر نے سوال اٹھایا کی دیگر مشرقی یورپین ممالک کو اگر نیٹو کا رکن بنایا گیا تو اس سے روس کی سلامتی کو خطرات لاحق ہو سکتے ہیں، اور روس یہ ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ امریکہ اور دیگر اتحادیوں نے یقین دہانی کروائی کہ سوویت یونین کے انہدام کے بعد نہ تو اس سے علیحدہ ہونے والے ممالک کو نیٹو میں شامل کرنے کی ضرورت باقی رہی ہے، اور نہ ہی ایسا کیا جائے گا؛ بلکہ روس کی سلامتی کو یقینی بنایا جائے گا۔

بعد ازاں 1999 ء میں نیٹو ممالک نے اس فوجی اتحاد کو وسعت دیتے ہوئے پولینڈ، ہنگری، اور چیک رپبلک کو نیٹو کا رکن بنا لیا تو روسی قیادت کی جانب سے اس پر سخت رد عمل دیا گیا۔ روسی صدر نے کہا کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو اس سے ہماری سیکیورٹی متاثر ہو گی اور ہمیں جواب دینا پڑے گا۔ امریکا اور اتحادیوں نے کہا کہ اچھا ہم نہیں کرتے، لیکن انہوں نے نیٹو کو وسعت دینے کا عمل جاری رکھا اور انہیں نیٹو کا ممبر بنا لیا۔ پھر 29 مارچ 2004 کو انہوں نے بلغاریہ، اسٹونیا، لتویا، رومانیہ، سلواکیہ اور سلوینیا کو نیٹو کا ممبر بنانے کا قدم اٹھایا تو پھر روسی قیادت چلائی تو امریکہ نے کہا ہم نے آپ کو کیا لکھ کر دیا تھا؟

اگر لکھ کر دیا تھا تو دکھلاؤ۔ پھر 2009 ء میں البانیہ اور کروشیا کو نیٹو میں شامل کر لیا تو احتجاج پر وہی جواب ملا، پھر 2017 ء میں مونٹی نیگرو اور 2020 ء میں نارتھ مثڈونیہ کو نیٹو میں شامل کر لیا گیا اور ان سب ممالک میں روس کے بارڈرز کے ساتھ ساتھ امریکی میزائلز نصب کر دیے گئے۔ پھر 2021 ء میں اعلان کیا گیا کہ ہرزیگوینا، بوسنیا، جارجیا اور یوکرین نیٹو کے ممبر بن رہے ہیں۔ یوکرین کی جغرافیائی حیثیت کا جائزہ لیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ وہاں امریکی میزائل لگانا یقیناً روس کی نیشنل سیکورٹی کو براہ راست چیلنج کرتا ہے۔

اسی لیے روس اور بیلاروس کی قیادت نے یوکرینی صدر زیلنسکی کو بڑے پیار سے سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ مہربانی فرما کر نیوٹرل رہیں، نہ ہی نیٹو کے ممبر بنیں اور نہ کسی کی طرف داری کریں کیونکہ یہ ہم برداشت نہیں کر سکتے کہ امریکی میزائل سسٹم ہمارے بارڈر پر نصب ہو جائے اور وہ آ کر ہمیں ماریں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے امریکہ ماضی میں یہ برداشت نہیں کر سکا تھا کہ اس کے قریب کیوبا میں سوویت یونین کے ہتھیار آئیں۔

روس یوکرین تنازعہ آٹھ سال قبل 2014 ء میں اس وقت شروع ہوا تھا جب ماسکو کے حامی صدر وکٹر یانوکووچ کو مغرب اور امریکا کی جانب سے بغاوت کروانے کے بعد معزول کر دیا گیا تھا، کیونکہ یانوکووچ نے یورپی یونین کے ساتھ قریبی تعلق اور نیٹو میں شمولیت کی پیشکش کو مسترد کر دیا تھا۔ یوکرین اس خوفناک تنازعہ میں ہرگز نہ کودتا اگر مغرب نے ان مظاہرین کی حمایت نہ کی ہوتی، جو وکٹر یانوکووچ کو ہٹانا چاہتے تھے، جو جمہوری طور پر یوکرین کے صدر منتخب ہوئے تھے، اور اپنی مدت پوری کرنے کے مستحق تھے۔

ان نازیوں اور انتہائی دائیں بازو کے کارکنوں کے مظاہروں کے ذریعے ان کی حکومت کا تختہ الٹنے سے ماسکو میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔ سامراجی ممالک کی جانب سے ایسے حالات پیدا کر دیے گئے تھے، جنہوں نے روس کو کریمیا کا الحاق کرنے پر مجبور کیا، اور مشرقی یوکرین میں روس نواز علیحدگی پسندوں کی حمایت کی اور ڈونباس میں لڑائی ختم کرنے کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ کیا گیا، لیکن ناکام رہا۔ اس کے بعد 2015 میں فرانس اور جرمنی کی ثالثی میں ایک اور معاہدہ ہوا۔ اس میں یوکرین کی طرف سے ملک کے روسی بولنے والے پسماندہ حصوں کو مکمل خود مختاری اور خصوصی حیثیت دینے کے لیے آئینی تبدیلیاں شامل تھیں، لیکن عمل درآمد نہ ہوا۔

نیٹو کی آڑ میں کام کرنے والی مغربی سامراجی طاقتیں مشرقی یورپ اور درحقیقت پوری دنیا میں باہمی جنگوں اور نفرت کی سیاست کی بنیادی ذمہ دار ہیں۔ سرد جنگ کے خاتمے کے تیس سالوں میں دنیا بھر میں دائیں بازو کی نسل پرستی شدت اختیار کر گئی ہے، کیونکہ مغربی سامراجی طاقتیں اور سب سے نمایاں طور پر امریکہ نے بین الاقوامی یکجہتی کے تمام اصولوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی ہے۔ اپنے سامراجی مفادات کے حصول کے لیے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے یوکرین کو نیٹو میں شامل ہونے کی دعوت دے کر اور خطے میں بڑے پیمانے پر اسٹریٹجک ہتھیاروں کی تعیناتی کے ذریعے وسیع تر اسلحے کی فروخت کی ہے، جس نے روس کو مسلسل مجبور کیا ہے کہ وہ بھی اپنے دفاع کے لیے متبادل اقدامات اٹھائے۔

سرمایہ دار اور موقع پرست عالمی قوتوں نے اس حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی ہے کہ عالمی سرمایہ داری کی بحالی کا مطلب مزدور طبقے اور محنت کش عوام کی تاریخی کامیابیوں کو ختم کرنا ہے، اور سابق سوویت یونین کے عوام کو طبقاتی استحصال اور سامراجی جنگوں کے دور کی طرف واپس لانا ہے۔ یوکرین کی صورتحال میں تبدیلیاں اجارہ دار سرمایہ داری کے ڈھانچے کے اندر ہو رہی ہیں، جن کا تعلق امریکہ، نیٹو اور یورپی یونین کے ان منصوبوں سے اور اس خطے میں ان کی اس مداخلت سے ہے، جو کہ مارکیٹوں، خام مال اور خطے کے ٹرانسپورٹ نیٹ ورک پر قبضے کے لیے سرمایہ داری نظام ہی کے حامل ملک روس کے ساتھ ان کے سخت مقابلے کے تناظر میں ہو رہی ہیں۔

گزشتہ دنوں یوکرین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ ہم یوکرین میں فاشسٹ اور قوم پرست قوتوں کی سرگرمیوں کی جانب سے اپنے ہی ملک میں کمیونسٹوں پر ظلم و ستم کرنے کی، روسی بولنے والی آبادی کے خلاف امتیازی سلوک کرنے کی، ڈونباس میں لوگوں کے خلاف یوکرین کی حکومت کے مسلح حملوں کی بھی مذمت کرتے ہیں۔ ہم یوکرین کی رجعتی سیاسی قوتوں کو استعمال کرنے کی مذمت کرتے ہیں، جن میں وہ فاشسٹ گروہ بھی شامل ہیں جنہیں یورو۔

اٹلانٹک طاقتیں اپنے منصوبوں کو عملی جامعہ پہنانے کے لیے استعمال کر رہی ہیں۔ نیٹو اور یورپی یونین کسی بھی سرمایہ دارانہ بین الاقوامی یونین کی طرح انتہائی رجعتی نوعیت کے شکاری اور جارحیت پرست اتحاد ہیں، جو عوام کے حامی نہیں بن سکتے اور محنت کشوں اور دیگر لوگوں کے حقوق کی جدوجہد کے خلاف اپنی کارروائیاں جاری رکھیں گے، کیونکہ سرمایہ داری سامراجی جنگوں کے ساتھ ساتھ چلتی ہے۔

روس اب ایک سرمایہ دار ملک ہے، اور اس کا معاشی نظام یورپین ممالک کی طرح نجی ملکیت پر قائم ہے۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد امریکی اور مغربی یورپین ممالک کے بڑے سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بورس یلسن کے ذریعے وسیع تر ریفارمز اور پرائیویٹائزیشن کے عمل کے دوران روس کو جی بھر کے لوٹا اور ملکی کرنسی کو کریش کروا کر ان کی صنعتوں اور بڑے کاروباری اداروں کو کوڑیوں کے بھاؤ خرید لیا۔ اس لٹ کھسوٹ کی بدولت ملک میں غربت، مہنگائی، بھوک، ننگ اور بے روزگاری بڑھی تو بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو گئے اور بالآخر 31 دسمبر 1999 ء کو مسٹر یلسن کو استعفیٰ دے کر اپنے نائب ولادیمیر پوٹن کو اقتدار سونپنا پڑا۔

پوٹن نے معاشی ڈہانچے کو تو نہ بدلا، لیکن امریکی سامراج اور اس کے مغربی حواریوں کی مداخلت کو بند کر کے اپنے ملک کی معیشت کا سنبھالا دیا۔ چونکہ روس معاشی اور فوجی طور پر ابھی بھی ایک مضبوط ملک ہے، اس لیے پوٹن نے مقامی طور پر نیشنل ازم کو ابھار کر چین کے ساتھ الحاق کیا اور عالمی طور پر ایک متبادل بلاک قائم کرنے اور امریکہ کی عالمی طور پر بالادستی کو کمزور کرنے میں ایم کردار ادا کیا۔ سب سے بڑھ کو چین اور روس نے امریکی ڈالر کے مقابلے میں اپنی مقامی کرنسی میں دیگر ممالک کے ساتھ تجارت کا آغاز کر دیا، جس نے سامراجی ایوانوں میں ایک بھونچال برپا کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی سامراج اور اس کے حواری روس اور چین کا تمام اطراف سے گھیراؤ کر کے انہیں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور اور ان کی معیشت کو تباہ کر دینا چاہتے ہیں۔

روس تیل اور قدرتی گیس کے ساتھ ساتھ اہم خام مال پیدا کرنے والا اپنے براعظم کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ عام روسی عوام بھی جنگ کے خلاف ہیں جیسا کہ حملے کے فوراً بعد ، وہ سڑکوں پر نکل آئے اور حملے کے خلاف نعرے لگائے، کیونکہ انہیں خدشہ ہے کہ یہ تنازعہ ایک ایٹمی جنگ کی صورت اختیار کر سکتا ہے، جو ممکنہ طور پر انسانیت کے وجود کو بھسم کر سکتی ہے۔ ہمیں خطے کے تمام ممالک کے عوام سے توقع ہے کہ وہ سرمایہ دارانہ طاقتوں کے اس پروپیگنڈے کے خلاف جدوجہد کریں گے جو عوام کو مختلف حیلے بہانوں سے سامراجی جنگ کی خون آشام چکی کی حمایت کی طرف راغب کرتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ فوجی اڈوں کی بندش، بیرون ملک بھیجے گئے فوجیوں کی وطن واپسی، سامراجی منصوبوں اور نیٹو اور یورپی یونین جیسے اتحادوں سے اپنے ملکوں کو الگ کرنے کی جدوجہد کو مضبوط کریں۔

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

پرویز فتح (لیڈز-برطانیہ)

پرویز فتح برطانیہ کے شہر لیذز میں مقیم ہیں اور برٹش ایروسپیس انڈسٹری سے وابستہ ہیں۔ وہ برطانیہ میں ساوتھ ایشین ممالک کے ترقی پسندوں کی تنظیم ساوتھ ایشین پیپلز فورم کورڈینیٹر ہیں اور برطابیہ میں اینٹی ریسزم اور سوشل جسٹس کے لئے سرگرم ہیں۔

pervez-fateh has 55 posts and counting.See all posts by pervez-fateh

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments