اپوزیشن جماعتیں اب دل و جان سے سیاسی میدان میں اتریں


اس کالم میںآپ کو اکتا دینے کی حد تک یہ سوال مسلسل اٹھاتا رہا ہوں کہ اگر اپوزیشن جماعتیں عمران حکومت کو پارلیمانی حربوں سے فارغ کرنا چاہ رہیں تھی تو ان کے حملے کا آغاز سپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے سے کیوں نہیں ہوا۔ قومی اسمبلی کے سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش ہو تو اس کا فیصلہ خفیہ رائے شماری کے ذریعے ہوتا ہے۔ عمران حکومت سے ناراض ہوئے ”اتحادی“ اور حکومتی اراکین اسمبلی اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اسد قیصر کو بآسانی شکست سے دو چار کرسکتے تھے۔ اسد قیصر کی شکست عوام کو یہ پیغام بھی دیتی کہ عمران حکومت قومی اسمبلی میں اکثریت کھو بیٹھی ہے۔ اس کی وجہ سے عمران خان صاحب شاید ازخود ایوان سے ایک بار پھر اعتماد کا ووٹ لینے کو مجبو رہو جاتے۔

اسلام آباد سے سینٹ کی ایک سیٹ یوسف رضا گیلانی کے ہاتھوں ہارنے کے بعد وزیر اعظم اس کے لئے مجبور ہوئے تھے۔اب کی بار شاید وہ اس جانب بڑھنے سے گریز کی راہ اختیار کرتے۔ ان کا گریز انہیں اخلاقی اعتبار سے کمزور بنا دیتا۔ ممکنہ کمزوری اپوزیشن کی جانب سے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کو مناسب پذیرائی فراہم کردیتی۔

سپیکر کے خلاف تحریک عدم اعتماد سے گریز کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتیں براہ راست عمران خان صاحب پر حملہ آور ہوئیں تو میں اس کی ٹائمنگ کی بابت بھی سوالات اٹھانا شروع ہوگیا۔ میری دانست میں وزیر اعظم کی حقیقی مشکلات کا آغاز رواں برس کے جون میں شروع ہونا تھا۔ مقامی اور عالمی منڈی کے حقائق آئی ایم ایف کے سخت گیر رویے کے ساتھ مل کر حکومت کو اس ماہ ایسا بجٹ تیا کرنے کو مجبور کردیتے جو عوام کی اکثریت کو حواس باختہ بنا دیتا۔ ان کی مایوسی کو غصے کی صورت دیتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے عمران خان صاحب کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد ہر حوالے سے ایک واجب حربہ محسوس ہوتی۔

ملکی سیاست کا کئی دہائیوں سے سرگرم شاہد ہوتے ہوئے میں اپوزیشن کے چند سرکردہ رہ نماﺅں سے بھی تنہائی میں ہوئی ملاقاتوں کے دوران مذکورہ سوالات اٹھاتا رہا۔ اپنی کامیابی کے بارے میں ضرورت سے زیادہ پر اعتماد نظر آتے رہ نمامگر میرے سوالات کو کج بحثی تصور کرتے ہوئے نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے۔ میرے اصرار نے چند رہ نماﺅں کو محض یہ ”اطلاع“ دینے کو مائل کیا کہ ”وہ نیوٹرل“ ہو گئے ہیں۔ عمران خان اپنے تئیں تحریک انصاف کے ناراض اراکین اور اتحادیوں کو قابو میں رکھنے کے قابل نہیں۔ انہیں وزارت عظمیٰ کے منصب سے فارغ کرنے کا ماحول لہٰذا بن گیا ہے۔ گرم ہوئے توے پر روٹی پکا لینا چاہیے۔

جو دلائل مجھے خاموش کرنے کو تراشے گئے ہرگز منطقی اور اطمینان بخش محسوس نہ ہوئے۔ انہوں نے تحریک عدم اعتماد کی بابت میرے تجسس کو بلکہ مزید بھڑکا دیا۔ بالاخر گفتگو کی روانی میں اپوزیشن کے ایک سینئر رہ نما نے 29 مئی 2022 کا سرسری ذکر کر دیا۔ اس تاریخ کے ذکر نے مجھے فی الفور سمجھا دیا کہ تحریک عدم اعتماد کا اصل ہدف عمران حکومت کی فراغت نہیں بلکہ ایک طاقت ور شخصیت کی نومبر میں”خالی“ ہونے والے طاقت ور ترین عہدے پر تعیناتی روکنا مقصود ہے۔ سیاسی اعتبار سے یہ خواہش مجھے ہر حوالے سے بودی اور بچگانہ محسوس ہوئی۔

اپوزیشن جماعتیں ٹائمنگ کے تقاضوں کو بھلا کر وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے ذریعے براہ راست حملہ آور ہوئیں تو عمران خان صاحب بھی تخت یا تختہ والی جنگ جیتنے کے لئے ”آخری گیند تک“ لڑنے کو ڈٹ گئے۔ ان کے قانونی مصاحبین نے کمال مہارت سے ایسے تاخیری حربے متعارف کروائے جنہوں نے ہمیں یہ سوچنے کا موقعہ ہی نہیں دیا کہ عمران خان صاحب تخت یا تختہ والی جنگ جیتنے کے لئے سپیکر کے اختیارات پر کامل انحصار کئے ہوئے ہیں۔ اپنی جماعت سے ”منحرف“ ہوئے اراکین کے خلاف انہوں نے شہر شہر جا کر ”غداری“ کی داستان سنانا بھی شروع کردی۔ اپنے مداحین اور دیرینہ حامیوں سے بھرپور اور مسلسل رابطے کے ذریعے تخت یا تختہ والے ماحول کو آتش فشاں بناتے رہے۔ بالاخر پاکستان کے واشنگٹن میں تعینات سفیر کی جانب سے آئے ایک ”مراسلے“ کا ذکر شرو ع ہوگیا۔ مذکورہ مراسلے کے مسلسل ذکر نے عوام کی موثر تعداد کو یہ سوچنے کو مائل کیا کہ امریکہ عمران خان صاحب کی ”آزاد خارجہ پالیسی“ سے اکتا گیا ہے۔ یوکرین پر حملے سے محض ایک دن قبل ان کی روسی صدر پوٹن سے ماسکو میں ہوئی ملاقات نے بائیڈن انتظامیہ کو مزیداشتعال دلایا۔ واشنگٹن غضب ناک ہوکر ان کی حکومت گرانے کو تل گیا ہے۔

حقائق جو بھی رہے ہوں پاکستانیوں کی موثر تعداد یہ سوچنے کو مائل ہوئی کہ عمران خان صاحب کو اپوزیشن جماعتیں ازخود وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹانا نہیں چاہ رہیں۔ وہ درحقیقت واشنگٹن سے آئے ”حکم“ کی بدولت متحرک ہوئی ہیں۔ اپوزیشن جماعتیں اپنے درمیان انتہائی ”تجربہ کار سیاست دانوں “ کے ہجوم کے ہوتے ہوئے بھی یہ اندازہ نہ لگا پائیں کہ عمران صاحب خود کو امریکہ کے خلاف ڈٹ کر کھڑے ”خودمختار دلاور“ کی صورت پیش کر رہے ہیں۔ اس تاثر کو میڈیا کے موثر استعمال کی بدولت جھٹلانے کے بجائے اپوزیشن رہ نما اتحادی جماعتوں اور تحریک انصاف کے ناراض اراکین کے ناز نخرے اٹھانے میں مصروف رہے۔ صحافیوں سے ”اپنی گیم“ انہوں نے ہر صورت چھپانے کی حماقت بھی جاری رکھی۔

بالاخر عمران حکومت نے اتوار کی دوپہر آئین کے آرٹیکل 5-A کی فواد چودھری کے ہاتھوں من پسند تشریح کروانے کے بعد ڈپٹی سپیکر کو یہ کہتے ہوئے تحریک عدم اعتماد پر گنتی کے بجائے اسے ”مسترد“ کرنے کا جواز فراہم کردیا کہ مذکورہ تحریک درحقیقت ”قومی سلامتی اور خودمختاری“ کے خلاف دشمن ممالک کی جانب سے تیار ہوا حربہ ہے۔”قومی سلامتی“ کے نام پر تراشے جواز نے آئین کی ان شقوں کو بھی ڈھٹائی سے نظرانداز کردیا جو کسی وزیر اعظم کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر ہر صورت گنتی کا تقاضا کرتی ہیں۔بات مگر یہاں بھی ختم نہیں ہوئی۔ قاسم سوری کی جانب سے تحریک عدم اعتماد مسترد کردینے کے فوری بعد عمران خان صاحب نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے موجودہ اسمبلی کی تحلیل کا اعلان بھی کر دیا۔ اپوزیشن رہ نما اس کے بعد ہکا بکا ہوئے نظرآ رہے ہیں۔

نظر بظاہر قاسم سوری کے ہاتھوں آئین کی جو ”پائمالی“ ہوئی ہے سپریم کورٹ نے اس کا ازخود نوٹس بھی لے لیا ہے۔ خوش گماں افراد کے ہاتھوں پر غمال بنی اپوزیشن جماعتیں اب یہ امید باندھے ہوئے ہیں کہ سپریم کورٹ انہیں ”انصاف“ فراہم کرے گی۔ اتوار کے روز جو واقعات ہوئے ہیں ان کے بارے میں وطن عزیز کی اعلیٰ ترین عدالت کیا فیصلہ سنائے گی اس کے بارے میں قیاس آرائی کا مجھ جیسے پرانی وضع کے صحافی سوچ بھی نہیں سکتے۔ تاریخ یاد کرلینے میں تاہم کوئی حرج نہیں۔

طویل مارشل لاء کے بعد 1985 میں قائم ہوئی قومی اسمبلی کو صدر ضیا نے 29 مئی 1988 کے دن برطرف کردیا تھا۔ جونیجو حکومت کے ایک وزیر حاجی سیف اللہ مرحوم نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔سپریم کورٹ نے فوری سماعت سے گریز کیا۔17 اگست 1988 کے روز جنرل ضیاءکی فضائی حادثے میں رحلت کے بعد مگر حاجی سیف اللہ کی جانب سے پیش ہوئی درخواست کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوگئی۔ مذکورہ سماعت کے دوران عزب ماب ججوں کے تندوتیز ریمارکس نے یہ فضا بنائی کہ شاید جونیجو حکومت بحال کردی جائے گی۔

جونیجومرحوم بھی اس فضا کی بدولت متحرک ہوگئے۔روزانہ اچکن پہن کر سپریم کورٹ جاتے اور بعدازاں اسلام آباد کے ای-سیون میں وقع ایک گھر میں بیٹھے ان سیاست دانوں سے مبارک دیں وصول کرنے میں مصروف ہو جاتے جنہوں نے انہیں 29 مئی 1988 کے بعد ملنا بھی ترک کر دیا تھا۔ بالاخر جو فیصلہ آیا اس نے واضح الفاظ میں یہ طے کردیا کہ جنرل ضیاءکی جانب سے جونیجو حکومت اور ان دنوں کی قومی اسمبلی کی برطرفی اور تحلیل ”غیر آئینی“ تھی۔جنرل ضیاءکے اقدامات کو ”غیرآ ئینی“ ٹھہراتے ہوئے بھی مگر اس ”حقیقت“ کی جانب توجہ دلائی کہ عوام ”نئے انتخاب“ کے شدت سے منتظر ہیں۔ ان کی راہ میں روڑے نہ اٹکائے جائیں۔ جان کی امان پاتے ہوئے اس خدشے کے اظہار کو مجبور محسوس کر رہا ہوں کہ اتوار کے دن قاسم سوری اور عمران خان صاحب نے جو حیران کن اقدامات لئے ہیں ان کی بابت بھی ویسا ہی کوئی فیصلہ آ سکتا ہے جو 1988 کے انتخاب کو یقینی بنانے کے کام آیا تھا۔ اپوزیشن جماعتوں کے لئے بہتر یہی ہوگا کہ عدالت سے اپنی مشکلات کا حل ڈھونڈنے کے بجائے اب دل وجان سے سیاسی میدان میں اتریں اور عمران خان صاحب کے دوسری بار ”عوام کے ووٹ سے“ وزیر اعظم منتخب ہونے کے امکان کا تدارک تلاش کرنے کی کوشش کریں۔
(بشکریہ نوائے وقت)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments