کیا ہم گھٹیا ترین تہذیبی منافقت کے قابل بھی نہیں رہے؟


آئین کاغذ کے چند ٹکڑوں کا پلندا ہی تو ہے لیکن وہ لوگ، جنہیں انسان ہونے کا شرف حاصل ہے، وہ اس کے حوالے سے اس قدر حساس کیوں ہو جاتے ہیں؟

کیا وجہ ہے کہ انسانوں کی کثرت آئین کے حوالے سے حساس نہیں ہوتی بلکہ بہ امر مجبوری لکیر کا فقیر بنتے ہوئے اس کا احترام کرتی ہے؟ کیا یہی وجہ ہے کہ ہر طاقتور آئین میں درج الفاظ کی من پسند تشریح کر کے اپنی حرکتوں کا جواز تراشنے میں مصروف رہتا ہے؟ آئین کی روح کو سمجھنے کے لیے کس شعوری و عقلی سطح پر ہونا ضروری ہے؟

آئین کی روح کو آمرانہ رویے مسخ کرتے ہیں۔ آمر ایک ایسا شخص ہوتا ہے، جو جبلی تسکین چاہتا ہے۔ ایک ایسا شخص، جس میں ہم دلی کا فقدان ہوتا ہے اور شعور ترقی یافتہ نہیں ہوتا۔ ایسا شخص کانٹینٹ نہ ہونے کے سبب ایک جیسے لفظوں جملوں اور خیالات کی جگالی کرتا رہتا ہے۔ بدقسمتی سے وہ عقلی تعصبات تو ایک طرف عام تعصبات کو پہچاننے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔

وہ بہت دیانتداری سے یہ بھی سمجھتا ہے کہ قوم کو وہی پار لگا سکتا ہے۔ وہ سب سے بہتر ہے اور خدا نے اس سے بہت بڑا کام لینے کے لیے اس کو منتخب کیا ہے۔ ایسے شخص کا بہترین ہتھیار مذہب یا قوم پرستی کا استعمال ہوتا ہے۔ جامد ذہنوں کو اکٹھا کر کے وہ گروہ تشکیل دیتا ہے۔ آمر ذہن بوقت ضرورت گروہ کو پر تشدد کارروائیوں پر اکساتا ہے اور ایسی کارروائیوں پر ستائش کی نظر سے دیکھتا ہے۔

انا کے اس پیکر کی گفتگو میں ”میں میں“ کی بھرمار ہوتی ہے۔ نظام اس کے لیے تب تک بہترین ہے، جب اس کے مقاصد کو مدد فراہم کر رہا ہو لیکن اگر نظام رکاوٹ کھڑی کرے تو آمر اپنے قد کو نظام سے بالا تصور کرتا ہے اور اس کو لپیٹنے یا نقصان پہنچانے سے باز نہیں آتا۔ اس کے نزدیک آئین واقعی ایک کاغذ کا ٹکڑا ہوتا ہے۔

دنیا کے ہر آمر میں یہ خصوصیات مشترکہ ہوتی ہیں۔ اس کی سوچ موضوعی ہوتی ہے اور معروضی طرز فکر سے یکسر محروم ہوتا ہے۔ دلجمعی سے نفرت جیسے جبلی تقاضوں کی پرورش اور اظہار کرتا رہتا ہے۔ اس کی زندگی کا غالب مقصد طاقت کا غیر مشروط حصول اور مخالفین سے بدلہ لینا ہوتا ہے جبکہ دوسری طرف انسانی ترقی معروضی طرز فکر پر بنیاد رکھتی ہے۔ ماہرین نفسیات کے نزدیک انسانوں کی اکثریت ایسی ہی ہوتی ہے۔ جبکہ دوسری طرف قانون یا آئین سازی ایسے افراد کی جبلی خواہشات کے آگے بند باندھنے کا نام ہے۔

آئیے فرائیڈ، ژونگ اور آئن سٹائن کے در پر حاضری دیتے ہیں اور رہنمائی کی درخواست کرتے ہیں۔ فرائیڈ کے نزدیک انسانی ذہن کی ایک بہت ہی اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ تنزل کی بھی کمال صلاحیت رکھتا ہے، جب چاہے زمانہ جاہلیت کے ان وحشی افراد جیسا بن سکتا ہے، ان قدیم زمانوں کو لوٹ سکتا ہے۔

ذہن کسی بھی وقت اپنی قدیم ترین حالت کو پلٹ سکتا ہے۔ اسی خیال کو فرائیڈ نے ایک اور انداز سے کچھ یوں تحریر کیا ہے کہ ”لاشعور معمولی غلطی پر بھی موت سے کم سزا تجویز نہیں کرتا۔ ایتھنز کے قدیم قانون میں، جسے کوڈ آف ڈارکو کہتے ہیں، اس میں ہر جرم کی سزا صرف موت تھی۔ ہر وہ غلطی جو ہماری عظیم الشان انا کو زک پہنچائے اس کی سزا موت ہونی ہونی چاہیے۔“ اسی لیے فرائیڈ انسانوں کو وحشیوں اور قاتلوں کا جتھا تصور کرتے ہیں۔

جبکہ دوسری طرف عقل اور جبلت کا موازنہ کیا جائے تو فرائیڈ اس معاملے میں بہت واضح ہیں۔ ان کے نزدیک تہذیب کی گھٹیا ترین منافقت بھی جبلت کے بے لگام اظہار سے بہتر ہے۔ یہ ذہن میں رہے کہ اگر دونوں میں طاقت کا موازنہ کیا جائے تو جبلت کو عقل پر واضح برتری حاصل ہے۔

شعور کی بہتر سطح پر بہت کم لوگ پہنچتے ہیں۔ اکثریت ایسے انسانوں کی رہی ہے، جو جبلی تقاضوں کے آگے شعوری بند باندھنے سے قاصر رہتی ہے۔ یہ بند تب ہی باندھا جا سکتا ہے، جب شعور بہترین تربیتی مراحل سے گزر چکا ہو۔ جنگ بالخصوص ایک ایسا معاملہ ہے، جس میں جبلت پر شعور کی چھوٹی پابندیاں بھی بے اثر ہو جاتی ہیں۔

دوسرا معاملہ گروہوں کا ہے۔ کوئی فرد انفرادی سطح پر اس قدر بدتمیز نہیں ہو سکتا، جس قدر وہ ایک گروہ کے رکن کے طور پر ہوتا ہے۔ فرد اپنا رویہ اس قدر تبدیل کیوں کر لیتا ہے؟ گروہ کا اجتماعی ذہن کیا ہے اور فرد پر کس طرح اثر انداز ہوتا ہے اور گروہ کا رکن فرد اس قدر اوسط درجے کا کیوں نظر آتا ہے؟ اس گروہی رویے پر فرائیڈ کا کام بے مثل ہے لیکن آئیے فرائیڈ کے اس فقرے کی ہم مل کر تعریف کریں کہ ”گروہ کی حرکات جس قدر ادنیٰ اور پست ہوں گی اسی قدر تیزی سے پھلیں گی۔“

آپ کو معلوم ہے کہ ہماری تاریخ قتل و غارت سے بھرپور ہے۔ بیسویں صدی میں اوسط دماغ نے انسان کو دو بڑی جنگوں میں جھونک دیا۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد فرائیڈ اور آئن سٹائن کے مابین کچھ خطوط کا تبادلہ ہوا۔ ان خطوط میں کیے گئے مباحث کی بنیاد پر لیگ آف نیشنز اور بعد ازاں اقوام متحدہ کا قیام عمل میں آیا۔ 30 جولائی 1932 میں لکھے گئے ایک خط میں آئن سٹائن نے فرائیڈ سے رہنمائی طلب کی کہ انسان کو جنگ کی لعنت سے نجات کا کوئی طریقہ ہے؟

آئن سٹائن نے اپنے اس خط میں ایک بین الاقوامی ادارے کا خیال پیش کیا کہ عالمی برادری کے تعاون سے ایک ایسا قانونی یا عدالتی ڈھانچہ قائم کیا جانا چاہیے، جو تنازعات کو حل کرے۔ اس کو ہم بین الاقوامی آئین بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس خط میں آئن سٹائن نے بہت سارے سوالات، جو انسانی نفسیات سے متعلق تھے، فرائیڈ کے سامنے رکھ دیے۔

مثال کے طور پر ایک سوال یہ تھا کہ ”انسان کے ذہن سے نفرت و تشدد کے جذبات کیسے نکالے جا سکتے ہیں؟ یہاں پر میں اکثریت کی بات نہیں کر رہا بلکہ میرا اشارہ اس نام نہاد دانشور طبقے کی جانب ہے، جو خود بھی ان جذبات کا آسانی سے شکار ہو جاتا ہے۔“ فرائیڈ نے ان خطوط کے مفصل جواب دیے اور یوں جانیے کہ انفرادی اور گروہی نفسیات کا نچوڑ پیش کر دیا۔ انہوں نے بین الاقوامی آئین کی حمایت کی اور کہا کہ اس وقت تک عالمی امن کا خواب پورا نہیں ہو سکتا، جب تک کہ ہر ملک اپنی جزوی خود مختاری کسی بین الاقوامی ادارے کے پاس رہن نہ رکھ دے۔

ژونگ اجتماعی لاشعور اور ان میں صدیوں سے پوشیدہ آرکی ٹائپس کی بات کرتے ہیں۔ جس طرح ایک فرد کے ناآسودہ جبلی تقاضے ایک شیڈو یا سایہ بناتے ہیں، اسی طرح افراد کے مجموعے کا بھی ایک شیڈو اور اجتماعی لاشعور ہوتا ہے۔ شیڈو یا سائے کو انٹیگریٹ کرنے کے مثبت رویے نہ اپنائے جائیں تو گروہ میں فرد منفی رویوں سے اس کو اینٹی گریٹ کرتا ہے۔

آئین کی روح یہ ہے کہ انسانوں کی اکثریت، جو شعوری حوالے سے اس قدر ترقی یافتہ نہیں ہوتی اور ان کے اندر جبلی اظہاریے نمایاں ہونے میں کوئی رکاوٹ نہیں پاتے، ان کی راہ میں ایک رکاوٹ قائم کی جائے۔ جب عدالتیں آئین کی تشریح کرتی ہیں تو مثالی تشریح وہی کہلا سکتی ہے، جس میں آئین کی روح کا خیال رکھا گیا ہو۔

آمرانہ رویے کے لیے وہ ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے لیکن آمر کی عارضی زندگی کے مقابلے میں آئین نسلوں کی بقا اور ان کی ترقی کا ضامن ہوتا ہے۔ انسانی زبان محدود ہے۔ آمرانہ رویہ، یعنی جبلی رویہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے لفظوں کے پیچھے ہزار معنی تلاش کر کے اپنے لیے جواز فراہم کر لیتا ہے اور تاریخ میں ہم نے دیکھا ہے کہ آمر اگر بہت زیرک نہ ہو تو بعض اوقات اس کو یہ سہولت عدالت فراہم کر دیتی ہے۔ جبلت کی تسکین تو ہو جاتی ہے لیکن نسل انسانی کی ترقی کا سفر معکوس ہو جاتا ہے۔

آپ کو معلوم ہے خیال آئین کی اولادیں کون سی ہیں؟

اظہار آزادی رائے، خواتین کے حقوق، ووٹ دینے کا حق، بنیادی تعلیم ہر شہری کا حق، مذہبی و دیگر وابستگیوں سے بالاتر ہر شہری ریاست کی نظر میں برابر، جنسی ہراسانی جرم اور ایسے سیکڑوں خیال آئین کے ایسے بچے ہیں، جن کی ہمیں قدر نہیں۔ ان میں جب کوئی بچہ آمر کے ہاتھوں قتل ہوتا ہے، تب ہم باں باں کرتے ہیں۔ جان لیجیے! آمر وہ عفریت ہے، جو ان بچوں کو کھا جاتا ہے۔
بشکریہ ڈوئچے ویلے اردو۔

وقار احمد ملک

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وقار احمد ملک

وقار احمد ملک اسلام آباد میں مقیم ایک صحافی ہے۔ وہ لکھتا نہیں، درد کی تصویر بناتا ہے۔ تعارف کے لیے پوچھنے پر کہتا ہے ’ وقار احمد ملک ایک بلتی عورت کا مرید اور بالکا ہے جو روتے ہوئے اپنے بیمار بچے کے گالوں کو خانقاہ کے ستونوں سے مس کرتی تھی‘ اور ہم کہتے ہیں ، ’اجڑے گھر آباد ہوں یا رب ، اجڑے گھر آباد۔۔۔‘

waqar-ahmad-malik has 180 posts and counting.See all posts by waqar-ahmad-malik

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments