ایک ٹکے کے سیاستدان


موجودہ سیاسی صورتحال خصوصاً شہر اقتدار کا ماحول جس میں ایک جانب ہارس ٹریڈنگ اور دوسری آئین شکنی ہو رہی ہے۔ اور نقطہ کمال یہ کہ دونوں ہی فریقین ایک دوسرے کو غدار گردان رہے ہیں۔ لیکن اس تمام صورتحال میں عوام یاں عوام کی فلاح دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ ان حالات کو دیکھ کر

ہماری سیاست اس قدر اخلاقی گراوٹ اور تنزلی کا شکار ہے اس کی قدر و وقعت دو ٹکے سے بھی نیچے گر چکی ہے۔ ہمارے ایک ٹکے کے سیاستدانوں نے سیاست کو اس قدر داغدار کر دیا ہے کہ آج لفظ سیاست ایک گالی بن کر رہ گیا ہے۔ آج یہاں کوئی معزز و شریف بندہ خصوصاً کوئی مذہبی بندہ اٹھے اور کہے کہ میں سیاست میں آ رہا ہوں تو اس کا اپنا حلقہ احباب ہی اسے کہے گا کہ تمہارا کیا کام سیاست میں؟ حالانکہ سیاست اور دین تو لازم و ملزوم ہیں جس کا ثبوت واقعہ کربلا ہے۔

آج پاکستان کی پارلیمنٹ کو گھوڑوں کا اصطبل کہہ کر پکارا جا رہا ہے حالانکہ پارلیمنٹ تو ایک ایسا مقدس ایوان ہے جہاں قرآن و حدیث کی رو سے آئین میں ترامیم اور قانون سازی کی جاتی ہے۔ اب سوال تو یہ ہے کہ ملک پاکستان میں سیاست کو آخر اتنا بدنام کس نے کیا؟ تو جناب جواب یہ ہے کہ ”ہمارے ایک ٹکے کے ضمیر فروش اور مفاد پرست سیاستدان“

یہ جو پچھلے پورے مہینے سے سیاسی تماشا چل رہا ہے، یہ کیا ہے؟ یہ محض اقتدار اور مفاد کی جنگ ہے۔ آخر کیا ایسی چیز ہے جس نے آصف علی زرداری، شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن کو اکٹھے بیٹھنے پر مجبور کر دیا؟ تو جواب ہے اقتدار اور ذاتی مفادات۔ آخر وہ کیا ایسی چیز ہے جس نے اتحادی پارٹیوں کو حکومت سے علیحدگی پر مجبور کر دیا؟ تو جواب یہ ہے کہ اپوزیشن نے حکومت سے زیادہ بڑی آفر دے دی تھی۔ یعنی یہاں بھی وجہ صرف اقتدار اور ذاتی مفادات ہیں۔

اب یہاں پر سوال یہ ہے کہ اس سارے تماشے میں کہیں عوام یاں عوام کی فلاح کا ذکر ہے؟ کیا عمران خان نے اس قوم کو امریکہ کی غلامی سے آزاد کروا کر عوام کے معاشی مسائل حل کر دیے ہیں؟ کیا اپوزیشن نے تحریک عدم لا کر عوام کے روٹی، کپڑا، مکان جیسے مسائل حل کر دیے؟ ان تمام سوالات کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے ”قطعاً نہیں۔“ سیاست اور حکمرانی تو یہ تھی کہ خلیفہ ثانی عمر فاروق رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ اگر فرات کے ساحل پر کوئی کتا بھی بھوکا مر گیا تو کل عمر سے اس کا بھی حساب لیا جائے گا۔

اب سوال تو یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست کا معنی بدلنے والے کون ہیں؟ اب بھی وہی جواب ہے ہمارے ”ایک ٹکے کے سیاستدان“ ۔ اب میرا پاکستان کی عوام سے سوال ہے کہ جب ہمارے سیاستدانوں کے ہاں سیاست کا معنی عوام کی فلاح نہیں بلکہ ذاتی مفاد اور لوٹ کھسوٹ ہے تو پھر آپ کیوں ان ایک ٹکے کے سیاستدانوں کے نعرے لگاتے ہیں اور جانیں دینے کے دعوے کرتے ہیں؟ کیا یہ کھلی جہالت نہیں ہے؟ خدارا! آنکھیں کھولیں اور اس ذہنی غلامی سے باہر نکلیں اور پاکستان کے موجودہ سیاسی نظام کو سمجھنے کی کوشش کریں۔ اور دعا کریں اللہ رب العزت اس قوم کو اس فرعون نما سیاسی نظام کو نیست و نابود کرنے والا موسیٰ نصیب فرما۔ آمین ثم آمین

اور آخر میں اپنے ایک ٹکے کے سیاستدانوں کو واصف علی واصف رحمتہ اللہ کا ایک تاریخی جملہ یاد کروانا چاہتا ہوں کہ

”زندگی ایک بیماری ہے اور اس کا انجام موت ہے۔“


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments